پنجاب کے ضلع فیصل آباد میں ایک بولنے والا طوطا چوری ہوا جس کے بعد ویمن پولیس سٹیشن صدر کی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے وہ طوطا ایک خاتون سے برآمد کر لیا۔
چوری ہونے والے طوطے کے ساتھ متاثرہ خاندان کی وابستگی اس قدر گہری تھی کہ وہ کئی دنوں تک کھانا بھی ٹھیک سے نہ کھا پائے۔
سوچیے جب ایک رنگ برنگے پرندے کی میٹھی بولی گھر کی خاموشی کو کچھ لمحوں کے لیے زندگی سے بھرپور نغمے میں بدل دیتی ہو۔
یہ ایک بولنے والا طوطا تھا جو فیصل آباد کے ایک خاندان کی روزمرہ زندگی کا ایک اہم حصہ بن گیا تھا مگر جب یہ چوری ہوا تو پورے خاندان میں اُداسی چھا گئی اور چوری کی اس واردات نے ’پالتو جانوروں سے محبت‘ کو نئے معنی دیے۔
پاکستان میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک طوطے کی بازیابی کے لیے پولیس نے فوری کارروائی کی اور صدر ویمن پولیس سٹیشن کی ایس ایچ او نے چوری ہونے والا پرندہ بازیاب کروایا۔
ویمن پولیس سٹیشن کی ایس ایچ او گلناز خالد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ‘لوگوں کے لیے یہ ایک معصوم اور بے زبان پرندہ تھا لیکن متاثرہ خاندان کے جذبات اس پرندے سے جڑے تھے۔ یہ طوطا اس خاندان کے سربراہ کو بابا کہہ کر پکارتا تھا اور انہوں نے یہ گزشتہ کئی برسوں سے پال رکھا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ‘متاثرہ خاندان سے ایک خاتون پولیس سٹیشن آئی جنہوں نے بتایا کہ ان کے گیراج میں ایک بولنے والا طوطا تھا جو اب پنجرے میں نہیں ہے۔ کئی دنوں تک یہ پورا خاندان بچوں سمیت پریشان رہا۔ پھر یہ معلوم ہوا کہ یہ طوطا اسی محلے کے ایک گھر میں موجود ہے۔‘
پولیس حکام کے مطابق جس گھر میں طوطا موجود تھا وہاں دو دوسرے پالتو پرندے بھی تھے اور اس گھر کی ایک خاتون پرندے پالنے کا شوق رکھتی تھیں۔
گلناز خالد نے بتایا کہ ‘اس گھر کے بچوں نے محلے میں بتایا کہ ان کے گھر بولنے والا طوطا آیا ہے اور پھر متاثرہ خاندان کو اس بارے میں معلوم ہوگیا۔ ان کے گھر کے آس پاس سب کو معلوم تھا کہ بولنے والا طوطا متاثرہ خاندان کا ہے۔‘
پولیس کے مطابق متاثرہ خاندان نے پہلے صلح صفائی کی کوشش کی لیکن معاملہ حل نہ ہو سکا تو پولیس کو درخواست دی جس پر کارروائی کی گئی اور مبینہ طور پر طوطا چوری کرنے والی خاتون کو تھانے بلایا گیا تاہم انہوں نے طوطا چوری کرنے کے الزامات سے انکار کیا۔‘
یہ کہانی صرف ایک طوطے کی واپسی کی نہیں تھی بلکہ ان انوکھے رشتوں کی بھی تھی جو انسان اور اس کے پالتو پرندے کے درمیان پروان چڑھ چکے تھے۔
مبینہ طور پر طوطا چوری کرنے والی خاتون نے پہلے تو یہ کہا کہ انہوں نے کوئی چوری نہیں کی تاہم ایس ایچ او گلناز خالد کے مطابق خاتون کو پولیس نے مقدمہ درج کرنے اور انہیں چوری کے الزام میں نامزد کرنے کی دھمکی دی تاکہ وہ غلطی کو تسلیم کریں۔ ’خاتون نے رات تک کا وقت مانگا اور پھر طوطا واپس کر دیا۔‘
گھر کے بچوں کے مطابق یہ طوطا نہ صرف ان کے ساتھ بات چیت کرتا تھا بلکہ ان کے روزمرہ کے معمولات میں بھی ان کے ساتھ رہتا ہے۔
ایس ایچ او گلناز خالد بتاتی ہیں کہ ‘ہم اس خاندان سے رابطے میں رہے۔ طوطے کی غیرموجودگی کے دوران خاندان کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ گھر کے بچے سکول جانا چھوڑ چکے تھے، متاثرہ خاندان نے کھانا پینا تک ترک کر دیا تھا، اور ہر فرد شدید پریشانی کے عالم میں تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’طوطے کی واپسی کے بعد ان کی زندگی میں رونق واپس لوٹ آئی ہے۔ بچوں نے طوطا ملنے کی خوشی میں سکول سے بھی چھٹی کی۔ جب یہ طوطا چوری ہوا تو انہیں ایسا لگا جیسے گھر کا کوئی فرد ہی غائب ہو گیا ہو۔‘
ویمن پولیس سٹیشن صدر کی ایس ایچ او گلناز خالد کے مطابق یہ کیس دو خواتین کا تھا اور ’ویمن پولیس سٹیشن کی پالیسی ہے کہ جب درخواست گزار یا شکایت کنندہ خاتون ہو تو اس طرح کے کیسز کو ہم ڈیل کرتے ہیں۔ اس میں پالتو پرندے کی چوری کا پہلو بھی شامل تھا جو قانوناً جرم ہے لہٰذا پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے طوطا متاثرہ خاندان کے حوالے کیا۔‘