انڈیا کی بدنام ’تہاڑ جیل‘ کے اُس غیرملکی قیدی کے اثر و رسوخ اور فرار کی کہانی جو ’سُپر آئی جی‘ کے نام سے معروف تھا

بی بی سی اردو  |  Feb 03, 2025

Getty Images

8 مئی 1981 کو سنیل کمار گپتا نامی نوجوان افسر ’اے ایس پی‘ کے طور پر اپنا تقرری لیٹر لے کر تہاڑ جیل کے سپرنٹنڈنٹ بی ایل وج کے دفتر پہنچے۔

جیسے ہی انھیں محکمہ جیل خانہ جات میں ملازمت ملی تو انھوں نے ریلوے کے محکمے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اور اُس وقت اُن کی عمر صرف 24 سال تھی۔

انھوں نے ریلوے کی نوکری سے سات مئی کو استعفیٰ دیا تھا اور اگلے ہی دن وہ تہاڑ جیل میں اپنی ملازمت کا آغاز کرنے پہنچے تھے۔

سنیل گپتا یاد کرتے ہیں کہ ’جیل سپرنٹنڈنٹ بی ایل وج نے ایک نظر مجھ پر ڈالی اور کہا یہاں اے ایس پی کی کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔‘

’میں یہ سُن کر دنگ رہ گیا کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔ میں نے انھیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ میرے ہاتھ میں اس نوکری کا سرکاری تقرر نامہ موجود ہے۔‘

’اس کے برعکس انھوں نے مجھے کہا کہ آپ کو ریلوے کی نوکری چھوڑنے سے پہلے پوچھ لینا چاہیے تھا۔ اب اس سب کے بعد میں باہر بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے اور اب میں کیا کروں۔‘

اُن کے مطابق اس دوران اُن کی نظر کوٹ اور ٹائی پہنے ایک شخص پر پڑی۔ سنیل گپتا اُن کا نام نہیں جانتے تھے لیکن ان کی شخصیت اتنی متاثر کن تھی کہ وہ انھیں دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے۔

سنیل گپتا مزید کہتے ہیں ’انھوں نے مجھ سے انگریزی میں میرے وہاں آنے کا مقصد پوچھا۔ میں نے انھیں سب کچھ بتایا۔ جس کے بعد انھوں نے کہا فکر مت کرو میں تمہاری مدد کروں گا۔‘ یہ کہتے ہوئے وہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں داخل ہو گئے۔

’ایک گھنٹے کے بعد وہ سپرنٹنڈنٹ کے کمرے سے ایک خط لے کر باہر آئے جس میں بتایا گیا تھا کہ مجھے تہاڑ میں اے ایس پی مقرر کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے وہ خط میرے حوالے کر دیا اور چلے گئے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ بااثر شخص کون ہے؟ میں نے ایک شخص سے اس کا نام پوچھا۔ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ یہ جیل کے ’سپر آئی جی‘ ہیں۔‘

یہ چارلس سوبھراج تھے جن کا تہاڑ جیل میں اتنا اثر و رسوخ تھا کہ لوگ انھیں ’چارلس صاحب‘ بھی کہہ کر پکارتے تھے۔

Getty Imagesایک زمانے میں انڈیا کی بدنام زمانہ ’تہاڑ جیل‘ میں چارلس سوبھراج کا بہت اثر و رسوخ تھااشوکا ہوٹل میں زیورات کی دکان میں چوری

چارلس سوبھراج چھ اپریل 1944 کو ویتنام کے شہر سائگون میں پیدا ہوئے تھے۔

اُن کی والدہ ویتنامی نسل کی تھیں جب کہ اُن کے والد ہندوستانی سندھی تھے۔ اُن کے والد نے چارلس اور اُن کی والدہ تنہا چھوڑ دیا تھا۔

مصنف ڈیوڈ موریسی چارلس سوبھراج کی سوانح عمری ’دی بکنی کلر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایک ناخوشگوار بچپن کے بعد چارلس کی ملاقات پیرس کی ایک خاتون چنٹل کمپگنن سے ہوئی۔‘

