ہماری کہکشاں میں بہت سے ستارے جوڑوں کی شکل میں موجود ہیں مگر ہمارا سورج اس فہرست میں شامل نہیں۔ تاہم اب سائنسدان ایسے ثبوت تلاش کر رہے ہیں کہ شاید اس کا بھی کوئی ساتھی تھا۔
سوال یہ ہے کہ وہ کہاں گیا؟
ہمارا سورج ایک تنہا خانہ بدوش کی مانند ہے۔ یہ چکر لگاتے ہوئے تقریباً ہر 230 لاکھ سال بعد ہمیں کہکشاں کے سفر پر لے جاتا ہے۔
سورج کے قریب ترین موجود ستارہ پروگزیما سینٹوری ہے جو کہ اس سے چار اعشاریہ دو نوری سالوں کے فاصلے پر ہے۔ یہ اتنا دور ہے کہ اس کو سورج تک پہنچنے کے لیے اب تک کی تیز ترین خلائی گاڑی بھی دی جائے تو اسے 7000 سال سے زیادہ عرصہ درکار ہو گا۔
ہم جہاں کہیں اپنی کہکشاں میں دیکھتے ہیں ہمارے نظام شمسی کے مرکز میں موجود سورج ایک عجیب چیز معلوم ہوتا ہے۔ بائنری ستارے یعنی وہ ستارے جو کہکشاں کے گرد چکر لگاتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ سختی کے ساتھ جوڑے کے طور پر جڑے ہوتے ہیں اور عام سے نظر آتے ہیں۔
حال ہی میں ماہرین فلکیات نے ایک ایسے ہی جوڑے کا پتا لگایا جو غیر معمولی طور پر بلیک ہول کے بہت قریب چکر لگا رہا تھا اور یہ ہماری کہکشاں (ملکی وے) کے قلب میں ہے۔
ایک ایسا مقام جس کے بارے میں ماہرین فلکیات کے خیال میں ستارے ایک دوسرے سے الگ ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے یا شدید کشش ثقل کے ذریعے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے۔
درحقیقت بائنری ستاروں کے سسٹم کی دریافت بہت عام ہو چکی ہے اور کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ شاید تمام ستارے کبھی بائنری ریلیشن یعنی جوڑوں کی صورت میں تھے۔
یا یوں کہیے کہ جوڑے کے طورپر پیدا ہوئے تھے۔
ہر کسی کے ساتھ ایک ساتھی تھا۔ پھر یہ ہمیں ایک دلچسپ سوال کی جانب لے کر جاتا ہے کہ کیا ہمارا سورج بھی کبھی بائنری ستارہ تھا یعنی اس کے ساتھ اور بھی ستارہ تھا اور اس کا ساتھی بہت پہلے ہی اس سے الگ ہو گیا۔
ماہر فلکیات گونجی لی امریکہ میں جارجیا انسٹی ٹیو آف ٹیکنالوجی سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ یقینی طور پر ممکن ہے اور دلچسپ بات ہے۔
NASA
خوش قسمتی سے ہمارے لیے ہمارے سورج کا آج کوئی بھی ساتھی نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو سورج کے جوڑے کی کشش ہماری زمین اور اس کے گرد گھومنے والے سیاروں کے مداروں پر اثر انداز ہوتی۔
اس سے ہمارے گھروں میں شدید گرمی اور شدید سردی ہوتی جو ہماری زندگی کے لیے مشکل ہو جاتی۔
زمین کے قریب ترین بائنری ستارے ایلفا سینٹروی اے اور بی ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے گرد زمین اور سورج کے درمیان موجود فاصلے سے 24 گنا فاصلے پر یا تین اعشاریہ چھ بلین میل کے فاصلے پر چکر لگاتے ہیں۔
اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ہمارے سورج کا کوئی بہت کمزور ساتھ ہمارے نظام شمسی کے گرد آج بھی چکر لگا رہا ہے۔
