’دھان منڈی 32‘: شیخ مجیب الرحمٰن کا وہ گھر جسے ’فاشزم کی زیارت گاہ‘ قرار دے کر گرا دیا گیا

بی بی سی اردو  |  Feb 08, 2025

Getty Images

گوگل پر ’بنگابندھو میموریل میوزیم‘ کی ویب سائٹ تلاش کی جائے تو سرخ پٹی پر انگریزی زبان میں ابھرتے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہ ’عارضی بند‘ ہے۔

لیکن پچھلے کچھ دن میں ڈھاکہ سے آتی خبروں اور تصویروں پر جائیں تو پتا چلتا ہے کہ بنگلہ دیش کے’بابائے قوم‘ کہلائے جانے والے مجیب الرحمٰن کی یاد میں بنے اس میوزیم کی صرف ویب سائٹ ہی بند نہیں بلکہ خود اسے بھی ’فاشزم کی زیارت گاہ‘ قرار دے کر مظاہرین آدھا گرا چکے ہیں۔۔

انڈیا میں پناہ گزین سابق وزیراعظم اور مجیب الرحمٰن کی بیٹی شیخ حسینہ کی تقریر کا اعلان ہوا تو بدھ کے دن کے آغاز پر اس پر تنبیہ جاری کرتے ہوئے انسدادِ امتیاز طلبہ تحریک کے کنوینئر حسنات عبداللہ نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ ’آج رات بنگلہ دیش کی سرزمین فاشزم کی زیارت گاہ سے آزاد ہو جائے گی‘ اور پھر ایسا ہی ہوا۔

میڈیا کی خبروں سے علم ہوتا ہے کہ شیخ حسینہ سوشل میڈیا پرلوگوں کو محمد یونس کی قیادت میں قائم عبوری حکومت کے خلاف ’مزاحمت‘ ابھارنے کے لیے تقریرکر رہی تھیں جب ایک بلڈوزر اور کرین سے لیس ہزاروں مظاہرین نے یہاں توڑ پھوڑ کی، تصویروں کو تباہ کیا اور عوامی لیگ پر پابندی کے نعرے لگائے۔

Getty Images

’دھان منڈی 32‘ کہلاتی اس عمارت کو پچھلے سال پانچ اگست کو بھی آگ لگا دی گئی تھی جب کئی ہفتوں تک چلنے والے احتجاج کے بعد، جس میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے، شیخ حسینہ کی تقریباً 16 سالہ عوامی لیگ حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور وہ اپنی چھوٹی بہن شیخ ریحانہ کے ساتھ خفیہ طور پر بنگلہ دیش ایئر فورس کی پرواز کے ذریعے انڈیا روانہ ہو گئیں۔

شیخ حسینہ نے عوامی لیگ کے فیس بک پیج پر براہ راست نشر ہونے والی تقریر میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ایک عمارت کو گرا سکتے ہیں لیکن تاریخ کو نہیں مٹا سکتے۔‘

آئیے جانتے ہیں کہ اس مقام کی تاریخ ہے کیا۔

ایک بیگہ زمین کا گھر تمام تحریکوں کا مرکزGetty Images

ڈاکٹر ابوالحسنات ملٹن، شیخ حسینہ پر لکھی اپنی کتاب میں بتاتے ہیں کہ 1956 میں شیخ مجیب مشرقی پاکستان کے وزیرِ صنعت تھے۔

بیگم مجیب کی تجویز پر مجیب کے پرائیویٹ سیکریٹری نے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کو دھان منڈی میں ان کے لیے زمین کی درخواست دی۔ اگلے سال مجیب کو چھ ہزار پاکستانی روپے کے عوض یہاں ایک بیگہ زمین مل گئی۔

سنہ 1958 میں مارشل لا لگا تو شیخ مجیب کو تو حراست میں لے لیا گیا اور ان کے خاندان کو سرکاری گھر سے نکلنے کے بعد ایک کے بعد دوسرا کرائے کا گھر لینا پڑا۔

