شاہ ولی کی والدہ اپنے بیٹے کی راہ تکتے تکتے اس قدر بیمار ہو گئی کہ وہ بستر سے اُٹھ نہ سکتی تھی مگر 20 سال کے طویل انتظار کے بعد جب اُس کا بیٹا شاہ ولی گھر واپس لوٹا تو وہ اُسے پہچاننے میں کیسے بھول کر سکتی تھی؟ اگرچہ اُس کے نین نقش تبدیل ہو گئے تھے اور وہ کلین شیو کرنے لگا تھا۔
شاہ ولی کی والدہ نے اُسے دیکھا تو اپنے شوہر کو پیغام بھیجا کہ ’ایک لڑکا گھر آیا ہے اور اس کے جسم سے آپ کے جسم کی خوشبو آرہی ہے۔ وہ ہمارا بیٹا ہے۔‘
شاہ ولی چارسدہ کے رہائشی تھے لیکن صرف 9 سال کی عمر میں گھر سے ناراض ہو کر حسن ابدال بھاگ گئے تھے۔ وہ اب 20 سال کے ہو چکے ہیں اور عبد اللہ کے نئے نام کے ساتھ گھر واپس لوٹے ہیں۔
سال 2005 میں جب شاہ ولی کو ان کے والد ولی خان سکول بھیجتے تو انہیں کوفت محسوس ہوتی۔ وہ سکول نہیں جانا چاہتے تھے۔ یہ ضد اس قدر شدید تھی کہ وہ اس سے قبل بھی تین بار گھر چھوڑ کر جا چکے تھے۔
ان کے والد ولی خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اُن کے بیٹے کو پڑھائی سے لگاؤ نہیں تھا اور وہ سکول جانے کے معاملے میں انتہائی سست تھا۔ وہ گھر پر رہنا چاہتا تھا لیکن ہم اسے زبردستی سکول بھیجتے۔ اس کی یہ ضد اسے گھر سے بھاگنے پر مجبور کر دیتی تھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ان کے بیٹے نے تین بار اسی بات پر گھر چھوڑ کر جانے کی کوشش کی لیکن اُس کی یہ تمام کوششیں ناکام ہوئیں۔‘
ولی اللہ مزید بتاتے ہیں کہ ’وہ خاصا وضع دار بچہ تھا۔ سب کا احترام کرتا لیکن اسے پڑھائی سے چڑ تھی۔ ہماری کوشش تھی کہ اُسے خوشی خوشی پڑھائی کی طرف لے آئیں لیکن ہماری تمام تر کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔‘
شاہ ولی گھر سے بھاگے تو کبھی پشاور اور کبھی راولپنڈی سے انہیں پکڑ کر واپس لایا گیا مگر جب 2005 میں وہ گھر سے نکلے تو 20 برسوں تک گھر والوں سے کوئی ملاقات نہیں کی۔
20 سال کے بعد گھر واپسی پر ولی خان نے ایک دعوت کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے شاہ ولی کی پرورش کرنے والے خاندان کو بھی مدعو کیا۔ (فوٹو: ولی خان)
2005 سے 2024 تک چارسدہ کی تحصیل شبقدر میں یہ باتیں عام تھیں کہ شاہ ولی کہاں گیا ہوگا؟
اُن کی والدہ 20 برسوں تک اپنے بیٹے کا انتظار کرتی رہیں لیکن وہ گھر واپس نہیں لوٹا۔
اُن کے والد ولی خان ہر پولیس سٹیشن اور ہر شہر میں انہیں ڈھونڈتے رہے لیکن شاہ ولی غائب تھے۔
ولی خان بتاتے ہیں کہ ’ہم اس کا مستقبل سنوارنا چاہتے تھے، اسے پڑھانا چاہتے تھے لیکن وہ ہم سے ہی جدا ہوگیا۔ اس کی والدہ 20 سال تک روتی رہیں، میں نے ہر جگہ اسے ڈھونڈا لیکن وہ نہیں ملا۔‘
شاہ ولی گھر سے بھاگ کر ضلع اٹک میں حسن ابدال پہنچے جہاں وہ ایک پہاڑی پر قائم بابا ولی قندھاری یا بابا سخی بادشاہ کے مزار پر پہنچے۔