’جس دن وہ چنٹل سے شادی کرنے والے تھے انھیں ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس نے انھیں چوری شدہ گاڑی چلانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔‘

چارلس کو انڈیا میں پہلی بار سنہ 1971 میں ممبئی سے گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ دہلی میں انھوں نے اشوکا ہوٹل کی جیولری شاپ سے قیمتی جواہرات چرائے تھے۔

انھوں نے یہ واردات اشوکا ہوٹل میں اس وقت کی کہ جب اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر انڈیا کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور اسی اشوکا ہوٹل میں قیام پزیر تھے۔

چارلس کو گرفتار کرنے والے پولیس افسر مدھوکر زینڈے کہتے ہیں کہ ’چارلس نے وہاں کیبرے ڈانسر سے دوستی کی اور انھیں یقین دلایا وہ اُن سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے ہوٹل میں موجود جیولری شاپ کے مالک سے بتایا کہ وہ نیپال کے شہزادے ہیں۔ ’تم اپنے جواہرات میرے کمرے میں بھیجو تاکہ میں ان میں سے کچھ پسند کر سکوں۔ جب جیولری شاپ والا جواہرات کے ساتھ ہوٹل کے کمرے میں آیا تو سوبھراج نے اُس کو کافی کی آفر کی جس میں نشہ آور دوا ملائی گئی تھی۔‘

’پھر وہ سارے ہیرے لے کر ہوٹل سے بھاگ نکلے۔ جب سنار نے دیکھا کہ اس کا آدمی کافی دیر تک واپس نہیں آیا تو وہ اوپر آیا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ کمرے کا دروازہ بند تھا۔ جب ایک ڈپلیکیٹ چابی کی مدد سے کمرے کا دروازہ کھولا گیا تو اندر جیولری شاپ کا ملازم بے ہوش حالات میں ملا۔ مگر چارلس جب جلدی میں ہیرے لے کر ہوٹل کے کمرے سے فرار ہوے تو حادثاتی طور پر اپنا پاسپورٹ ہوٹل کے کمرے میں بھول گئے جس پر اُن کا پورا نام چارلس سوبھراج لکھا ہوا تھا۔‘

BBC’بلیک وارنٹ‘ نامی کتاب کے مصنف سنیل کمار گپتاتہاڑ جیل میں شوبھراج کی سلطنت

چوری کی اس واردات کے بعد چارلس کو جلد ہی گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن دہلی پولیس چارلس کو زیادہ دیر تک اپنی تحویل میں نہیں رکھ سکی۔

چارلس سوبھراج نے پیٹ میں درد کا ڈرامہ کیا اور پولیس کو چکمہ دے کر ویلنگٹن ہسپتال سے فرار ہو گئے۔

چارلس کو بالآخر 1976 میں ایک مرتبہ پھر اُس وقت گرفتار کر لیا گیا، جب انھوں نے دہلی کے وکرم ہوٹل میں فرانسیسی سیاحوں کو اُن کے پاسپورٹ چرانے کی نیت سے نشہ آور دوا پلائی۔

ان کا منصوبہ کام نہ کر سکا اور فرانسیسی سیاح بروقت ہوش میں آ گئے۔ چارلس کو گرفتار کر کے دہلی کی تہاڑ جیل پہنچا دیا گیا۔

تہاڑ انڈیا کی بدنام ترین جیلوں میں سے ایک تھی۔ جلد ہی چارلس سوبھراج نے اس جیل میں اپنی سلطنت قائم کی۔

سنیل گپتا یاد کرتے ہیں کہ ’چارلس کو کبھی کسی کوٹھری میں نہیں رکھا گیا تھا۔ اسے اکثر جیل کے انتظامی دفاتر میں بیٹھے دیکھا جاتا تھا۔ میرے دوست اکثر مجھے اس کے کارناموں کے بارے میں بتاتے تھے۔ انھیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ میں نے بھی ایک مرتبہ اُس کے تعلقات کا فائدہ اُٹھایا۔‘

