تبدیلی صرف سیاسی جماعت بنانے سے نہیں آتی، عامر خاکوانی کا کالم

اردو نیوز  |  Dec 17, 2024

ڈاکٹر بٹ صاحب کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔ دھیرے سے وہ بولے: ’بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی ہوتی ہیں، جو زندگی بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ انہیں کرتے وقت ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ اس قدر اثر رکھتی ہوں گی، ان کی مگر اپنی تاثیر اور اہمیت ہوتی ہے۔‘

بٹ صاحب ہمارے دوست ہیں، پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر اور استاد۔ لاہور کے دو معروف میڈیکل کالجوں میں پڑھاتے رہے۔ جس ملاقات کا ذکر ہوا، وہ سردیوں کی ایک خنک شام چائے کے پیالے پر ہوئی۔

باتوں باتوں میں کہنے لگے: ہم نئی نسل کو مطعون ٹھہراتے ہیں۔ ان کو نالائق اور بدتمیز سمجھتے ہیں، لیکن بطور استاد میرا تجربہ مختلف ہے۔ طلبہ تو کوری سلیٹ کی طرح ہیں، اگر استاد ان پر محنت کریں تو بہت اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

اسی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کئی واقعات سنائے۔ کہنے لگے: میں ہر نئی کلاس سے کچھ دیر گپ شپ کرتا، طلبہ کی پسندیدہ کتب، پسندیدہ مصنفین کا پوچھتا ہوں۔ ہمیشہ طلبہ اچھا رسپانس دیتے ہیں۔

’میں نے ایک اور کام شروع کیا ہے، اپنے لیکچر سے پہلے ایک آدھ منٹ کی کوئی بامقصد، اصلاحی بات کر دی، ویڈیو سلائیڈ دکھا دی اور اس کے بعد روٹین کا لیکچر شروع کر دیا۔ لیکچر کے اختتام پر شروع میں کہی گئی بات کے حوالے سے ایک دو منٹ مزید گفتگو کر لی۔ پچھلے چند ماہ کے تجربے سے میں نے یہ سیکھا ہے کہ تین چار منٹ کی گفتگو بسا اوقات بہت کارگر اور موثر ثابت ہوتی ہے۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں، بظاہر معمولی نظر آنے والے کام آخری تجزیے میں کہیں زیادہ وسیع، ہمہ گیر اور اہم ثابت ہوتے ہیں۔‘

ڈاکٹر بٹ صاحب نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: پچھلے دنوں ایک طالبہ کے حوالے سے دلچسپ تجربہ ہوا۔ ایک دن میں نے لیکچر سے پہلے یہ بات کی کہ آپ لوگ کسی روز تنہائی میں بیٹھ کر کچھ دیر رب تعالیٰ سے مکالمہ کریں، سوچیں کہ یہ زندگی ہمیں کیوں عطا ہوئی؟ اس دنیا میں آنا، رہنا اور یہ سب سفر بلاوجہ تو نہیں ہو گا؟ آخر رب تعالیٰ نے کچھ سوچ کر ہی ہمیں یہاں بھیجا ہے۔ اللہ سے خلوت میں گفتگو کریں اور یہ سوال پوچھیں، آپ کو یقیناً کوئی نہ کوئی جواب ملے گا اور آپ کا ذہن واضح ہو گا کہ زندگی میں ترجیحات کا معاملہ کیسے طے کیا جائے۔

’میں یہ بات کہہ کر بھول گیا، کچھ عرصہ بعد ایک دن فیس بک پر اُسی بچی کا میسج آیا۔ اُس نے بتایا کہ میری زندگی میں ایک سو اَسی ڈگری کی تبدیلی آ چکی ہے۔‘

’اس بچی سے سبب پوچھا تو کہنے لگی، آپ نے اُس دن جو بات کی تھی، میں نے اُس پر عمل کر ڈالا۔ میں بڑی ڈپریسڈ تھی، اپنے کمرے میں بیٹھ کر خدا سے مکالمہ کرنا چاہا، کافی دیر سوچتی رہی، سوالات تراشتی رہی، پھر خودبخود ذہن میں اُن کے جوابات اُمڈنے لگے۔ میں ان پر یکسو ہو گئی کہ زندگی کا مقصد رب تعالیٰ کی بندگی ہونا چاہیے، چاہے ہم ڈاکٹر بنیں یا انجینیئر، اُستاد بنیں یا وکیل، تاجر بنیں یا سپاہی، جو بھی کام کریں پوری دیانت داری اور رب تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کریں۔‘

