پاکستان کے سوشل میڈیا بالخصوص شارٹ ویڈیو سٹریمنگ سائٹ ٹِک ٹاک پر کافی عرصے سے ایسے مواد کی بھرمار ہے جن میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز اپنے وی لاگز کے درمیان اچانک کسی کمپنی کا اشتہار چلانے لگتے ہیں۔ اس دوران وہ اپنے فالوئرز کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ دیے گئے لنک یا موبائل ایپلیکیشن میں سائن اپ کر کے گھر بیٹھے ماہانہ لاکھوں روپے کما سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ناظرین سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر وہ کوئی انویسٹمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آن لائن پلیٹ فارم جس کو وہ انفلوئنسرز خود بھی استعمال کر رہے ہیں، اس کو ڈاؤنلوڈ کریں اور اس میں انویسٹ کریں۔یہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز نت نئے طریقوں سے صارفین کو مختلف طرح کی آن لائن تجارتی ایپلیکیشنز اور ویب سائٹس کی طرف نہ صرف راغب کرتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ کچھ ٹک ٹاکرز تو اپنی ویڈیو شروع ہی یہاں سے کرتے ہیں کہ ہاتھ میں نوٹوں کا ایک بنڈل پکڑا ہوا ہے اور پیسے گنتے گنتے اچانک کیمرے کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ سارے پیسے آپ بھی لے سکتے ہیں۔ اگر آپ فلاں ایپلیکیشن کو ڈاؤن لوڈ کریں۔ تو کیا واقعی پاکستان میں راتوں رات امیر ہونا یا نوکری حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ یہ ٹک ٹاکرز بتاتے ہیں؟ ’یہ وقت کا ضیاع ہے‘اردو نیوز نے ایسے صارفین سے بات چیت کی ہے جنہوں نے سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی باتوں میں آ کر ایسی ایپلیکیشنز اور آن لائن فارمز بھر کر یا ویب سائٹس پر سائن اپ کرنے کے لیے رضامندی ظاہر کی۔لاہور کے ایک شہری باسط اعجاز کا کہنا تھا کہ ’میں نے ایک مشہور ٹک ٹاکر کی ویڈیو دیکھی تو اس میں اتنے آسان اور اچھے طریقے سے ایک موبائل ایپلیکیشن ڈاؤنلوڈ کرنے کی ترغیب دی گئی تھی کہ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ایپلیکیشن ڈاؤنلوڈ کر لی۔‘’اس میں بتایا گیا تھا کہ آن لائن ٹریڈنگ کے بعد آپ وہاں سے پیسہ جاز کیش، ایزی پیسہ اور پاکستان کی موبائل بینکنگ ایپلیکیشنز میں ٹرانسفر کر سکتے ہیں تو مجھے لگا کہ اگر لیگل چینل استعمال ہو رہا ہے تو اس میں فراڈ کیا ہی ہو سکتا ہے۔‘ایف آئی اے آن لائن فراڈ کی درخواستوں پر الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت مقدمات درج کرتا ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)انہوں نے بتایا کہ ’جب میں نے وہ ایپلیکیشن ڈاؤنلوڈ کی تو اس کے بعد مجھے کہا گیا کہ جاز کیش اور ایزی پیسہ کے ذریعے پہلے رقم ان کو دوں۔ میں نے جب پانچ ہزار سے شروع کیا تو مجھے مزید رقم جمع کرانے کا کہا گیا، اس پر مجھے کچھ شک گزرا۔ مجھے لگا کہ یہ کچھ غلط ہے تو میں نے اس کے بعد فوراً وہ ایپلیکیشن اَن انسٹال کر دی۔‘ایک اور سوشل میڈیا صارف علینہ خان نے بتایا ’میں ٹک ٹاک پر ان دنوں اس طرح کے اشتہاروں سے عاجز آ چکی ہوں لیکن پھر بھی گزشتہ دنوں ایک ٹک ٹاکر نے جب یہ بتایا کہ ایک ویڈیو 30 سیکنڈ دیکھنے کے بعد بعد میرے اکاؤنٹ میں پیسے آنا شروع ہو جائیں گے تو میں نے بھی اس کے دیے ہوئے لنک پر کلک کر کے ایک ایپلیکیشن ڈاؤنلوڈ کی۔ اس ایپ میں صرف اشتہار چل رہے تھے۔ میں نے کوئی دو دن مسلسل اشتہار دیکھے لیکن مجھے کوئی پیسہ نہیں ملا۔