AFP
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق گذشتہ برس انڈیا چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن چکا تھا۔
لیکن اب انڈیا، جس کی آبادی اب تقریبا ڈیڑھ ارب کے قریب ہے، میں اس موضوع پر اچانک بحث شروع ہو گئی ہے اور انڈیا کی دو جنوبی ریاستوں، آندھرا پردیش اور تمل ناڈو کے رہنماؤں نے آبادی میں مزید اضافے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اس کی ایک وجہ آندھرا پردیش میں کم شرح پیدائش اور عمر رسیدہ آبادی ہے۔
ریاست نے بلدیاتی انتخابات کے لیے ’دو بچوں کی پالیسی‘ کو بھی ختم کر دیا ہے۔ اسی طرح کی اطلاعات اس کی ہمسایہ ریاست تیلنگانہ سے بھی آ رہی ہیں کہ یہاں بھی جلد کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے۔
اس کے ساتھ موجود ریاست تمل ناڈو سے بھی ایسی ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ زور و شور سے یہ مطالبہ سامنے آ رہا ہے۔
حقیقت میں انڈیا میں شرح پیدائش میں بہت کمی آئی ہے۔ سنہ 1950 میں فی کس عورت یہ شرح پانچ عشاریہ سات تھی جوکہ اب دو پر ہے۔
29 ریاستوں میں سے 17 ریاستوں میں شرح پیدائش فی کس عورت میں دو بچوں کی پیدائش کی متبادل سطح سے کمہو گئی ہے۔(متبادل سطح وہ ہوتی ہے جس پر نئی پیدائشیں مستحکم آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ہوتی ہیں)
انڈیا کی پانچ جنوبی ریاستیں انڈیا کی آبادی میں ہوتی تبدیلی میں آگے آگے ہیں، جہاں شرح پیدائش دوسری ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ کیرالہ نے 1988 میں، تمل ناڈو نے 1993 میں، اور باقی ریاستوں نے 2000 کی دہائی کے وسط تک اس ہدف کو حاصل کیا۔
اب ان پانچوں جنوبی ریاستوں کا کل شرح افزائش ایک عشاریہ چھ سے بھی کم ہے۔ کرناٹک کا ایک عشاریہ چھ، تمل ناڈو 1.4 جبکہ دوسرے لفظوں میں یہاں ان ریاستوں میں شرح افزائش بہت سے یورپی ممالک سے بھی کم ہے۔
لیکن ان ریاستوں کو خوف ہے کہ انڈیا کی آبادی میں تبدیلیاں، مختلف ریاستوں کی بدلتی آبادی کے تناظر میں ملنے والا حصہ، انتخابی نمائندگی اور ریاست کے لحاظ سے پارلیمنٹ میں نشستوں اور وفاقی محصولات میں نمایاں اثر ڈالے گی۔
بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز کے ڈیموگرافی کے پروفیسر سری نواس گولی نے بی بی سی کو بتایا کہ بہتر اقتصادی کارکردگی دکھانے والی ریاستیں وفاقی محصولات میں نمایاں حصہ ڈالنے کے باوجود آبادی پر قابو پانے کی ان کی موثر پالیسیوں کے لیے کسی ہرجانے یا جرمانے سے ڈرتی ہیں۔
ان جنوبی ریاستوں کو ایک اور بڑا خدشہ یہ بھی ہے کہ انڈیا سنہ 1976 کے بعد سنہ 2026 میں انتخابی نشستوں کے لیے پہلی بار حد بندی کرنے جا رہا ہے۔
حد بندی کے دوران آبادی کے تناسب سے نشستوں کا تعین کیا جائے گا۔ اب جو معاشی طور پر خوشحال ریاستیں ہیں اس حد بندی کے بعد ان کی آبادی کم ہونے کی وجہ سے ان جنوبی ریاستوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کم ہونے کا امکان ہے۔
وفاقی محصولات بھی آبادی کے تناسب سے تقسیم ہوتے ہیں تو اس لحاظ سے یہ بھی خدشہ ہے کہ اس سے ان کے لیے معاشی مسائل مزید گہرے ہوں گے اور ان کی پالیسی سازی میں کردار بھی کم ہو جائے گا۔
ڈیموگرافر کے ایس جیمز اور شبھرا کریتی کے اندازوں کے مطابق زیادہ آبادی والی شمالی ریاستیں جیسے اتر پردیش اور بہار حد بندی سے زیادہ نشستیں حاصل کر لیں گی جبکہ جنوبی ریاستوں جیسے تمل ناڈو، کیرالہ، اور آندھرا پردیش کو نشستیں کم ہونے کی صورت میں خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تاہم وزیر اعظم نریندر مودی سمیت بہت سے حکامیہ اشارہ دے چکے ہیں کہ پارلیمانی نشستوں کی تقسیم میں جلد بازی نہیں کی جائے گی۔
Getty Images
سری نواس گولی کہتے ہیں کہ ’ایک ڈیموگرافر کے طور پر میں نہیں سمجھتا کہ ریاستوں کو ان معاملات پر بہت زیادہ پریشان ہونا چاہیے۔‘ ان کے مطابق یہ معاملات حکومت اور وفاقی اکائیوں کے درمیان بامعنی مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں۔
ان کے مطابق ’میری تشویش کچھ اور ہے۔‘
