خفیہ ایجنٹس کی مخبری کے بعد ڈرون حملہ: جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کا امریکی منصوبہ کیسے مکمل ہوا؟

بی بی سی اردو  |  Feb 10, 2025

Getty Images

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ دنوں ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ ڈالنے کے ایک حکم نامے پر دستخط کیے ہیں جس کا مقصد نہ صرف ملک کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا ہے بلکہ پابندیوں اور تیل کی برآمدات پر پہلے سے عائد پابندیاں مزید سخت کر کے ایران پر اقتصادی دباؤ ڈالنا ہے۔

ایسے میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا حکم دینے والے ٹرمپ کے دوسرے صدارتی دور میں کیا ایرانی حکام کے خلاف کارروائیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے؟

یاد رہے کہ ٹرمپ نے ایران پر پابندیوں میں مزید سختی کے حالیہ حکمنامے پر دستخط کرتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کے لیے تیار ہیں تاکہ ایران کو اس بات پر راضی کیا جا سکے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی اپنی کوششوں کو ترک کر دے۔

لیکن صدر کے طور پر اپنی پہلی مدت کے دوران ٹرمپ نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کی بہت سے سابق سینیئر امریکی عہدیداروں نے مخالفت کی تھی۔ یہ فیصلہ ایران کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا تھا۔

ٹرمپ کے سابقہ دور کے تین اہم عہدیداروں کی کتابوں اور بیانات کی روشنی میں ہم نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کی منصوبہ بندی کیسے کی گئی تھی؟

Getty Images

کتاب ’میلٹنگ پوائنٹ‘ کے مصنف اور امریکی سینٹرل کمانڈ کے اُس وقت کے کمانڈر جنرل فرینک میکنزی کے مطابق انھوں نے قاسم سلیمانی کو لے جانے والی گاڑی کو نشانہ بنانے کا حتمی حکم جاری کیا تھا۔ وہ اپنی کتاب میں واضح کرتے ہیں کہ قاسم سلیمانی پر حملہ کرنے کا فیصلہ ’محتاط منصوبہ بندی‘ کا نتیجہ نہیں تھا۔

ایرانی حکومت کے سخت مخالف اور ٹرمپ کے قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن نے اپنی کتاب ’دی انسیڈنٹ روم‘ میں بھی اس واقعے کا ذکر کیا ہے جبکہ اس وقت کے سیکریٹری دفاع مارک ایسپر نے اپنی کتاب ’دی سیکرڈ اوتھ‘ میں ٹرمپ کی قومی سلامتی ٹیم کو اس ضمن میں درپیش چیلنجوں پر بات کی ہے۔

قاسم سلیمانی: غریب گھرانے سے قدس فورس کی کمان تک’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟قاسم سلیمانی کا جنازہ پڑھانے والے پاکستانی کون ہیں؟متنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہبغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملہ

یہ لگ بھگ صبح پانچ بجے کا وقت تھا جب اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے وزیر دفاع مارک ایسپر کو فون کیا۔

یہ 2019 کا آخری دن تھا۔ نئے سال کے موقع پر اس خبر نے چھٹیوں کو درہم برہم کر دیا کہ عراقی مظاہرین نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر حملہ کیا ہے۔

یہ مظاہرین باآسانی بغداد کے گرین زون میں داخل ہوئے اور عراقی سکیورٹی چوکیوں سے گزرتے ہوئے جب وہ سفارتخانے پہنچے تو انھوں نے دروازے اور کھڑکیاں توڑ دیں اور کچھ سفارتخانے کے استقبالیہ کے حصے میں بھی داخل ہوگئے۔

ان مظاہرین کے ہاتھوں میں موجود جھنڈوں سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اس سب ہنگامے کے پیچھے قدس فورس کا ہاتھ ہے۔ قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھی ابو مہدی بھی ان مظاہرین میں شامل تھے اور بعد میں سفارتخانے کی دیوار پر ایک بڑی تحریر دیکھی گئی: ’سلیمانی میرا لیڈر ہے۔‘