 فلپائن کے باربر کے مطابق غریب بچوں کے مفت بال کاٹ کر بہت اچھا محسوس ہوا۔ (فوٹو: نیڈ پکس)

ڈاکٹر بٹ کہنے لگے: ’اُس لڑکی کی زندگی میں واقعی انقلاب آگیا، پہلے وہ بہت تیز مزاج تھی، اچانک اُس میں ٹھنڈک آ گئی۔ تعلیم پر فوکس بڑھ گیا، اساتذہ کی زیادہ عزت کرنے لگی، ساتھی طلبہ سے اخلاق بہتر ہو گیا۔ ایک روز اس نے مجھے بتایا کہ میرے اندر آئی اس تبدیلی سے والدہ خوش نہیں۔ انہیں میرا حجاب لینا پسند نہیں۔ میں نے بچی کو سمجھایا کہ یہ تمہارا امتحان ہے، اپنے والدین کے لیے کوئی ایک جملہ بھی سخت استعمال نہ کرنا، اگر وہ ڈانٹیں یا ناراض ہوں تو بڑے تحمل سے برداشت کرنا اور صرف ایک ہی فقرہ کہنا کہ میں یہ سب اللہ کی خاطر کر رہی ہوں۔‘

’پھر میں نے اُس سے پوچھا کہ گھر کے کام کاج اور والدہ کی کس قدر خدمت کرتی ہو؟ اُس نے شرمندگی سے جواب دیا کہ میں نے تو کبھی اُٹھ کر پانی بھی نہیں پیا۔ اس پر میں نے اُسے اپنا رویہ بدلنے کا مشورہ دیا، کچھ دنوں کے بعد اُس نے مجھے بتایا کہ اپنی خدمت سے ناصرف والدہ کا دل جیت لیا بلکہ سب عزیز و اقارب بھی متاثر ہوئے۔ انہیں یہ لگا کہ مذہبی ہو جانے سے میرے اندر نہایت ہی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔‘

بات صرف یہی ہے کہ آپ میں تبدیلی لانے کی خواہش کس قدر ہے کیونکہ کچھ اچھا کرنے کے لیے زیادہ وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نیک نیتی، اخلاص سے کیا گیا چھوٹا کام بھی بڑے نتائج لاسکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار کراچی سے ایک خاتون کی ای میل آئی۔ کسی زمانے میں قرض حسنہ دینے کی ترغیب کے حوالے سے کالم لکھا تھا۔ خاتون نے کہیں سے وہ کالم پڑھا اور پھر ان کے بقول میں نے اپنی بساط کے مطابق اس پر عمل کرنے کا طریقہ ڈھونڈا ہے۔

انہوں نے لکھا: ’آپ نے ایک حدیث کا حوالہ دیا تھا جس کے مطابق قرضِ حسنہ کا ثواب صدقے سے دو گنا زیادہ ہے۔ میں نے ایک کمیٹی ڈالی تھی، جب یہ نکلی تو اس میں سے بیس ہزار الگ کر دیے اور اپنے طور پر قرضِ حسنہ فنڈ بنا لیا۔ اپنی کزنز، اپنے گھر اور سسرال میں سے کسی کو دو چار ہزار کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ مجھ سے قرض لے لیتا ہے۔ میں صرف یہ کہتی ہوں کہ اپنی آسانی کے مطابق واپس کر دینا، جب وہ مل جاتا ہے تو اُسے آگے کسی اور کو دے دیتی ہوں۔ یہ چھوٹا سے دائرے کا سفر بن گیا ہے۔ ویسے میں نے دل میں یہ سوچا ہوا ہے کہ جو واپس نہیں کرے گا اس سے مانگوں گی نہیں، لیکن اللہ کا کرم یہ ہوا کہ نندوں، دیورانیوں، بھابھیوں اور ہمسایوں میں سے جس نے لیے، واپس ضرور کیے۔‘

امریکی خاتون نے کئی سو جوڑے خود سلائی کر کے افریقہ بھجوائے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

ایک زمانے میں مغربی میڈیا میں دو ایسے واقعات پڑھے تھے جنہوں نے حیران کر دیا۔ اندازہ ہوا کہ اگر آدمی سماج میں تبدیلی لانا چاہتا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ کوئی سیاسی جماعت بنائے، الیکشن جیتے اور پھر اقتدار میں آ کر کچھ کر سکے۔ اس سب کے بغیر بھی وہ سماج میں بہت اچھا، مثبت، خوبصورت کنٹری بیوشن کر سکتا ہے۔ درحقیقت اسے صرف اپنے آپ کو تبدیل کرنا پڑتا ہے، تبدیلی کا سفر فوری شروع ہو جائے گا۔

