بنگلہ دیش میں عوامی مزاحمت کے بعد پانچ اگست کو حسینہ واجد کی اقدار سے بے دخلی کے بعد انڈیا کے ساتھ تعلقات میں بتدریج تلخی اور تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
53 برس قبل مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں کار فرما انڈین منصوبہ بندی اور مداخلت کا اقرار انڈین وزیراعظم نریندر مودی سمیت متعدد اعلٰی عہدیدار عوامی سطح پر کر چکے ہیں۔
آج بنگلہ دیش میں انڈین مخالف جذبات کی سیاسی، معاشی اور تہذیبی وجوہات خبروں اور مباحثوں کا مرکز بنی رہتی ہیں۔
مگر دونوں ہمسایوں کے تعلقات اور تاریخ میں موجود ایک نفسیاتی گرہ ایسی بھی ہے جس سے محیر العقول کہانیوں سے مشابہ واقعات جنم لیتے رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کی آزادی کی لڑائی میں ہیرو مانے جانے والے میجر عبدالجلیل کی سوچ اور زندگی میں ڈرامائی تبدیلی کا تعلق بھی بنگلہ دیش کے بارے میں انڈین پالیسیوں سے بیزاری سے جڑا ہوا تھا۔
پاکستانی فوج کے خلاف بغاوت کرنے والے مکتی باہنی کے کمانڈر کی زندگی کا آخری عرصہ پاکستان میں پشیمانی، بے بسی اور بیماری میں کیوں بسر ہوا؟
اس کی تفصیل جاننے سے قبل ایک باغی کے ڈھاکہ سے اسلام اباد واپسی کے سفر کے مراحل اور محرکات کا جائزہ لیتے ہیں۔
میجر عبدالجلیل کون تھا؟
عبدالجلیل 1971 میں پاکستانی فوج میں میجر کے عہدے پر فائز تھے۔ اپریل 1971 میں ایسٹ بنگال ریجمنٹ کے دیگر بنگالی فوجی افسروں کی طرح وہ بھی باغی ہو کر انڈیا کی امداد سے بننے والے باغی گروہ مکتی باہنی سے جا ملے۔
ان کا جنم فروری 1942 میں مشرقی بنگال کے ضلع باریسال کے علاقے وزیر پور میں ہوا۔ 1962 میں پاکستان آرمی میں کمیشن لیا۔ 1965 میں کپتان اور 1970 میں میجر کے عہدے پر ترقی ملی۔
میجر عبدالجلیل کا تعلق فوج کے بکتر بند دستوں سے تھا۔ اس نے باقاعدہ منصوبہ بندی اور باغی سپاہیوں اور مکتی ہاہنی کے رضاکاروں کو اکٹھا کر کے پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کا محاذ کھول دیا۔
بنگلہ دیش کی آزادی کی لڑائی میں ہیرو مانے جانے والے میجر عبدالجلیل نے زندگی کا آخری حصہ پاکستان میں بےبسی میں گزارا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
مئی 1971 میں اس نے باریسال پر قبضہ کر لیا۔ یہ خلیج بنگال کی طرف بہتے دریاؤں پر واقع اہم بندرگاہ والا شہر تھا۔
اپریل 1971 میں ایک اور باغی میجر ضیاء الرحمان نے پہلی بار بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا تھا۔ میجر عبدالجلیل نے بھی باریسال پر قبضہ کے بعد یہاں بنگلہ دیش کا پرچم لہرانے کا اہتمام کیا۔
اس کے ساتھیوں نے باریسال کے ڈپٹی کمشنر آفس کے ایک قاصد کو پاکستانی پرچم اتارنے کا حکم دیا تاکہ اس کی جگہ بنگلہ دیش کا پرچم لہرا سکیں۔
24 برس تک روزانہ پاکستانی پرچم لہرانے کی ڈیوٹی کرنے والے بنگالی ملازم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ میجر عبدالجلیل کے ساتھیوں نے اسے بے رحمی سے پھانسی دے کر علاقے میں اپنا پرچم لہرایا۔
انڈین سرزمین پر قدم رکھنے سے انکار