’وہ جہاں چاہے جا سکتا تھا۔ وہ جیل سپرنٹنڈنٹ اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ اپنے برابر کا سلوک کرتا تھے۔ اس کے پاس ایک ٹیپ ریکارڈر تھا جس میں انھوں نے جیل افسران کی وہ گفتگو ریکارڈ کر رکھی تھی کہ جس میں وہ اُس سے رشوت مانگ رہے تھے۔‘

سٹوڈیو اپارٹمنٹ جیسی سہولیات

سنیل گپتا چارلس کے جیل میں قیام کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’شوبھراج 10 فٹ بائے 12 فٹ کی کوٹھری میں اکیلے رہتے تھے۔ انھیں جیل میں سی کلاس کے قیدی بطور نوکر دیے جاتے تھے جو ان کی مالش کرتے تھے، ان کے کپڑے دھوتے اور کھانا بھی پکاتے تھے۔‘

’ان کے سیل میں کتابوں سے بھرا ایک شیلف تھا۔ بیٹھنے کے لیے ایک بستر، ایک میز اور ایک کرسی بھی دی گئی تھی۔ ان کا سیل ایک سٹوڈیو اپارٹمنٹ جیسا لگتا تھا۔ وہ قیدیوں اور جیل کے عملے کے لیے درخواستیں لکھتے تھے۔‘

’ان کی طرف سے لکھی گئی درخواستوں کا اثر وکلا کی جانب سے لکھی اور دائر کی جانے والی درخواستوں سے زیادہ تھا۔ اگر قیدیوں کو پیسوں کی ضرورت ہوتی تو شوبھراج اُن کی یہ ضرورت پوری کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو قیدیوں اور جیل کے عملے دونوں کا ہی رہنما سمجھتے تھے۔‘

Getty Imagesراکیش کوشک کیس میں دہلی ہائی کورٹ نے چارلس سوبھراج کا نام لیے بغیر ایک غیر ملکی قیدی کا ذکر کیا تھا جو انٹرپول کو مطلوب تھاجیل سپرنٹنڈنٹ کو اُکسانا

انڈین ایکسپریس نے ستمبر 1981 میں ایک خبر شائع کی تھی کہ تہاڑ جیل میں چارلس سوبھراج کے الفاظ حتمی ہوتے ہیں۔

اسی سال پیپلز یونین آف سول لبرٹیز (PUCL) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ سوبھراج اور اُن کے دوستوں نے جیل کے اندر اپنے اڈے بنائے ہوئے تھے جہاں سے وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

’اگر کوئی اُن کی مخالفت کرتا تو سوبھراج اور اُن کے دوست انھیں مارنے سے بھی نہیں شرماتے تھے۔ سوبھراج کے دوستوں میں بینک لٹیرے سنیل بترا، وپن جگی اور روی کپور بھی شامل تھے۔ یہ سب اچھے گھرانوں سے آئے تھے اور پڑھے لکھے تھے۔‘

راکیش کوشک کیس میں دہلی ہائیکورٹ نے چارلس سوبھراج کا نام لیے بغیر ایک غیر ملکی قیدی کا ذکر کیا تھا جو انٹرپول کو مطلوب تھا۔

ہائیکورٹ نے کہا کہ ’اس غیر ملکی کو جیل سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی جیل سپرنٹنڈنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ انھیں ہر روز اپنے دفتر سے ملحقہ کمروں میں باہر آنے والے لوگوں سے ملتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے اس قیدی کو اپنی اپنی کوٹھڑی میں جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔‘

’ظاہر ہے جیل سپرنٹنڈنٹ اور اس کے ماتحت اس قیدی سے ایسی سہولیات فراہم کرنے کی بھاری قیمت وصول کرتے ہیں۔ یہ غیر ملکی قیدی اپنی دو کتابوں کی اشاعت کے بعد مزید امیر ہو گیا ہے۔‘

Getty Imagesچارلس سوبھراج اپنی بیٹی موریل انوک کے ساتھگیانی زیل سنگھ کی تہاڑ میں سوبھراج سے ملاقات