ڈاکٹر ابوالحسنات لکھتے ہیں کہ ’کرائے کے گھروں میں رہنے کی تکلیف سے جان چھڑانے کے لیے بیگم مجیب نے یہاں گھر بنانے کا سوچا۔ مجیب قید سے لوٹے تو یہاں دوکمروں کا ایک منزلہ گھر بنایا اور یکم اکتوبر1961 سے سب یہاں رہنے لگے۔‘

رفعت تبسم نے ’وٹنس ٹو ہسٹری‘ میں لکھا کہ شیخ مجیب کے سب سے چھوٹے بیٹے شیخ رسل کی پیدائش 1964 میں اسی گھرمیں ہوئی۔

ڈاکٹر ابوالحسنات کے مطابق سنہ 1966 میں دوسری منزل بنی۔ شیخ مجیب اورعوامی لیگ کی سیاسی سرگرمیوں اور خود مختاری کے مطالبات لیے چھ نکات ہوں، انتخابات ہوں یا علیحدگی، بعد میں چلی تمام تحریکوں کا مرکز یہی گھر تھا۔‘

پچھلے سال میوزیم کو آگ لگائے جانے کے بعد سید بدرالاحسن نے ’ڈھاکا ٹربیون‘ میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ یہی وہ جگہ تھی جہاں گراؤنڈ فلور کے ڈرائنگ روم میں وہ مہمانوں سے ملتے تھے، جن میں (مغربی پاکستان سے) خان عبد الولی خان،ایئر مارشل اصغر خان، غوث بخش بزنجو اور کئی دیگر شخصیات شامل تھیں۔

ان ہی دنوں میں ہزاروں بنگالی روزانہ یہاں جمع ہوتے۔

Getty Images

ڈیوڈ لڈن اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ 1971 میں 25 اور 26 مارچ کی رات شیخ مجیب نے یہیں بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا۔ اس سے تھوڑی دیر بعد پاکستانی فوج نے انھیں گرفتار کر لیا۔

بدر الاحسن لکھتے ہیں کہ زندگی، جو 32 دھان منڈی کی پہچان تھی، اس وقت لوٹی جب شیخ مجیب پاکستان سے رہائی پا کر 10 جنوری 1972 کو بنگلہ دیش واپس آئے۔

یہیں پر 15 اگست 1975 کو ناراض فوجی افسران نے شیخ مجیب، ان کی اہلیہ شیخ فضیلت النسا مجیب اور ان کے بیٹوں شیخ کمال، شیخ جمال اور شیخ رسل کو قتل کر دیا۔ شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ جرمنی میں تھیں تو وہ بچ گئیں۔

صحافی لیوس ایم سائمنز نے اپنی کتاب ’ٹو ٹیل دا ٹرتھ: مائی لائف ایز اے فارن کارسپانڈینٹ‘ میں لکھا ہے کہ مجیب، اپنے سے پہلے بہت سے لوگوں کی طرح، اپنی پہلے سے وسیع طاقت کو مطلق العنان بنانے کے فریب میں مبتلا ہو گئے تھے۔

’وطن واپسی کے صرف تین سال کے اندر انھوں نے پارلیمانی جمہوریت کو ترک کر دیا اور ایک نوزائیدہ اور لڑکھڑاتے ہوئے ملک کے وزیرِاعظم سے صدر بن گئے اور بے مثال اختیارات حاصل کر لیے۔

عوام اور فوج، پہلے مایوس اور پھر شدید ناراض ہو کر، ان کے خلاف مہلک انداز میں پلٹ آئے۔

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی تقاریر پر پابندی: کیا وہ دوبارہ سیاست میں متحرک ہو رہی ہیں؟حسینہ واجد: کیا انڈیا ’بِن بُلائی مہمان‘ کو سیاسی پناہ دینے پر غور کر رہا ہے؟کیا ٹرمپ کی جیت کے بعد شیخ حسینہ دوبارہ بنگلہ دیش میں اقتدار میں آ سکتی ہیں؟بانیِ بنگلہ دیش جن کی میت کو غسل دینے کے لیے صابن تک دستیاب نہ ہواخون میں ڈوبا ہوا گھر