باغیوں کی اس کارروائی کے بعد پاکستانی فوج کی 22ویں فرنٹیئر فورس کو باریسال پر باغیوں کا قبضہ ختم کرانے کا مشن سونپا گیا۔ اس آپریشن میں میجر ثمین جان بابر کے ہمراہ کپٹین آفتاب احمد نے بھی حصہ لیا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں بغاوت کے الزام میں کورٹ مارشل کی سزا پانے والے میجر آفتاب احمد نے اپنی کتاب ’ہارن کھیڈ فقیرا‘ میں میجر عبدالجلیل کے ساتھ اپنی معرکہ آرائی کی تفصیل بیان کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ کھلنا بندرگاہ سے نیوی کی کشتیوں پر سوار ہو کر فوجی دستے دریائے میگھنا سے گزرتے ہوئے باریسال کی جانب بڑھے۔ شدید لڑائی کے بعد انہوں نے باغیوں کو شہر سے پسپائی پر مجبور کر دیا۔ عبدالجلیل کے ساتھی فرید پور اور وہ خود خلیج بنگال کے جزیروں کی طرف فرار ہو گیا۔
مگر اپنی افرادی قوت کو بحفاظت نکال لے جانے کی وجہ سے وہ اگلے چھ ماہ تک سندر بن کے جنگلات سے چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھنے کے قابل ہو گیا۔
سندربن اور باریسال کے علاقوں میں میجر عبدالجلیل اور ایک اور باغی افسر کیپٹن حفیظ الدین نے مل کر مکتی باہنی کے رضاکاروں کو چھاپہ مار کارروائیوں کی تربیت دینے کا نظام قائم کیا۔
عبدالجلیل 1971 میں پاکستانی فوج میں میجر کے عہدے پر فائز تھے جو بعد میں مکتی باہنی سے جا ملے۔ فوٹو: وکیپیڈیا
میجر آفتاب احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ میجر عبدالجلیل مکتی باہنی کے نویں سیکٹر کا کمانڈر تھا۔ وہ مشرقی پاکستان کا واحد کمانڈر تھا، جس نے بالی گنج کلکتہ میں بنگلہ دیش کے عبوری حکمرانوں اور مکتی باہنی کے عثمانی کے اصرار کے باوجود ایک روز کے لیے بھی اپنا تربیتی کیمپ انڈین سرزمین پر منتقل نہیں کیا۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد میجر عبدالجلیل ان چند فوجی افسروں میں شامل تھے، جنہوں نے انڈین فوج کی بنگلہ دیش میں لوٹ مار پر صدائے احتجاج بلند کیا اور ہندوستان کو اپنے ملک سے نکل جانے کو کہا۔
پاکستان کی فارن سروس کے سابق سفیر اور عہدیدار برہان الاسلام کا تعلق سابق مشرقی پاکستان سے ہے۔ وہ بنگلہ دیش بننے کے تین برس بعد پاکستان منتقل ہوئے تھے۔
16 دسمبر 1971 کے بعد انڈین افواج کی بنگلہ دیش میں من مانی پالیسیوں پر ہونے والے احتجاج کے بارے میں انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ انڈین فوج نے قبضہ میں لیے بھاری ہتھیار اور توپخانہ، مختلف شہروں سے صنعتی مشینری اور دیگر قیمتی ساز و سامان انڈیا منتقل کرنا شروع کیا۔ اس پر احتجاج کرنے والوں میں میجر عبدالجلیل بھی شامل تھے۔ انہوں نے اپنے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ مل کر انڈین سپاہیوں کی لوٹ مار کا راستہ روکنے کی بھی کوشش کی۔
شیخ مجیب الرحمان کے مد مقابل اپوزیشن
بنگلہ دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمان نے اپنے ہاتھوں سے میجر عبدالجلیل کے سینے پر ملک کا سب سے بڑا بہادری کا اعزاز ’بیر اتم‘ سجایا۔ مگر ان کی انڈین نواز پالیسیوں سے نالاں کرنل شریف دالم کی طرح عبدالجلیل نے بھی یہ اعزاز واپس کر دیا۔
بنگلہ دیش کی پالیسیوں میں بڑھتی انڈین مداخلت اور خود مختاری پر حاوی ہوتی قربت کے رد عمل میں عبدالجلیل نے سیاسی میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔
سوشلسٹ نظریات سے متاثر اس سابق فوجی افسر نے سابق طالب علم رہنما عبدالرب اور سراج العالم خان کے ساتھ مل کر ’جاتیہ سماج تاترک دل‘ کے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی۔ جس کا منشور سائنٹفک بنیادوں پر سوشلزم کا نفاذ اور ملک سے بےجا انڈین مداخلت کا خاتمہ تھا۔
