Getty Images
آٹھ فروری 2024 کو ’بلے‘ کے انتخابی نشان کے بغیر پاکستان تحریک انصاف میدان میں اُتری تھی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں اس جماعت نے صوبہ خیبرپختونخوا میں ریکارڈ تیسری بار اپنی حکومت قائم کی جبکہ قومی اسمبلی میں یہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری تاہم تحریک انصاف کا یہ الزام رہا ہے کہ گذشتہ عام انتخابات میں ’بدترین دھاندلی‘ کے ذریعے اِس کا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے۔
گذشتہ ایک سال کے دوران ناصرف اس جماعت کے اسیر سربراہ عمران خان کو مختلف کیسز میں سزائیں سُنائی گئی ہیں بلکہ پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف بھی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے گذشتہ ایک سال کے دوران 26 نومبر 2024 کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں بڑا احتجاج کیا گیا تھا، تحریک انصاف کا الزام ہے اس موقع پر حکومت کی جانب سے کیے گئے کریک ڈاؤن کے دوران متعدد کارکنان کی ہلاکت ہوئی تاہم حکومت اس کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کرتی ہے کہ اس موقع پر نہ تو کوئی گولی چلی اور نہ ہی کوئی ہلاکت ہوئی ہے۔
اس دوران پی ٹی آئی کی جانب سے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا وہیں حکومت سے مذاکرات کا سلسلہ بھی چلا مگر اس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔
پی ٹی آئی نےعام انتخابات کا ایک سال مکمل ہونے پر آٹھ فروری کو ’یوم سیاہ‘ کے طور پر منایا ہے اور اس سلسلے میں خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی میں جلسہ عام کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔
اس جلسے میں ایک بار پھر کارکنان اور کچھ رہنماؤں کی طرف سے ڈی چوک کا رُخ کرنے جیسے مطالبات بھی کیے گئے اور اس متعلق نعرے بازی بھی ہوئی۔
اس رپورٹ میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ عام انتخابات کے بعد ایک برس کے عرصے میں پی ٹی آئی نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اس سلسلے میں ہم نے سیاسی تجزیہ کاروں اور صحافیوں سے بات کی ہے مگر پہلے یہ جانتے ہیں کہ اس وقت خود پی ٹی آئی کی قیادت کیا سوچ رکھتی ہے؟
’مینڈیٹ چور حکومت کا ساتھ چھوڑ دیں‘Getty Images
عمران خان کی بہن علیمہ خان نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’گذشتہ ایک سال کے دوران یہ باتیں تو بہت ہوئی ہیں کہ تحریک انصاف میں اختلافات میں شدت آئی ہے مگر یہ باتیں کرنے والوں کو یہ نہیں معلوم کہ پارٹی میں اختلافات وغیرہ کچھ نہیں ہیں، بس اب عوام اپنے نمائندوں کا احتساب کرتے ہیں اور اپنے ووٹ کا حساب مانگتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ جہاں تک سوال یہ ہے کہ ایک برس میں پی ٹی آئی نے کیا حاصل کیا تو اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ پاکستان ایک ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے اور اب لوگوں کو آواز مل گئی ہے جو عمران خان کا خواب تھا۔ علیمہ خان کے مطابق ’عمران خان کا خواب یہی تھا کہ لوگ ظلم کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور اب لوگ ظلم نہیں سہتے، اپنے حق اور جمہوریت کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔‘
اتوار کے روز صوابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’اگر ہم نے بدلہ لینے کا سوچ لیا تو پھر ہمارے مخالفین برداشت نہیں کر سکیں گے۔ لیکن نفرتیں بڑھنے کا نقصان پاکستان کو ہو گا۔ ہم ملک میں آئین و قانون کی بالادستی چاہتے ہیں۔ حکمرانوں سے مطالبہ ہے کہ اگر آپ نے نفرتیں بڑھائیں تو اس سے پاکستان کا نقصان ہے۔ فوج اور عوام میں فاصلہ مینڈیٹ چور حکومت بڑھا رہی ہے۔‘