شاہ ولی بتاتے ہیں کہ ’حسن ابدال کی اس پہاڑی پر میں نے 2 سال گزارے وہاں میری ملاقات سید آصف شاہ نامی شخص سے ہوئی۔ میں ایک بار اپنے علاقے واپس بھی آیا لیکن میرا دل نہیں مانا اور مستقل طور پر حسن ابدال آ گیا۔‘
حسن ابدال میں شاہ ولی زمین داری کرتے تھے اور آصف شاہ کے ہمراہ ٹریکٹر ٹرالی اور دیگر ہیوی مشینری چلایا کرتے تھے۔ اس دوران انہوں نے مختلف ہیوی مشینری چلانے میں مہارت حاصل کی۔
آصف شاہ اور ان کے خاندان نے انہیں اپنے بیٹے جیسا پیار دیا۔ شاہ ولی بتاتے ہیں کہ ’مجھے حسن ابدال میں اس فیملی نے اتنی محبت دی کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ کبھی والدین کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ میں 20 سال ان کے پاس رہا اور انہوں نے میری ہر ضرورت کا خیال رکھا۔‘
2024 میں شاہ ولی نے ایک خواب دیکھا جس میں انہیں چارسدہ اور شبقدر کے نام واضح نظر آئے۔
2024 میں شاہ ولی نے ایک خواب دیکھا جس میں انہیں چارسدہ اور شبقدر کے نام واضح نظر آئے۔ (فوٹو: ولی خان)
شاہ ولی کے مطابق یہی خواب میری گھر واپسی کا سبب بنا۔
وہ خواب دیکھنے کے بعد گھر واپس لوٹے تو عید جیسا سماں بندھ گیا۔ اہل محلہ اور خاندان کے تمام افراد جمع ہوئے۔ ہر طرف سے لوگ مبارک باد دینے ان کے گھر پہنچے۔
ولی خان بتاتے ہیں کہ ’مجھے یقین نہیں آرہا تھا کیوں کہ 20 سال بہت طویل عرصہ ہوتا ہے۔ اچانک مجھے بتایا گیا کہ ہمارا بیٹا گھر واپس آگیا ہے۔ میری اہلیہ سب کو بتاتی رہیں کہ اس کے جسم سے والد کی خوشبو آرہی تھی، یہ ہمارا بیٹا ہے۔ میں نے دیکھا تو وہ میرا ہی ہم شکل تھا۔ 20 سال بعد ہمیں ہمارے صبر کا پھل ملا ہے اس خوشی کا اظہار لفظوں میں بیاں کرنا ممکن نہیں۔‘
شاہ ولی اپنی مادری زبان بھول چکے ہیں اور ان کا نام شاہ ولی کی جگہ عبداللہ رکھ دیا گیا ہے۔ وہ اپنے والدین کو پہچانتے ہیں اور اب اپنی زندگی ان کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔ حسن ابدال سے روانہ کرتے وقت ان کی تربیت کرنے والے والد اور ان کے خاندان کے لوگ موجود تھے۔ اس وقت رِقت آمیز مناظر تھے۔ سید آصف شاہ نے انہیں گلے لگایا اور روتے رہے جس کے بعد انہیں رخصت کیا گیا۔
20 سال کے بعد گھر واپسی پر ولی خان نے ایک دعوت کا اہتمام کیا جس میں انہوں نے شاہ ولی کی پرورش کرنے والے خاندان کو بھی مدعو کیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے اپنے بیٹے کو کہا ہے کہ اگر اس خاندان نے آپ کو اتنی محبت دی ہے تو آپ نے انہیں کبھی نہیں بھولنا۔ ان کے ساتھ تعلق ضرور رکھنا مگر ہم سے الگ ہونے کا سوچنا بھی نہیں کیوں کہ اس بار آپ کی جدائی آپ کی والدہ برداشت نہیں کر پائیں گی۔‘
ولی خان بتاتے ہیں کہ شاہ ولی بیرون ملک جانا چاہتا تھا اس لیے گذشتہ ماہ انہوں نے اپنے بیٹے کے لیے بیرون ملک جانے کا انتظام کیا اور وہ اب سعودی عرب میں مقیم ہیں۔