ایک لاکھ سلامی، دو لاکھ کے ’تحائف‘: مریم نواز کے ’دھی رانی پروگرام‘ میں کیا جہیز کے قانون کی خلاف ورزی ہوئی؟

بی بی سی اردو  |  Jan 15, 2025

وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کا غریب لڑکیوں کی شادی کا منصوبہ اس وقت تنقید کی نذر ہوا جب سنیچر کو اجتماعی شادیوں کی تقریب کے موقع پر ڈبل بیڈ، ڈنر سیٹ اور دیگر سامان کے مناظر زیرِ بحث آئے۔

دراصل اس روز پنجاب حکومت نے ’دھی رانی پروگرام‘ کا افتتاح کیا جسے ایک طرف تو سراہا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے شادی کے خواہش مند غریب جوڑوں کی مدد کی جا رہی ہے تو دوسری طرف دلہن کو دیے جانے والے تحائف کو ’جہیز کے سامان‘ قرار دیتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ کیا حکومت قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہے؟

یاد رہے کہ جنوبی ایشیا میں جہیز ایک صدیوں پرانی روایت ہے جس میں دلہن کا خاندان تحائف، نقد رقم، کپڑے، زیورات، فرنیچر اور دیگر قیمتی سامان دلہے کے خاندان کو دیتا ہے۔ لیکن پاکستان اور انڈیا میں دلہن کے خاندان سے جہیز کا مطالبہ کرنا غیر قانونی ہے۔

’دھی رانی پروگرام‘ کیا ہے؟

سنیچر کو سرکاری سطح پر لاہور میں منعقد ہونے والی اجتماعی شادی کی تقریب میں 51 جوڑوں کی شادی کروائی گئی جس میں وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے خود شرکت کی اور دھی رانی پروگرام کا افتتاح کیا۔

اس پروگرام کے تحت دلہن کو ایک لاکھ روپے مالیت کا سلامی کارڈ دینے کے ساتھ ساتھ دو لاکھ چھ ہزار روپے ماليت كا سامان بطور تحفہ دیا گیا جس میں ڈبل بیڈ، میٹریس، شیشہ، ڈنر سیٹ، کھانے پکانے کا سامان اور دیگر سامان شامل تھا۔

تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ’یہ جذباتی لمحہ ہے۔ جتنے آج آپ اور آپ کے ماں باپ خوش ہیں، میں بھی آج اتنی ہی خوش ہوں۔‘

اس تقریب میں عالیشان شادی ہال، دلکش کپڑوں میں ملبوس دلہا دلہن اور مہمانوں کے لیے بہترین کھانے کا اہتمام کیا گیا۔

ان تمام چیزوں کا شمار شادی کے ان پہلوؤں میں کیا جاتا ہے جو ویسے تو کسی کی خواہش ہو سکتی ہے تاہم کچھ لوگوں کے نزدیک یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو شادی کو معاشرے میں ایک آسان سے مشکل عمل بناتی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وزیر برائے سوشل ویلفیئر اور بیت المال سہیل شوکت بٹ کا کہنا تھا کہ ’اس پروگرام کو شروع کرنے کا مقصد ضرورت مند خاندان کی بچیوں کی شادی کروانا ہے۔ اس پروگرام کے تحت کسی بھی مذہب اور برادری سے تعلق رکھنے والا پنجاب کا رہائشی مستفید ہو سکتا ہے۔‘

دھی رانی پروگرام کے بارے میں مزید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہم تین ہزار جوڑوں کی شادی مئی 2025 تک کروائیں گے۔ جبکہ پہلے مرحلے میں فروری کے آخر تک 1500 جوڑوں کی شادیاں کروا دیں گے۔‘

’10 افراد لڑکی کی طرف سے اور 10 افراد لڑکے کی طرف آئے تھے جنھیں کھانا دیا گیا تھا۔‘

ریڈیو پاکستان کے مطابق پنجاب حکومت نے تین ہزار شادیوں کی تقاریب کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے ہیں۔