اس وقت شیریں واکر چارلس سوبھراج کی گرل فرینڈ ہوا کرتی تھیں۔ انھوں نے اسے ہندوستان بلایا تھا۔ وہ جب بھی دہلی میں ہوتیں تویہاں کے فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرتی تھیں۔

پی یو سی ایل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’شیرین واکر نے لگاتار چھ دنوں تک سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے کمرے میں چارلس سوبھراج سے گھنٹوں پر محیط ملاقاتیں کیں۔‘

جب ’انڈین ایکسپریس‘ میں سوبھراج کے بارے میں خبر شائع ہوئی تو اُس وقت کے وزیر داخلہ گیانی زیل سنگھ نے اچانک رات دیر گئے تہاڑ جیل جانے کا فیصلہ کیا۔

سنیل گپتا یاد کرتے ہیں ’یکم ستمبر کو شام 7 بج کر 30 منٹ پر ایک گارڈ مجھے یہ اطلاع دینے کے لیے بھاگتا ہوا آیا کہ وزیر داخلہ آ گئے ہیں۔ کیا میں انھیں اندر جانے دوں؟‘

’آج یہ بات مضحکہ خیز لگ سکتی ہے لیکن اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہاڑ جیل کے ہر گارڈ کو یہ بات واضح طور پر بتا دی جاتی تھی کہ جیل انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کسی کو بھی جیل میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ انڈیا کے وزیر داخلہ کو جیل کے باہر انتظار کرنے کو کہہ دیا گیا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’میں گیٹ کی طرف بھاگا۔ وزیر داخلہ نے مجھے چارلس سوبھراج کے سیل میں لے جانے کو کہا۔ جیسے ہی وہ سوبھراج سے ملے انھوں نے ہندی میں پوچھا آپ کیسے ہیں؟ کیا آپ کو یہاں کوئی مسئلہ ہے؟ میں نے ترجمہ کیا۔ سوبھراج نے انھیں انگریزی میں جواب دیا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اور یہ کہ انھیں کوئی شکایت نہیں ہے۔‘

Getty Imagesہندوستان کے سابق وزیر داخلہ گیانی زیل سنگھ نے رات گئے تہاڑ جیل کا اچانک دورہ کیا تھاسنیل گپتا کی معطلی

سنیل گپتا کہتے ہیں کہ ’جب میں گیانی جی کو اگلے کمرے میں لے گیا تو وہاں موجود دو قیدی بھاجی اور دینا اچانک ’چاچا نہرو زندہ باد‘ کے نعرے لگانے لگے۔‘

’جب گیانی جی کے سیکریٹری انھیں ایک جانب لے گئے تو انھوں نے ان سے کہا کہ ’یہاں سب کچھ ملتا ہے، منشیات، شراب اور جو چاہے۔‘ اگلے دن اخبار نے خبر دی کہ قیدیوں نے وزیر کے سیکرٹری کو شراب کی ایک خالی بوتل دکھائی تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ اسے یہاں لانا کتنا آسان ہے۔

’اس واقعے کے دو دن بعد وزارت داخلہ نے تہاڑ جیل کے چھ اہلکاروں کو معطل کر دیا، میں بھی ان میں سے ایک تھا۔ جب میں نے احتجاج کیا کہ میں ان قیدیوں کے لیے ذمہ دار نہیں ہوں جو وزیر کے سامنے پیش ہوئے۔ جس کے بعد مجھے ڈیڑھ ماہ تک معطل رہنے کے بعد ملازمت پر بحال کر دیا گیا۔‘

سنیل گپتا کی معطلی کے دوران چارلس سوبھراج ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔ چارلس سوبھراج نے انھیں مالی امداد کی پیشکش بھی کی جسے گپتا کے بقول انھوں نے قبول نہیں کیا۔

Getty Imagesجس دن چارلس سوبھراج تہاڑ جیل سے فرار ہوئے ان کے ہمراہ 12 قیدی اور بھی تھےتہاڑ جیل سے فرار