سنہ 1973 کے الیکشن میں سات حلقوں سے انتخاب میں حصہ لیا مگر ایک سیٹ پر بھی کامیابی نہیں ملی۔ مجیب الرحمان حکومت کے خلاف اس کی سیاسی جدوجہد احتجاج اور گھراؤ میں بدل گئی۔ 1974 میں ملک کے وزیر داخلہ کی رہائش گاہ کا محاصرہ کرنے کی پاداش میں انہیں ایک سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارنا پڑا۔
میجر عبدالجلیل نے باغی سپاہیوں اور مکتی ہاہنی کے رضاکاروں کو اکھٹا کر کے پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کا محاذ کھولا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
سابق سفیر برہان الاسلام نے ماضی کے یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ باریسال میں اپنی بہن کے گھر مقیم تھے۔ اس دور میں شیخ مجیب کی جماعت نے ’راکھی باہنی‘ کے نام سے پیرا ملٹری فورس قائم کر رکھی تھی، جس کا کام ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف پرتشدد کاروائیاں کرنا تھا۔
ایک رات میجر عبدالجلیل کی جماعت کے چار طالب علموں کو راکھی باہنی کے کارندوں نے ہاسٹل میں ان کی آنکھوں کے سامنے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔
شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعد جنرل ضیاء الرحمان کی فوجی حکومت کے خلاف جب فوج ہی کے ایک گروہ نے بغاوت کی کوشش کی، جس کی قیادت کرنے والے جنرل خالد مشرف ایک فوجی افسر کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ کرنل ابو طاہر نامی یہ افسر میجر عبدالجلیل کی جماعت کے متاثرین میں سے تھا۔ اس بنیاد پر حکام نے عبدالجلیل کو سپیشل ملٹری کورٹ سے عمر قید کی سزا سنائی۔
چار برس بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔ سال1981 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں عبدالجلیل تین جماعتی اتحاد کے امیدوار تھے۔ ناکامی کے بعد ان کی جماعت انتشار کا شکار ہو گئی۔ پے در پے سیاسی ناکامیوں اور حالات سے مایوس ہو کر اس نے اسلامی منشور پر مبنی نئی سیاسی جماعت بنانے کا پروگرام بنایا۔
باغی اپنے پرانے ملک واپس کیوں لوٹا؟
نومبر 1989 کے تیسرے ہفتے اسلام آباد سے نکلنے والے ایک قومی روزنامہ کے اندرونی صفحات میں ایک چھوٹی سی خبر چھپتی ہے، جس میں بنگلہ دیش کے ایک سیاستدان اور پاکستانی فوج کے سابق میجر کے انتقال کی اطلاع اس کی تصویر کے ساتھ دی گئی تھی۔
قارئین کے لیے وہ محض موت کی ایک اطلاع تھی۔ مگر میجر عبدالجلیل کی ہنگامہ خیز زندگی کے یوں گمنامی کے عالم میں اختتام کو آسانی سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
وہ کیا حالات تھے کہ جس نے پاکستان کے باغی کو اس کے سابق وطن کا رخ کرنے پر مجبور کیا؟
سال1981 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں عبدالجلیل تین جماعتی اتحاد کے امیدوار تھے۔ فوٹو: اے ایف پی
میں نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے 1971 کے بعد پاکستان میں بس جانے والے بنگالی قومیت اور شناخت رکھنے والے متعدد افراد سے رابطہ کیا مگر ان میں سے کوئی بھی باغی کمانڈر اور سیاست دان کے اسلام آباد میں خاموش قیام اور گمنام موت سے واقف نہ تھا۔
اس سوال کی گٹھی سلجھانے کے لیے بنگلہ دیش کے دو صحافیوں سے معلومات کے لیے رابطہ کیا۔ حیرت انگیز طور پر بنگلہ دیش کی تاریخ اور سیاسی زندگی میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود وہاں سے بھی ان کے بارے میں کوئی مستند اور مفید معلومات نہ مل سکیں۔