جہیز یا ’گفٹ‘؟

اس پروگرام کے بارے میں سرکاری سطح پر یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’دلہن کو 206,000 مالیت کا جہیز گفٹ دیا جائے گا جس میں قران پاک، جائے نماز، لکڑی کے ڈبل بیڈ کے ساتھ میٹریس، شیشہ، ڈنر سیٹ وغیرہ شامل ہیں۔‘

جبکہ سلامی میں ’دلہن کو بینک آف پنجاب سے 100,000 روپے بطور تحفہ اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے فراہم کیے جائیں گے۔‘

اجتماعی شادی کی تقریب کی ویڈیو میں وزیر اعلیٰ مریم نواز کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’51 جوڑوں کو ایک لاکھ سلامی اور جہیز کا سامان دیا جائے گا۔‘

ویڈیو میں سامان اور اس سامان کو لے جانے والے ٹرک بھی دکھائے گئے جن پر مریم نواز کی تصاویر بھی آوازاں ہیں۔

تاہم سوشل میڈیا سمیت متعلقہ حلقوں میں اس عمل کو تنقید کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ اور یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا مریم نواز اور حکومت پنجاب سرکاری سطح پر جہیز کو ’پروموٹ‘ کر رہے ہیں۔

ڈسکہ میں زہرہ قدیر کا قتل: ’بیٹی کے سسرال میں دھلا فرش دیکھا تو چھٹی حِسّ نے کہا کچھ بہت برا ہو چکا ہے‘انڈیا کا تین دہائی پرانا سیکس سکینڈل، جس میں لڑکیوں کو’شادی کا لالچ‘ دے کر ان کی برہنہ ویڈیوز بنائی گئیںانڈیا میں سیکس کے لیے ’رضامندی کی عمر‘ پر بحث دوبارہ کیوں شروع ہوئی؟چینی لڑکوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادیاں: ’بہتر تھا کہ میری بیٹی کی شادی ہی نہ ہوتی‘

تو کیا یہ جہیز کا سامان تھا یا تحفہ؟

اس بارے میں وزیر برائے سوشل ویلفیئر و بیت المال پنجاب سہیل شوکٹ بٹ کا کہنا تھا کہ ’اس میں جہیز کا عنصر نہیں ہے۔ ہمارا مقصد صرف پنجاب کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہے۔ جو ان کا حق بنتا ہے وہ انھیں دیں۔ سوشل ویلفیئر اور بیت المال کا کام ہی معاشرے میں بہتری لانا ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ دھی رانی پروگرام کی ویب سائٹ پر بھی اسے ’جہیز کا سامان‘ ہی کہا گیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’وہ گفٹ ہیں۔ ایسی تمام چیزیں شامل ہیں جو والدین اپنی بچی کو دینا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے جہیز کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تو وہ چیز ہے جو لڑکے والوں کی طرف سے زور زبردستی مانگ کر لیا جاتا ہے۔‘

اسی معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے عورت فاؤنڈیش سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن اور پروگرام ڈائریکٹر ممتاز مغل کا کہنا تھا کہ ’اگر یہ بیت المال کی طرف امدادی سامان تھا تو اس پر لکھنا چاہیے تھا۔ مریم نواز کی تشہیر کرنا اور پھر اس تمام تر سامان کی تقریب میں نمائش کرنا غیر قانونی عمل تھا۔‘

کیا پاکستان میں جہیز غیر قانونی ہے؟

ویسے تو جہیز دینا اور لینا پاکستانی قوانین کے مطابق جرم ہے مگر یہ روایت قریب ہر شادی میں نظر آتی ہے اور اس کے لیے اکثر دلہن کے والدین بھاری رقم خرچ کرتے ہیں۔

1976 میں منظور ہونے والے ’ڈاؤری اینڈ برائڈل ایکٹ‘، جس میں 2016 کے دوران ترمیم کی گئی تھی، کے مطابق ’کوئی بھی دلہا یا ان کی طرف سے کوئی فرد جہیز یا تحفے کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔‘

اس کے تحت اگر کوئی شخص بلواسطہ یا بلاواسطہ دلہن کے والدین، خاندان یا سرپرست سے جہیز کا مطالبہ کرتا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ دو سال قید اور 10 ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔

اس قانون کے تحت نہ تو دلہن کو جہیز دیا جا سکتا اور نہ ہی ان کی نمائش کی جا سکتی ہے۔

تاہم اس کے مطابق شادیوں پر دینے جانے والے تحفے زیادہ سے زیادہ 50 ہزار روپے کی مالیت کے ہو سکتے ہیں۔

Getty Imagesکیا پنجاب حکومت نے قانون کی خلاف ورزی کی؟

اس سوال پر وزیر برائے سوشل ویلفئیر سہیل شوکت کا کہنا تھا کہ ’بیت المال کے قانون کے مطابق ہم بچے بچیوں کی امداد کر سکتے ہیں جیسے کوئی پڑھنا چاہتا ہے تو انھیں ہم زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے تک گرانٹ دے سکتے ہیں جبکہ وفاق میں بیت المال کے قانون میں تین لاکھ تک دیے جا سکتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ رواں سال صوبائی وزیر برائے سوشل ویلفیئر اینڈ بیت المال سہیل شوکت بٹ نے جہیز پر پابندی کے حوالے سے قانون سازی اور شادیوں میں ون ڈش کی پابندی پر جلد عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی تھی۔

تاہم ابھی تک پنجاب میں اس پر کوئی نئی قانون سازی نہیں ہوئی ہے۔

دوسری جانب سماجی کارکن ممتاز مغل کا اس بارے میں کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کا یہ عمل غیر قانونی ہے۔ ’حکومت کا کام ہوتا ہے کہ وہ تمام تر قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے پروگرام لانچ کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں جہیز کے حوالے سے قوانین کو مزید سخت ہونے کی ضرورت ہے۔‘

جہیز شادیوں میں رکاوٹ؟

سماجی کارکن ممتاز مغل کے مطابق جہیز دینا اور لینا پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کا ایک خاصہ بڑا مسئلہ ہے۔ ’ہزاروں بچیوں کی شادی اس لیے نہیں ہو پاتی کیونکہ ان کے والدین پر یہ معاشرتی دباؤ ہوتا ہے کہ وہ بچیوں کی شادی اور جہیز کے لیے پیسے کہاں سے لائیں گے۔‘

’یہی نہیں بلکہ جہیز کی وجہ سے ایک بہت بڑی تعداد ایسے کیسز کی بھی ہے جہاں جہیز نہ لانے یا مرضی کی چیزیں نہ ملنے پر بچیوں کو تشدد اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’غریب بچیوں کی امداد کرنا یا ان کی شادی کروانا ایک اچھا عمل ہے لیکن سرکاری سطح پر جہیز کو پروموٹ کرنا غلط ہے۔‘

ان کی تجویز ہے کہ جہیز کے سامان اور پُرتعیش تقریبات پر پیسے خرچ کرنے کی بجائے وہی پیسے ’مستحق خاندانوں کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے لگانے چاہییں۔ بچیوں کو ایسا ہنر سکھانے پر لگانے چاہییں جس سے وہ اپنا روزگار کما سکیں۔‘

وہ سوال کرتے ہیں کہ ’کیا ان لڑکیوں کا سسرال میں وہی درجہ ہوتا اگر ان کی شادیاں بغیر جہیز اور تحفوں کے کی جاتیں؟‘

دعا زہرا: پاکستان میں کم عمری کی شادیاں روکنا اتنا مشکل کیوں؟چینی لڑکوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادیاں: ’بہتر تھا کہ میری بیٹی کی شادی ہی نہ ہوتی‘انڈیا میں سیکس کے لیے ’رضامندی کی عمر‘ پر بحث دوبارہ کیوں شروع ہوئی؟ڈسکہ میں زہرہ قدیر کا قتل: ’بیٹی کے سسرال میں دھلا فرش دیکھا تو چھٹی حِسّ نے کہا کچھ بہت برا ہو چکا ہے‘انڈیا کا تین دہائی پرانا سیکس سکینڈل، جس میں لڑکیوں کو’شادی کا لالچ‘ دے کر ان کی برہنہ ویڈیوز بنائی گئیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More