’مجیب کا گھر... حقیقت میں خون میں ڈوبا ہوا تھا۔ داخلہ، رہائشی کمرہ، دوسری منزل کا ایک کمرہ اور کئی غسل خانے خون سے لت پت تھے۔‘

محبوب حسن ’بنگلہ ٹربیون‘ میں چھپے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’فوجی حکومت نے 15 اگست 1975 کو اقتدار میں آنے کے بعد اس گھر کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ شیخ واجد خاندان کو اس گھر میں داخل ہونے سے منع کر دیا گیا، چنانچہ 17 مئی 1981 کو جب شیخ حسینہ بنگلہ دیش واپس آئیں تو انھیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔‘

’10جون 1981 کو شیخ حسینہ نے قرض کی ایک قسط ادا کر کے اس گھر کی ملکیت حاصل کر لی۔ یہ گھر نیلامی کے لیے رکھا گیا تھا کیونکہ اس کی تعمیر کے لیے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے لیے گئے قرض کی قسطیں ادا نہیں کی گئی تھیں۔ 12 جون 1981 کو یہ گھر باضابطہ طور پر شیخ مجیب کے زندہ بچ جانے والے خاندان کے افراد کے حوالے کر دیا گیا۔‘

’شیخ حسینہ کو اس عمارت میں شیخ مجیب کی ڈائریاں ملیں، جو بعد میں یادداشتوں کی صورت میں شائع کی گئیں۔‘

’ملکیت حاصل کرنے کے باوجود شیخ حسینہ اپنے شوہر کے ساتھ سرکاری کوارٹر میں رہتی رہیں اور بعد میں انھوں نے اپنے والد کے گھر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔‘

شیخ حسینہ نے رہائش گاہ کی ملکیت حاصل کرنے کے بعد اسے ایک میوزیم میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا۔ 14 اگست 1994 کو اس کا باضابطہ افتتاح کیا گیا اور چھ ستمبر 1994 کو بنگابندھو میموریل ٹرسٹ کے حوالے کر دیا گیا تاکہ اسے مکمل طور پر ایک میوزیم میں تبدیل کیا جا سکے۔

تبدیلی کے دوران میں ٹرسٹ نے گھر کی اصل ساخت کو محفوظ رکھا۔

Getty Imagesشیخ مجیب الرحمان کو 1975 میں فوجی تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران قتل کر دیا گیا تھا10 اگست 1989 کی رات ہونے والا حملہ

مختلف دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ گھر کی نچلی منزل میں ایک ڈرائنگ روم، مطالعہ کا کمرہ اور باورچی خانہ تھا۔ ڈرائنگ روم سیاسی بحث و مباحثے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور جب سے یہ گھر میوزیم بنا یہاں ایک گیلری قائم کر دی گئی۔

دوسری منزل پر جانے پر سب سے پہلا کمرہ شیخ حسینہ کا بیڈ روم تھا۔ اسی منزل پر شیخ مجیب، شیخ جمال، شیخ کمال اور شیخ ریحانہ کے بیڈ رومز بھی موجود تھے۔ شیخ مجیب کے بیڈ روم کے ساتھ ایک کمرہ تھا جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ ٹیلی ویژن دیکھتے اور کھانا کھاتے تھے۔

میوزیم میں شیخ رسل کی اشیا جیسے کہ گیندیں، ایکویریئم، کھلونے اور گھڑیاں بھی رکھی گئی تھیں۔ یہاں ایک تحفے کی دکان بھی موجود تھی۔ میوزیم میں ایک ورچوئل سیکشن بھی تھا۔ اس ورچوئل سیکشن میں ایک شو کیس تھا جس میں کئی اہم اور تاریخی دستاویزات رکھی گئی تھیں۔

