چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں اضافی نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضابطہ فوجداری کے تحت قتل کا ٹرائل براہ راست ہائیکورٹ نہیں کر سکتی۔
چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے بعد میں تسلیم کیا ان پر بیرونی دباؤ تھا، یہ ہماری قوم کی عدالتی تاریخ کا افسوسناک باب ہے۔
سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دیدی
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جسٹس دراب پٹیل ،جسٹس محمد علیم اور جسٹس صفدرکے جرات مندانہ اختلافی نوٹ سے کیس کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے، تینوں جج اُس وقت کے ماحول کے باوجود اپنے موقف پر کھڑے رہے۔
چیف جسٹس نے تحریر کیا کہ تینوں ججز کے اختلافی نوٹس سے صورتحال تبدیل نہیں ہوئی، عدلیہ کی ساکھ اور غیر جانبداری برقرار رہی اور قانون کی حکمرانی کیلئے پُر عزم خودمختار عدلیہ کی اہمیت اجاگر ہوئی۔
لاہور ہائیکورٹ میں25ججز کی آسامیوں کیلئے 47نام جوڈیشل کمیشن کو ارسال
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اضافی نوٹ میں کہا کہ میری رائے میں ذوالفقار علی بھٹو کو شفاف ٹرائل سے محروم رکھا گیا، بھٹو کیس جیسے واقعات کا تدارک نہ کیا جائے تو عدالتی نظام کی شفافیت اور عوامی اعتماد کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