ماہرین آبادیات کے مطابق انڈیا میں بنیادی چیلنج نوجوانوں کی آبادی میں کمی کا ہونا ہے جس سے شرح افزائش کم ہو رہی ہے۔
فرانس اور سویڈن کو اپنی عمر رسیدہ آبادی کو سات فیصد سے 14 فیصد تک لانے میں بالترتیب 120 اور 80 برس لگے۔ اور انڈیا کو اس سنگ میل تک پہنچنے میں فقط 28 برس لگیں گے۔
بڑھتی ہوئی عمر کا تعلق انڈیا میں غیر معمولی طور پر شرح پیدائش میں ہونے والی کمی سے ہے۔
بہت سے ممالک میں بہتر معیار زندگی، تعلیم اور شہری آبادی میں اضافے نے قدرتی طور پر ہی شرح پیدائش کو کم کر دیا ہے۔ ان ممالک میں بچوں کی اموات میں کمی واقع ہوئی ہے۔
مگر انڈیا میں کم سماجی و اقتصادی ترقی کے باوجود بچے پیدا کرنے کی صلاحیت میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی وجہ فیملی ویلفیئر جیسے پروگرام بنے، جو چھوٹے خاندان کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
سری نواس گولی کہتے ہیں کہ ’کچھ ریاستوں کو غیر ارادی نتائج بھگتنے پڑ رہے ہیں۔‘ آندھرا پردیش میں شرح پیدائش ایک اعشاریہ پانچ ہے جو کہ سویڈن کے برابر بنتی ہے۔ مگر اس کی فی کس آمدن سویڈن سے 28 گنا کم ہے۔
قرضوں میں اضافے اور محدود وسائل کے ہوتے ہوئے اس طرح کی ریاستوں پر زیادہ عمر کے لوگوں کی تعداد میں اضافے سے پینشن یا سوشل سکیورٹی کا بوجھ بھی بڑھ جائے گا۔
اب ذرا اس پہلو پر غور کیجیے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی انڈیا کی عمر رسیدہ آبادی کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق انڈیا کے 40 فیصد سے زیادہ عمر رسیدہ افراد (جو 60 سال سے زیادہ عمر کے ہیں) کا تعلق غریب ترین طبقے سے ہے۔ اگر دولت کی تقسیم کے لحاظ سے دیکھیں تو یہ آبادی کے نچلے طبقے کا 20 فیصد ہیں۔
سری نواس گولی کا کہنا ہے کہ دوسرے لفظوں میں اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ’انڈیا امیر ہونے سے پہلے بوڑھا ہو رہا ہے۔‘
کم بچوں کا مطلب یہ بھی ہے کہ عمر رسیدہ افراد پر انحصار کا تناسب بڑھنا، بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی کی دیکھ بھال کرنے والے افراد کی تعداد میںکمی واقع ہو رہی ہے۔
آبادی کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ انڈیا کے شعبہ صحت، کمیونٹی سینٹرز اور اولڈ ایج ہوم اس تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہیں۔
’مردانگی کا بحران اور سماجی بانجھ پن‘: مردوں میں بے اولادی کی وجوہات کیا ہیں؟ دنیا کے کئی ممالک شرح پیدائش میں کمی سے کیوں پریشان ہیں اور اس کا حل کیا ہےعضو تناسل کھونے کا خوف اور ’ہوا سے موت‘: وہ پراسرار بیماریاں جن کی وضاحت سائنس بھی نہیں کر پائی’مسئلہ مجھ میں ہو سکتا ہے، یہ سوچا بھی نہ تھا‘: مردوں میں باپ بننے کی صلاحیت میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟
شہری زندگی، نقل مکانی اور روزگار کے مسائل روایتی خاندانی مدد پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔ اب یہ وجوہات انڈیا میں زیادہ عمر کے افراد کی تعداد میں مزید اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔
اگرچہ گنجان آباد ریاستوں سے کم آبادی والی ریاستوں میں نقل مکانی عمر کے فرق کو کم کر رہی ہے لیکن پریشانیاں بھی بڑھ رہی ہیں۔
سری نواس گولی کا کہنا ہے کہ ان مسائل کی روک تھام کے لیے مضبوط سرمایہ کاری، بیمار اور لاغر افراد کی دیکھ بھال اور سوشل انفراسٹرکچر کی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے تاکہ معمر افراد کی مدد کی جا سکے۔
رواں ماہ کے آغاز میں وزیراعظم مودی کی بی جے پی کی نظریاتی قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (قومی رضاکاروں کی تنظیم) کے سربراہ نے انڈیا کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ہر خاندان کو کم از کم تین بچے پیدا کرنے کا کہا ہے۔
موہن بھگوت نے حالیہ ایک ملاقات میں کہا کہ ’آبادی کی سائنس کے مطابق جب آبادی کی شرح 2.1 سے بھی نیچے آ جاتی ہے تو ایک معاشرہ خود ہی تباہ ہو جاتا ہے، کوئی اور اسے تباہ نہیں کرتا۔‘
اگرچہ بھگوت کی پریشانی کی شاید کچھ بنیاد ہو سکتی ہے لیکن آبادی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے۔