ایک امریکی ریاست کی بزرگ خاتون کی کہانی ریڈرز ڈائجسٹ نے شائع کی تھی جو بڑھاپے کے باوجود مشین پر ایک ایک کرکے کئی سو ڈریس خود سلائی کر کے افریقہ بھجوا چکی ہیں۔ بڑی بی نے کئی برسوں سے روزانہ ایسا کیا۔

یہ جوڑے ایک تنظیم کو بھیجے جاتے ہیں جو انہیں غریب افریقی بچوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ اس سلسلے کی ابتدا ایک ٹی وی ڈاکومینٹری سے ہوئی، خاتون نے ٹی وی پر وہ دستاویزی فلم دیکھی، انہیں اندازہ ہوا کہ وہ گھر بیٹھے جوڑے سی کر ان افریقی بچوں کی مدد کر سکتی ہیں، جو اپنا تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے خریدنے کی بھی سکت نہیں رکھتے۔

اس خیال نے ان کے لاغر بدن میں نئی توانائی بھر دی اور وہ روزانہ صبح ناشتے کے بعد سے اسی کام میں جت جاتیں۔ اس واقعے کو کوئی سال گزر چکے ہیں، ممکن ہے وہ امریکی خاتون اب زندہ نہ ہوں، مگر ان کا یہ جذبہ تو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

بال کاٹنا یا شیو کرنا کوئی ایسا کام نہیں لگتا جس کے ذریعے سماجی خدمت ہو سکے۔ ہمارے ہاں شاید ہی کسی کو اپنے ہنر اس حوالے سے آزمانے کا خیال آیا ہو۔ فلپائن کے ایک باربر نے البتہ ایسا کر دکھایا۔ وہ فلپائن سے روزی کمانے امریکہ گیا، بال کاٹنے کا ہنر وہ پہلے سے جانتا تھا، امریکہ میں اس فن کو جلا ملی اور وہ نیویارک کے ایک بڑے ہیر کٹنگ سیلون میں ملازمت کرنے لگا۔

چھٹیوں میں وہ فلپائن اپنے گاؤں گیا تو اس نے دیکھا کہ کئی غریب بچوں کے بال بڑھے ہوئے ہیں، معلوم ہوا کہ پیسے نہ ہونے کے باعث وہ کٹنگ نہیں کرا پاتے۔

مزید پڑھیںوہ باکسر جسے زیادہ عمر بھی چیمپئن بننے سے نہ روک سکی، عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 882162

مارک بسٹوس نامی اس حجام نے ایک مقامی حجام سے کرسی ادھار مانگی، بازار سے قینچی اور کنگھی خریدی اور ان بچوں کی مفت کٹنگ شروع کر دی۔ اسے ایسا کر کے بہت اچھا محسوس ہوا۔

دل کش کٹنگ کے بعد آئینے میں خود کو دیکھ کرخوش ہوتے بچوں کو دیکھنا اسے سرشار کر دیا۔ امریکہ واپس آ کر اس نے یہ سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ہر اتوار کو اپنے اوزار کی کٹ اٹھائے باہر نکل جاتا۔ رخ غریب علاقوں کی طرف ہوتا جہاں پسماندگی اور غربت کے سائے چھائے رہتے۔

اخباری رپورٹ کے مطابق مارک نامی وہ حجام ہر اتوار کم ازکم چھ افراد کی مفت کٹنگ کرتا۔ مارک زیادہ تر بے گھر افراد کی کٹنگ کرتا، جن کے پاس حجامت کرانے کے پیسے نہیں ہوتے۔ نیک دل حجام نے رپورٹر کو بتایا کہ اسے ایک بے گھر شخص کبھی نہیں بھولے گا۔

اس کے سر اور داڑھی کے بال بے ہنگم بڑھے ہوئے تھے، وہ ایک درخت کے نیچے مایوس بیٹھا تھا۔ میں نے اسے کٹنگ کی آفر کی تو اس نے اشارے سے مثبت جواب دیا۔ جب میں نے اس کی سٹائلش کٹنگ کی اور شیو کیا تو چھوٹے آئینے میں اپنا صاف چہرہ دیکھ کر وہ کھل اٹھا۔ اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک آ گئی۔ مارک نے اسے اپنی سب سے بڑی کامیابی تصور کیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More