یعنی ایک فرضی ستارہ جسے اکثر نیمیسس بھی کہا جاتا ہے جو اس کے حق میں باہر چلا گیا تھا، جب 1984 میں اس بارے میں مفروضہ بنایا گیا۔ اس کے بعد کیے جانے والے سرویز اور تحقیق میں ایسا کوئی ستارہ نہیں ملا۔
لیکن جب چار اعشاریہ چھ ارب سال پہلے ہمارا سورج بنا تھا تو اس وقت شاید صورتحال مختلف تھی۔
دہائیوں کے فاصلے تک پھیلے گیس اور مٹی کے بڑے بڑے بادل جب آپس میں مل کر ٹھنڈے ہوتے ہیں تو اس سے ستارے جنم لیتے ہیں۔ یہ گیس اور مٹی جنھیں نیبولائی کہا جاتا ہے اپنی ہی کشش ثقل کے تحت آپس میں سمٹ کر بڑے بڑے گچھوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
اس عمل اور دہائیوں تک محیط گزرتے سالوں کے دوران ان گچھوں کا درجہ حرارت بڑھتا رہتا ہے اور یہ گرم ہو جاتے ہیں۔ آخرکار ان سے اتنی زیادہ حرارت پیدا ہوتی ہے کہ اس سے جوہری فیوژن کا عمل شروع ہو جاتا ہے جس سے ایک نیا ستارہ، یا پروٹوسٹار بنتا ہے۔
اس پروٹوسٹار کے گرد بچا ہوا مواد ایک چکراتی ہوئی ڈسک کی شکل میں گھومتا رہتا ہے اور وقت کے ساتھ یہ مواد سیاروں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
2017 میں کینیڈا کی کوئنز یونیورسٹی میں ماہر فلکیات سارہ سداوائے نے پرسیئس مالیکیولر کلاؤڈ کے ریڈیو سروے سے حاصل کیا گیا ڈیٹا استعمال کیا (یہ مالیکیولر کلاؤڈ نئے بائنری سٹار سسٹمز سے بھری ہوئی ایک نرسری جیسا ہے)۔ انھیں معلوم ہوا کہ ستارے اکثر جوڑوں کی صورت میں بنتے ہیں۔
اپنے نتائج کی بنیاد پر ان کی ٹیم نے تجویز کیا کہ شاید زیادہ تر ستارے جوڑوں میں یا ایک سے زائد ستاروں کے گروپس کی صورت میں بنتے ہیں۔
سداوائے وضاحت کرتی ہیں کہ ’ان گیس اور دھول کے بادلوں کے اندر بھی ایسے عمل جاری رہتے ہیں جن کے باعث بڑے بڑے گچھے بنتے رہتے ہیں جو آپس میں ٹکرانے سے ستاروں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اس عمل کو ہم ’فریگمنٹیشن‘ کا نام دیتے ہیں۔
’اگر یہ ستارے ایک دوسرے سے دور ہوں تو وہ شاید کبھی ایک دوسرے پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔۔۔ لیکن اگر وہ قریب ہوں تو کشش ثقل انھیں ایک ساتھ جوڑ کر رکھ سکتی ہے۔‘
سداوائے کی تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ تمام ستارے شاید اپنی زندگی کا آغاز جوڑوں کی صورت میں کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہمیشہ کے لیے ایک ساتھ رہتے ہیں جبکہ دیگر دس لاکھ سال کے دورانیے میں الگ ہو جاتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’ستارے اربوں سال تک زندہ رہتے ہیں۔ اس حساب سے دس لاکھ سال اگرچہ صرف ایک لمحہ ہوتا ہے لیکن اس مختصر وقت میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔‘
اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے سورج کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہوگا؟
سداوائے کہتی ہیں کہ اسے نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن اگر سورج کا جنم بھی ایک ساتھی کے ساتھ ہوا تھا تو ہم وقت کے ساتھ اسے کھو چکے ہیں۔