اتوار 16 مارچ 1986 کو چارلس سوبھراج تہاڑ جیل کے تمام سکیورٹی اہلکاروں کو چکمہ دے کر فرار ہو گئے۔

کانسٹیبل آنند پرکاش نے سب سے پہلے اس بارے میں خطرے کی گھنٹی بجائی۔ جب وہ جیل کے قریب کوارٹر پہنچے تو انھوں نے اپنا چہرہ موٹے کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ اس نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے دفتر کی گھنٹی بجائی تو اس کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکلا۔

اس کے منہ سے صرف یہی الفاظ نکلے ’بھاگو، فوراً۔‘

چارلس سوبھراج کی رہائی کا حکم: 'بکنی کِلر' جس کی کئی ممالک کی پولیس کو برسوں تلاش رہیایک کلاشنکوف، 389 قیدی اور ماؤ نواز باغی: ’ایشیا کی سب سے بڑی جیل بریک‘ کے شاطر ماسٹر مائنڈشام کی بدنامِ زمانہ جیل سے رہا ہونے والا وہ پراسرار قیدی جس سے تعلق کا دعویٰ متعدد خاندان کر رہے ہیںجب انڈین انٹیلیجنس نے جنرل مشرف کا فون ٹیپ کیا: ’یہ پاکستان ہے، کمرہ نمبر 83315 سے ہمارا رابطہ کروائیں‘

بعد ازاں جیل نمبر تین کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر وی ڈی پشکرنا نے کہا کہ ’جیل کے تمام دروازے کھلے تھے، جیل کا پورا عملہ، بشمول گیٹ کیپر، سکیورٹی سٹاف اور یہاں تک کہ ڈیوٹی آفیسر شیوراج یادو بھی سوئے ہوئے تھے۔ جیل کے دروازے تک اپنی مقررہ جگہ پر نہیں تھے۔‘

تمل ناڈو پولیس اہلکاروں کو تہاڑ جیل میں تعینات کیا گیا تھا تاکہ وہ شمالی ہند کے مجرموں کے ساتھ زیادہ بات چیت نہ کریں۔ لیکن وہ بھی بے ہوش پڑے تھے۔

اس روز تہاڑ جیل کے 900 قیدیوں میں سے 12 قیدی جیل سے فرار ہو گئے تھے۔

مٹھائی میں منشیات

سنیل گپتا یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس دن میں گھر پر ایک فلم دیکھ رہا تھا۔ تب ٹی وی پر اعلان ہوا کہ چارلس سوبھراج تہاڑ جیل سے فرار ہو گئے ہیں۔ میں فوراً جیل پہنچا۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ ہر بے ہوش سپاہی کے ہاتھ میں پچاس روپے کا نوٹ پھنسا ہوا پایا گیا۔‘

’اس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ اپنی سالگرہ منانے کے بہانے شوبھراج نے پہلے کانسٹیبلوں کو 50 روپے کا لالچ دیا اور پھر انھیں منشیات سے بھری مٹھائی کھلائی۔‘

سنیل گپتا کے مطابق ’دہلی کے ڈپٹی پولیس کمشنر اجے اگروال نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ تہاڑ جیل میں دو لوگ آئے تھے اور ایک قیدی کی سالگرہ منانے کے لیے قیدیوں میں پھل اور مٹھائیاں تقسیم کرنے کی درخواست کی تھی۔ جب وارڈن شیوراج یادو نے اجازت دی تو اس نے یادو اور پانچ دیگر گارڈز کو نشہ آور دوا سے بھری مٹھائی کھلائی۔ یہ سب مٹھائی کھانے کے بعد بے ہوش ہو گئے اور چند گھنٹوں کے بعد ہی ہوش میں آئے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’تفتیش میں پتہ چلا کہ ایک برطانوی شہری ڈیوڈ ہال کو کچھ دن پہلے تہاڑ سے رہا کیا گیا تھا اسے منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ سوبھراج نے اس کی ضمانت کی درخواست لکھوانے میں مدد کی تھی جس کے بعد اس کی سوبھراج سے دوستی ہو گئی تھی۔‘

’ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے پتہ چلا کہ ہال نے شوبھراج سے فرار ہونے سے پہلے ملاقات کی تھی اور اسے ایک پیکٹ دیا تھا۔ ہال کو صرف 12،000 روپے میں ضمانت دی گئی تھی۔ عام مجرم ضمانت ملتے ہی گھر واپس آ جاتے ہیں۔ لیکن ہال تہاڑ واپس آیا اور سوبھراج کو جیل سے فرار ہونے میں مدد کی۔‘

’تہاڑ جیل کے باہر ایک کار سوبھراج کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ تہاڑ جیل کے ایک کانسٹیبل کو بھی اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے تھے تاکہ وہاں تعینات تمل ناڈو پولیس کے اہلکار یہ سمجھیں کہ سوبھراج پولیس کی رضامندی سے جیل سے باہر جا رہے ہیں۔‘

گوا میں گرفتاریGetty Imagesشوبھراج تہاڑ جیل کے باہر صرف 23 دن رہ سکے

ایک رپورٹ کے مطابق سوبھراج نے ’لارپوس‘ (نیند کی گولی) کی 820 گولیوں کو مٹھائی میں ملانے کے لیے استعمال کیا تھا۔

اس واقعے کے بعد دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر ایچ کے ایل کپور اور پولیس کمشنر وید مارواہ نے تہاڑ جیل کا دورہ کیا اور وی ڈی پشکرنا اور دیگر پانچ افسران کی گرفتاری کا حکم دیا۔

لیکن سوبھراج تہاڑ جیل کے باہر صرف 23 دن رہ سکے۔ انھیں بمبئی پولیس کے انسپکٹر مدھوکر زینڈے نے گوا کے ایک ریستوران سے گرفتار کیا تھا۔

انسپکٹر مدھوکر کو ٹیلی فون ایکسچینج سے ایک خفیہ اطلاع ملی کہ سوبھراج وہاں کے اوکوکیرا ریستوراں میں آ سکتا ہے۔

زینڈے یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’6 اپریل کی رات 10:30 بجے انڈیا اور پاکستان کا ہاکی میچ ٹی وی پر تھا۔ ہوٹل کا ایک بڑا صحن تھا۔ اندر ایک اندرونی کمرہ تھا۔ ہم اندر کے کمرے میں بیٹھے تھے۔‘

’میں نے گیٹ کے باہر ٹیکسی سے دو آدمیوں کو نکلتے دیکھا۔ انھوں نے سورج کی روشنی سے بچانے والی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔ میں حیران تھا کہ اتنی رات کو انھوں نے ایسی کیپ کیوں پہنی ہے۔‘

’جب وہ آگے آئے تو میں نے دیکھا کہ وہ چارلس سوبھراج اور ان کے دوست ڈیول ہال کی طرح دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ میرا دل بھی دھڑکنے لگا۔‘

زینڈے مزید بتاتے ہیں کہ ’میں اچانک اپنی جگہ سے اٹھا اور پیچھے سے ان کو دبوچ کر چلایا، ’چارلس‘

انھوں نے جواب دیا ’کون چارلس؟'‘

’میں نے کہا کہ تم خونی چارلس سوبھراج ہو۔ تو اس نے جوابا مجھے کہا کہ کیا تم پاگل ہو؟ میں نے کہا کہ میں وہی زینڈے ہوں جس نے تمہیں 71 میں پکڑا تھا۔ اتنا سن کر وہ گویا ہمت ہار گیا۔‘

’ہم نے اپنے ساتھ کوئی ہتھکڑی نہیں لی تھی ۔ ہم نے ہوٹل کے مالک سے کہا کہ اس کے پاس جو بھی رسی ہے وہ ہمیں فراہم کرے۔ ہم نے اسے رسی سے باندھ دیا اور کمشنر کو فون کر کے بتایا کہ ہم نے چارلس کو پکڑ لیا ہے۔‘

ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں قید سوبھراج facebookمدھوکر زینڈے جنھوں نے چارلس سوبھراج کو گوا میں گرفتار کیا