انھوں نے اپنے خطاب کے دوران مزید کہا کہ ’ہمارے ٹیکس سے لیا گیا ہتھیار اگر ہمارے ہی خلاف استعمال ہو گا تو پھر ہتھیار ہمارے پاس بھی ہیں۔‘
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا مزید کہنا تھا کہ ’میں سپہ سالار کو بھی پیغام دیتا ہوں میرے صوبے میں دہشت گردی ہے اور کوئی بھی فوج عوام کی حمایت کے بغیر یہ دہشت گردی کی جنگ جیت نہیں سکتی۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اس مینڈیٹ چور حکومت کا ساتھ چھوڑ دیں اور اس ملک اور عوام کے لیے کام کریں۔‘
Getty Images
اسی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کہہ چکے ہیں کہ وہ ملک کی خاطر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، ملک مشکل دوراہے پر کھڑا ہے، اس کے لیے راستہ نکالنا ہو گا۔‘
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’جتنے کیسز بنانے تھے، وہ بنا چکے۔ کیسز بنانے والوں نے ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا لیکن عوام کے دلوں سے وہ عمران خان کی محبت نہیں نکال سکے۔ پاکستان کی سیاست عمران خان کے بغیر نہیں چل سکتی۔‘
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ’عمران خان نے کہا ہے کہ ہم فوج کی قربانیوں کا برملا اعتراف کرتے ہیں، لیکن فوج اور عوام کے درمیان خلیج نہیں بڑھنی چاہیے۔۔۔ آج ملک بھر میں عوام احتجاج کر رہے ہیں، یہ محب وطن ہیں، ان کی آواز کو سننا ہو گا۔‘
نو مئی کے مقدمات میں رہائی پانے والوں کا وزیر اعلی ہاؤس میں ’ہیروز ویلکم‘: ’بعض جنگجو نہیں چاہتے کہ صلح صفائی کا ماحول پیدا ہو‘عمران خان اور مذاکراتی ٹرک کی بتی
صوابی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر جنید اکبر نے کہا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ اداروں سے ہمارا ٹکراؤ ہو، کیونکہ یہ ادارے ہمارے ادارے ہیں۔ اس بار عمران خان جب بھی کال دیں گے پہلے سے زیادہ تعداد میں حاضر ہوں گے اور اس بار ہم گولیوں کی تیاری کے ساتھ آئیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اداروں اور عوام میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ ہم ان اداروں کو اپنا مانتے ہیں۔ آپ کے اور عوام کے درمیان فاصلے ہیں جو ملک کے لیے بھی خطرناک ہے اور آپ کے لیے بھی۔‘
’پہلے بھی متنازع انتخابات ہوئے مگر اس بار اداروں سے سنبھالا نہیں گیا‘Getty Images
پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے لمز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پاکستان میں متنازع انتخابات کی ایک تاریخ رہی ہے مگر آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد مبینہ دھاندلی سے متعلق الزامات اور اس پر تحریک انصاف کی جانب سے آنے والے ردعمل سے بننے والی صورتحال کو ادارے اچھی طرح سنبھال نہیں پائے۔
انھوں نے کہا کہ ماضی میں متعدد کیسز میں نواز شریف اور آصف زرداری بھی جیل گئے مگر وہ اس انداز میں عوام کو متحرک نہ کر سکے جیسے عمران خان نے کیا ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سٹریٹ موبلائزیشن کے باوجود بظاہر پی ٹی آئی گذشتہ ایک سال کے دوران وہ نتائج حاصل نہیں کر سکی جو وہ چاہتی ہے۔
ان کے مطابق ’اس احتجاج اور کوششوں کے نتیجے میں نہ تو عمران خان کو رہائی مل سکی اور نہ ابھی تک 'سٹیسٹس کو' میں کوئی تبدیلی رونما ہو سکی ہے۔‘
نتائج حاصل کرنے اور عمران خان کی رہائی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے علیمہ خان کا دعویٰ تھا کہ ’عمران خان کو رہائی کی پیشکش کی گئی تھی مگر انھوں نے یہ آفر مسترد کر دی کیونکہ انھیں جیل سے نکالنے کا عمل اس انداز میں کیا جا رہا تھا کہ جس سے عوام کو ڈیل طے جانے کا تاثر ملے اور اسی وجہ سے عمران خان نے اپنی ایسی رہائی کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔‘
Getty Images
سینیئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق عام انتخابات کے ایک سال بعد بھی تحریک انصاف لگ بھگ اُسی جگہ کھڑی ہے جہاں یہ آٹھ فروری 2024 کو کھڑی تھی۔ تاہم وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی بدستور ’پاپولر جماعت‘ ضرور ہے۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’اس کے باوجود اُن کی ووٹر پر گرفت مضبوط نہیں ہے اور اب عمران خان یا پی ٹی آئی کے کہنے پر ووٹر باہر نہیں نکلتے البتہ وہ عمران خان کو سیاسی مظلوم ضرورسمجھتے ہیں۔‘
سہیل وڑائچ کے نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے انگریزی اخبار بزنس ریکارڈر کی مدیر انجم ابراہیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’عمران خان تو اُسی طرح مضبوط ہیں جس طرح پہلے تھے اور گذشتہ ایک سال کے دوران پی ٹی آئی کا عوام سے رابطہ بہت مؤثر رہا ہے۔‘
ان کے مطابق کوششوں کے باوجود عمران خان اور ان کی جماعت کا سوشل میڈیا پر بدستور کافی کنٹرول ہے جسے 'ایکس' اور انٹرنیٹ پر پابندیاں عائد کر کے بھی ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔
انجم ابراہیم کی رائے میں ’عمران خان پر جو مقدمات قائم کیے گئے ہیں وہ ماضی میں حکمرانوں پر سنگین بدعنوانی کے مقدمات سے بہت مختلف ہیں اور ان میں بدعنوانی سے زیادہ اخلاقی پہلو پر بات ہو سکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ لوگ عمران خان کے خلاف مقدمات کو بدعنوانی نہیں سمجھتے کیونکہ ان میں کوئی اربوں روپوں کی ڈیل جیسے مقدمات شامل نہیں ہیں۔‘
ان کے مطابق ’عمران خان جیل میں ہیں، نہ شکل دکھا سکتے ہیں، نہ نام لے سکتے ہیں، مگر پھر بھی ہر خبرنامے میں وہ پہلے نمبر پر ہوتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بھی پی ٹی آئی کی ثابت قدمی ہے کہ جیل میں عمران خان نے ڈیڑھ سال سے زیادہ کا وقت گزار لیا ہے اور وہ بظاہر ڈیل پر بھی تیار نظر نہیں آ رہے ہیں۔‘
انتخابی امور پر نظر رکھنے والے غیرسرکاری ادارے ’پتن‘ کے سربراہ سرور باری نے اس متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بار بنیادی فرق یہی ہے کہ ماضی میں انتخابی دھاندلی پر نواز شریف اور بینظیر احتجاج کرتے تھے مگر پھر کچھ وقت کے بعد وہ ’ڈیل کر کے خاموش ہو جاتے تھے‘ جبکہ اس بار کافی عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔
ان کے مطابق ’سنہ 1971 کے بعد یہ پہلی بار ہوا ہے کہ جس پارٹی کو انتخابات میں یوں باہر کر دیا گیا ہو پھر اس نے مڑ کر اس طرح مزاحمت کی ہو۔ ان کے مطابق نو مئی تک کا بیانیہ بھی عوام میں پذیرائی حاصل نہ کر سکا۔‘
ان کی رائے میں ’پی ٹی آئی یا عمران خان کی ایک بڑی کامیابی تو یہی ہے کہ عسکری اشرافیہ کو ملک کے اندر بڑا چیلنج ملا ہے۔‘
’شہباز شریف نے بہت دیر کر دی‘: مذاکرات ختم کرنے کے بعد تحریک انصاف کی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟’عمران خان سے متعلق ٹرمپ کے تاثرات نہیں جانتا‘:پاکستان میں اپنے بیانات سے ہلچل مچانے والے امریکی جینٹری بیچ کون ہیں؟گورننس کا دباؤ یا ’اسٹیبلشمنٹ‘: عمران خان نے علی امین گنڈاپور سے صوبائی صدارت کیوں واپس لی؟190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے سے قبل سزاؤں کی ’بریکنگ نیوز‘: ’یہ بھی المیہ ہے کہ عدالتی فیصلوں کا علم صحافیوں کو پہلے ہو جاتا ہے‘فنڈنگ کے مسائل اور خدشات میں گھرے طلبا: بی بی سی نے القادر یونیورسٹی میں کیا دیکھا؟آرمی چیف اور تحریک انصاف چیئرمین کی ملاقات: ’اس کا نتیجہ آنے والے کچھ ہفتوں میں نظر آئے گا‘