میوزیم کے نئے سیکشن میں ایک گیلری قائم کی گئی جس کا نام ’شیخ لطف الرحمٰن اور شیخ سائرہ خاتون گیلری ‘رکھا گیا، جو بنگا بندھو کے والدین کے نام سے منسوب تھی۔ میوزیم کے توسیعی حصے میں ایک لائبریری اور تحقیقی مرکز بھی موجود تھا۔

یہاں ایک کمرہ بھی تھا جسے شیخ مجیب نے ایک سیلون کے طور پر استعمال کیا اور جہاں وہ اکثر مہمانوں سے ملاقات کرتے تھے۔

عمارت کے داخلی راستے پر نچلی منزل میں ایک استقبالیہ ہال تھا، جو سرکاری مقاصد کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ شیخ حسینہ کا بیڈ روم، سٹور روم اور ویٹنگ روم بند رکھے گئے تھے۔

اس عمارت پر 10 اگست 1989 کی رات بھی ایک بار حملہ ہوا تھا جب شیخ حسینہ اس عمارت میں مقیم تھیں۔

شدید اور پیچیدہ اقتدار کی جنگGetty Images

کچھ روز پہلے جب یہ عمارت گرائی جا رہی تھی تو معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ نے قدرے جذباتی لہجے میں کہا کہ ’1971 کی جنگِ آزادی کے دوران میں پاکستانی فوجیوں نے بھی اس گھر کو منہدم یا نذرِ آتش نہیں کیا تھا۔‘

اپنی تحقیقی کتاب ’ڈیڈ ریکننگ: میموریز آف 1971 بنگلہ دیش وار‘ میں سَرمیلا بوس لکھتی ہیں کہ جب (پاکستانی) فوج 25-26 مارچ 1971 کی رات شیخ مجیب کو گرفتار کرنے آئی تو وہ فکر مند تھے۔ فوجیوں نے انھیں گرفتار کرکے قید کر دیا اور ان پر بغاوت کا الزام عائد کیا۔

لیکن جب (بنگلہ دیشی) فوجی 15 اگست 1975 کو ان کے لیے آئے، تو وہ انھیں اپنے لوگ سمجھ کر ملنے گئیں مگر انھوں نے شیخ مجیب کو قتل کر دیا اور ان کے ساتھ ان کے تمام قریبی اہل خانہ کو بھی، جن میں ان کی اہلیہ، دو بہوئیں، اور تین بیٹے شامل تھے، جن میں سب سے چھوٹا صرف دس برس کا تھا۔

ان کے مطابق، آخر میں نہ تعداد اہم رہی اور نہ ہی نام۔ اصل بات یہ تھی کہ یہ ایک شدید اور پیچیدہ اقتدار کی جنگ تھی،جس میں کئی لوگ شامل تھے اور جس نے بے شمار جانیں لے لیں۔

’سنہ 1971 کی جنگ کے بعد ملک میں تشدد، عدم برداشت اور سیاسی مخالفت کو دبانے کے لیے دھمکیوں، ظلم اور تباہی کا سلسلہ چل نکلا۔‘

حسینہ واجد: کیا انڈیا ’بِن بُلائی مہمان‘ کو سیاسی پناہ دینے پر غور کر رہا ہے؟بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی تقاریر پر پابندی: کیا وہ دوبارہ سیاست میں متحرک ہو رہی ہیں؟کیا ٹرمپ کی جیت کے بعد شیخ حسینہ دوبارہ بنگلہ دیش میں اقتدار میں آ سکتی ہیں؟بانیِ بنگلہ دیش جن کی میت کو غسل دینے کے لیے صابن تک دستیاب نہ ہواشیخ مجیب الرحمان کے پاکستان کی جیل میں گزرے دن اور انار خانقیام بنگلہ دیش کی وجوہات کو پاکستان کے تعلیمی نصاب میں کیسے پیش کیا جاتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More