دہلی پولس کے ڈپٹی کمشنر امود کانتھ نے شوبھراج کو اپنی تحویل میں لیا اور اسے خصوصی طیارے میں دہلی لے آئے۔

سوبھراج کے فرار کے باعث جیل کی سزا میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔ تھائی لینڈ میں اس کی حوالگی کے عمل کو روک دیا گیا تھا جہاں انھیں قتل کے لیے موت کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ تہاڑ جیل واپس آنے کے بعد ان کی تمام آزادی چھین لی گئی۔

سوبھراج کو دوسرے قیدیوں سے الگ تھلگ کر کے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں رکھا گیا اور سکیورٹی گارڈ کے بغیر کہیں بھی جانے سے روک دیا گیا۔ لیکن وہ عدالت جاتے ہوئے بھی باہر کے لوگوں سے ملتے رہے۔

انڈیا ٹوڈے نے اپنے ستمبر 1986 کے شمارے میں لکھا، ’چارلس عدالت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بیڑیوں سے آزاد ہو سکیں۔ وہ عدالت میں عدالتی حراست کے دوران اپنا پسندیدہ کھانا کھانے اور اپنے وکیل سنیہ سینگر سےمل کر دیر تک اپنے کیس سے متعلق فائلوں کو دیکھنے میں مشغول رہتے ہیں۔‘

جیل میں اتنی سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود شوبھراج کے پاس سے تھوڑی مقدار میں چرس برآمد ہوئی جسے روٹی کے دو ٹکڑوں کے درمیان لایا گیا تھا۔ غفلت برتنے کے الزام میں دو کانسٹیبلوں کو پہلے معطل اور بعد میں نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا۔

Getty Imagesکرن بیدی نے چارلس کو تہاڑ جیل کے قانونی سیل سے منسلک کیا تھاسوبھراج کی وجہ سے کرن بیدی کا تبادلہ

سنیل گپتا کا دعویٰ ہے کہ تہاڑ جیل کے آئی جی کرن بیدی کے تبادلے کی وجہ بھی چارلس سوبھراج تھے۔

کرن بیدی نے انھیں تہاڑ جیل کے لیگل سیل سے منسلک کیا تھا۔ انھیں قیدیوں کی درخواستیں ٹائپ کرنے کے لیے ایک ٹائپ رائٹر دیا گیا تھا۔

اس میں کچھ بھی غیر قانونی نہیں تھا۔ تاہم منتقلی کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ ٹائپ رائٹر ایک لگژری آئٹم تھا اور شوبھراج اس کی مدد سے کتابیں لکھ کر اپنے کارناموں کی تعریف کر رہے تھے۔

چناچہ اس کو وجہ بنا کر میگسیسے ایوارڈ یافتہ کرن بیدی کو دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔

نیپال کی جیل میں 19 سال

تہاڑ جیل میں 20 سال گزارنے کے بعد چارلس سوبھراج 17 فروری 1997 کو تہاڑ جیل سے رہا ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر 53 سال تھی۔

لیکن پھر بھی ان کی مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔ انھیں چھ سال بعد 2003 میں نیپال میں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔21 دسمبر 2022 کو نیپال کی سپریم کورٹ نے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ وہاں سے انھیں فرانس بھیج دیا گیا جہاں وہ اب بھی رہتے ہیں۔

ایک کلاشنکوف، 389 قیدی اور ماؤ نواز باغی: ’ایشیا کی سب سے بڑی جیل بریک‘ کے شاطر ماسٹر مائنڈ’ان کی آنکھوں میں نہ دیکھیے گا‘: ایل سلواڈور کے بدنام زمانہ جیل میں صحافیوں نے کیا دیکھا؟’باہر اللہ اکبر کی صدا سن کر جیل سے ننگے پاؤں بھاگے‘: شام کی بدنام صیدنایا جیل سے رہائی پانے والے قیدیوں کی کہانیجب انڈین انٹیلیجنس نے جنرل مشرف کا فون ٹیپ کیا: ’یہ پاکستان ہے، کمرہ نمبر 83315 سے ہمارا رابطہ کروائیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More