‘انہوں نے کہا ’میں نے اپنا جو جاز کیش اکاؤنٹ دیا ہوا تھا، اس میں بھی کوئی رقم نہ آئی۔ ان سے رابطہ کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ مجھے تو یہ بالکل فراڈ لگا، میں سمجھ گئی کہ یہ کوئی کاروبار نہیں بلکہ صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے۔‘ کیا یہ سب قانونی ہے؟پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے ذریعے مصنوعات کی تشہیر خاص طور پر ایسی مصنوعات جن کا تعلق براہ راست تجارتی معاملات سے ہے، ان کو قانون نافذ کرنے والے ادارے باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں۔ فرانس دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے انفلوئنسرز کے ذریعے اشیا کی خرید و فروخت اور صارفین تک پہنچانے سے متعلق گزشتہ برس باقاعدہ قانون منظور کیا ہے۔اس قانون کی رو سے سوشل میڈیا انفلوئنسر پر لازم ہے کہ اگر وہ پیسے لے کر کسی چیز کی تشہیر کر رہے ہیں تو وہ نا صرف وارننگ کا لفظ لکھیں گے اور بتائیں گے کہ انہوں نے اس اشتہار کے لیے پیسے لیے ہیں۔ اگر اس میں کوئی خامیاں بھی ہیں تو وہ بھی بتائیں گے۔لیکن پاکستان میں ابھی اس حوالے سے مکمل طور پر خاموشی ہے۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے تو کبھی کبھار عوام کو خبردار کیا جاتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر انفلوئنسر ابھی تک کسی بھی قانون سے بالاتر ہیں کہ وہ یہ سب کیسے کر رہے ہیں۔ ترجمان سٹیٹ بینک نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ ہم پاکستان کے باہر سے آپریٹ ہونے والی تجارتی ایپلیکیشنز کے بارے میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز بتا رہے ہوں یا کوئی اور، وہ مکمل طور پہ غیرقانونی ہیں۔ اس میں شہری کسی بھی طرح کی انویسٹمنٹ کریں اور نہ ہی ان کے جھانسے میں آئیں۔ یہ غیرقانونی کاروبار ہے۔ ان کے بارے میں رپورٹ کریں۔ سٹیٹ بینک نے پی ٹی اے کے ساتھ مل کر ایسی کئی ویب سائٹس اور ایپلیکیشن کو بند بھی کروایا ہے۔ سٹیٹ بینک وزارت قانون کے ساتھ مل کر ایسی ایپلیکشنز کے خلاف قانون سازی کی طرف جا رہا ہے (فائل فوٹو: ڈیجیٹل رائٹس مانیٹر)سٹیٹ بینک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک اس حوالے سے مؤثر قانون سازی نہیں ہوئی لیکن سٹیٹ بینک وزارت قانون کے ساتھ مل کر قانون سازی کی طرف جا رہا ہے۔‘فنانشل کرائمز کو پاکستان میں دیکھنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر لاہور سرفراز چوہدری کہتے ہیں کہ ’ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ جو تجارتی ایپلیکیشنز آن لائن استعمال ہو رہی ہیں، ان میں سے بیش تر ملک سے باہر سے آپریٹ ہو رہی ہیں۔ انہوں نے یہاں پر اپنے ایجنٹ بھرتی کیے ہوئے ہیں، جن کو وہ ماہانہ تنخواہیں بھی دیتے ہیں۔‘’ان ایجنٹس نے یہاں اپنے موبائل بینکنگ اکاؤنٹس بنا رکھے ہیں، موبائل بینکنگ اکاؤنٹس کی وجہ سے لوگ دھوکے میں آ جاتے ہیں کیونکہ وہ مقامی نمبر ہوتا ہے اور لوگوں کو یہی لگتا ہے کہ یہ سب ریچ ایبل ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس حوالے سے قانون کیا کہتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’جو لوگ فراڈ کی درخواستیں لے کر آتے ہیں، ہم اپنے طور پر الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت مقدمات درج کر کے ان کی تفتیش کرتے ہیں۔ لیکن ان ایپلیکیشن کو ریگولیٹ کرنا براہ راست سٹیٹ بینک یا پی ٹی اے کی ذمہ داری ہے۔‘