ٹم ڈے سن لندن سکول آف اکنامکس سے منسلک ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ایک یا دو دہائیوں کے بعد بچوں کی پیدائش کی شرح میں کمی کا تناسب تیزی سے آبادی میں کمی کا باعث بنے گا۔
ایک عورت میں پیدائش کی شرح ایک اعشاریہ آٹھ آبادی کی افزائش کو سست کر دیتی ہے لیکن اگر یہ ایک اعشاریہ چھ یا اس سے کم ہو تو یہ تیزی سے آبادی میں بے قابو کمی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
Getty Images1970 میں ایک ہاتھی کی مدد سے خاندانی منصوبہ بندی کے تشہیری مہم
ٹم ڈے سن کہتے ہیں کہ بہت کم تعداد میں لوگ شرح تولید کے قابل رہ جائیں گے اور ایک خاص کام کرنے والی عمر کے لوگ کم ہو جائیں گے۔ ان کے مطابق یہ سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر تباہ کن ہے کیونکہ یہ ایک آبادیاتی عمل ہے اور اسے واپس کرنا نہایت مشکل کام ہے۔
کچھ ممالک میں یہ پہلے سے ہی ہو رہا ہے۔
مئی کے مہینے میں جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول نے ملک میں ریکارڈ کم ترین شرح پیدائش پر نیشنل ایمرجنسی کا کا اعلان کیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں نےحکومت کی ایک وزارت کو اس مقصد کے لیے مختص کرتے ہوئے اس حوالے سے ضروری منصوبوں کا اعلان کیا۔
یونان میں شرح افزائش ایک اعشاریہ تین تک پہنچ گئی جو کہ سنہ 1950 کے مقابلے میں نصف شرح ہے۔ یونانی وزیراعظمنے اس صورتحال پر اپنے ایک انتباہی پیغام میں اسے آبادی کی بقا کے لیے ایک خطرہ قرار دیا۔
لیکن آبادیات کے حوالے سے ماہرین کہتے ہیں کہ لوگوں پر زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے زور دینا فائدہ مند نہیں ہے۔
ٹم ڈے سن کہتے ہیں کہ معاشروں میں ہونے والی تبدیلیوں بشمول صنفی فرق میں ہونے والی نمایاں کمی کو دیکھتے ہوئے اس رجحان کے بدلنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ خواتین بھی اب تیزی سے مردوں کی ہی طرح زندگی بسر کر رہی ہیں۔
انڈیا کی ریاست تمل ناڈو اور کیرالہ، جو افرادی قوت کی کمی کا شکار ہیں، کے لیے اہم سوال یہ ہے کہ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے کون قدم اٹھائے گا؟
ترقی یافتہ ممالک کم ہوتی ہوئی شرح پیدائش کو بڑھانے میں ناکام ہیں۔ وہ صحت مند اور معمر افراد کو بھی توانا رکھنے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ کام کرنے کی عمر کی حد کو پانچ سے سات سال تک بڑھانے اور بڑی عمر میں آبادی کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے پر توجہ دے رہے ہیں۔
آبادی پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کو ریٹائرمنٹ کی عمروں کو بامعنی طور پر بڑھانے کی ضرورت ہو گی اور اس بات پر توجہ دینا ہو گی کہ لوگ زیادہ عرصہ صحت مند ہیں اور ان کی صحت کی دیکھ بھال کا ایک انتظام ہونا چاہیے۔
ان کے لیے ایک بہت محفوظ سوشل سکیورٹی کا نظام وضع کرنا ہوگا تا کہ وہ زیادہ عمر میں بھی صحت مند اور سود مند ہوں۔ یہی پالیسی اب انڈیا کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہے۔
سری نواس گولی کا خیال ہے کہ سنہ 2047 تک معیشت کو فروغ دینے، کام کرنے کی عمر کی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور عمر رسیدہ افراد کے لیے وسائل مختص کرنے کے مواقع موجود ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک شرح پیدائش میں کمی سے کیوں پریشان ہیں اور اس کا حل کیا ہےدنیا کے مقابلے میں پاکستان میں آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح کیا خطرے کی گھنٹی ہے؟سمارٹ فیصلے جن میں لمبی عمر پانے کا راز پوشیدہ ہے اور وہ 10 ممالک جہاں لوگوں کی عمریں زیادہ ہیں؟’مردانگی کا بحران اور سماجی بانجھ پن‘: مردوں میں بے اولادی کی وجوہات کیا ہیں؟ ’مسئلہ مجھ میں ہو سکتا ہے، یہ سوچا بھی نہ تھا‘: مردوں میں باپ بننے کی صلاحیت میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟عضو تناسل کھونے کا خوف اور ’ہوا سے موت‘: وہ پراسرار بیماریاں جن کی وضاحت سائنس بھی نہیں کر پائی