ایک معروف اور متنازع شخصیت کی زندگی کے آخری ایام کے بارے میں تلاش اور تجسس کے سفر کا اختتام لندن سے ملنے والی معلومات پر ہوا۔
میجر عبدالجلیل کے ہم وطن اور ہم پیشہ بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے اور پاکستان آرمی کے سابق افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ان کی پاکستان آمد اور خیالات میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔
ان کی ذاتی زندگی سے واقف اس شخصیت کا کہنا تھا کہ وہ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد ملک کی بے سمتی اور انڈین نوازی سے شدید نالاں تھا۔ ملک میں سماجی انصاف اور سہولیات کی عدم موجودگی سے اس قدر مایوس ہوا کہ 1980 کی دہائی کے نصف میں پاکستان چلا گیا۔
’ان کے پاکستان چلے جانے کی وجوہات میں ملک کی آزادی کے لیے بغاوت کرنے والوں کی ناقدری اور محرومی بھی شامل تھی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ میجر عبدالجلیل نے پاکستان میں گمنامی اور عوامی زندگی سے الگ تھلگ رہ کر وقت گزارا۔ اسلام آباد میں ان کی وفات سے بنگلہ دیش میں اپنے ہیروز کی حالت زار اور ملک سے مایوس ہو جانے کی بحث نے جنم لیا تھا کہ یہ ملک اپنے ہیرو کو علاج معالجے کی سہولت نہیں دے سکا۔
’وہ انڈیا کے شدید ناقد اور اس کی توسیع پسندانہ پالیسیوں سے ناراض تھا۔ ان کا خیال تھا کہ انڈیا کے اقدامات ایک آزاد اور خود انحصار بنگلہ دیش کو برداشت کرنے کے برخلاف ہیں۔ انڈیا بنگلہ دیش کو مختلف ایگریمنٹس سے اپنے زیر نگین رکھنا چاہتا ہے۔ زندگی کے اخری آیام میں وہ تشدد سے بھرے اپنے ماضی پر بھی پشیمان تھا۔ پاکستان کے حامی نہتے سویلین کے خلاف ظالمانہ اقدامات پر اسے ندامت اور پشیمانی بھی تھی۔‘
شیخ مجیب الرحمان نے میجر عبدالجلیل کو ملک کے سب سے بڑے بہادری کے اعزاز ’بیر اتم‘ سے نوازا۔ فوٹو: اے ایف پی
لندن میں مقیم ان کے احوال سے باخبر شخصیت کا مزید کہنا تھا کہ آخری ایام میں ان کے انداز اور اظہار سے عیاں تھا کہ وہ مکتی باہنی کے ہاتھوں اپنے مخالفین جن میں جماعت اسلامی کے رضاکار اور پاکستان کے حامی بہاری کمیونٹی کے لوگ شامل تھے، کے خلاف تشدد اور بے رحمی پر دکھ اور کرب میں مبتلا تھے۔
میجر عبدالجلیل نے بنگلہ دیش کے سیاسی نظام کی خرابیوں کے تجزیے اور تفہیم پر مبنی چار کتابیں بھی تصنیف کیں۔
اپنی کتابঅসমাপ্ত বিপ্লব (نامکمل انقلاب) میں انہوں نے بنگلہ دیش کی قیادت کے طرز عمل پر تنقید کی ہے۔ ان کے خیال میں سیاسی قیادت کا انڈیا پر غیرضروری انحصار ان کے ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
22 نومبر 1989 کو حکومت کی درخواست پر پاکستان نے میجر عبدالجلیل کی میت بنگلہ دیش کے حوالے کر دی، جہاں انہیں ڈھاکہ میں میرپور کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کے آبائی علاقے میں ایک پل کا نام ان سے منسوب کیا گیا ہے۔
40 برس قبل انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات کے حوالے سے جو خدشات انہیں لاحق تھے، آج کے بنگلہ دیش میں پھر وہی تحفظات نئے عنوانات اور انداز کے ساتھ ابھر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے اندرونی مباحث ہوں یا بیرونی تعلقات کے موضوعات انڈیا کے ساتھ اس کے تعلقات کی نوعیت، حدود اور حاصل ہر جگہ زیر بحث ہے۔