یہ تحریر امریکی حکام کی نظروں سے اوجھل نہیں رہی۔

یہ واضح نہیں تھا کہ آیا مظاہرین سفارتخانے پر قبضہ کرنا چاہتے تھے لیکن اس مظاہرے میں شیعہ ملیشیا گروپوں کے رہنماؤں کی موجودگی اچھی علامت نہیں تھی۔ امریکی سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس فائر کی تھی لیکن یہ واضح تھا کہ حالات خراب ہو سکتے ہیں۔

بغداد میں امریکی سفارتخانے کی دیوار پر قاسم سلیمانی کے نام نے اس حملے کو تہران میں اسلامی انقلاب کے موقع پر امریکی سفارتخانے پر قبضے کی تلخ تاریخ سے جوڑ دیا۔ مارک ایسپر جانتے تھے کہ ایرانی حکومت کا مقصد عراق سے امریکی فوجیوں کا مکمل انخلا ہے۔

واشنگٹن میں بہت کم لوگ ہی اس بات کو بھولے ہوں گے کہ بیروت میں امریکی فوجیوں کی رہائش گاہ پر بمباری کے بعد اس وقت کے صدر رونالڈ ریگن نے لبنان سے فوجی دستوں کو کس طرح واپس بلا لیا تھا۔ ان تاریخی مماثلتوں نے خدشات کو بڑھا دیا تھا۔

دونوں اہم امریکی وزرا نے فوری طور پر سفارتخانے کی سکیورٹی بڑھانے پر اتفاق کیا۔ کویت سے 100 امریکی فوجیوں کو فوری طور پر عراق میں تعینات کیا گیا۔ ان کی تعیناتی کے عمل اور پھر بغداد میں امریکی فوجی طیاروں کی لینڈنگ کے مناظر امریکی وزارت دفاع کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر براہ راست نشر ہوئے اور امریکی وزیر دفاع کا خیال تھا کہ اس طرح ایران اور عراق کی حکومتوں کو ضروری انتباہ بھیج دیا جائے گا۔

مارک ایسپر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی رابطے میں تھے۔ ٹرمپ کو تشویش تھی کہ کہیں لیبیا کا واقعہ نہ دہرایا جائے جب بن غازی کے امریکی قونصل خانے پر مسلح افراد نے حملہ کر کے لیبیا میں امریکی سفیر کو بھی قتل کر دیا تھا۔

اس حملے کے وقت ٹرمپ نے براک اوباما اور ہیلری کلنٹن پر بہت تنقید کی تھی اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے صدر ہوتے ہوئے اس نوعیت کا کوئی واقعہ رونما ہو۔ ہر فون کال میں مارک ایسپر نے صدر کو پُرسکون رکھںے اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ بغداد بن غازی نہیں بنے گا۔ امریکی سفارتخانے میں سینکڑوں فوجی تیار تھے اور پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھی، کم از کم کسی بھی فوری پریشانی کی۔

بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کے حملے سے تین روز قبل ہی عراق میں کرکوک کے امریکی فوجی اڈے پر 30 راکٹ داغے گئے تھے جس کے نتیجے میں ایک امریکی کنٹریکٹر ہلاک ہو گیا تھا۔ اپنی دفاعی اور سکیورٹی ٹیم کے ساتھ تفصیلی بات چیت کے بعد ٹرمپ نے مارک ایسپر کی تجویز پر فیصلہ کیا کہ اس حملے میں ملوث افراد کا پیچھا کیا جائے گا اور امریکی شہری کی ہلاکت کا بدلہ لیا جائے۔

یہ حملہ 29 دسمبر کو ہوا تھا۔ اس دوپہر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل ملی، مارک ایسپر اور مائیک پومپیو بریفنگ دینے کے لیے ٹرمپ کی رہائش گاہ گئے۔

سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن ویڈیو کانفرنس کے ذریعے اس میں شامل تھے۔ وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف مک ملوانی پہلے ہی وہاں موجود تھے۔

حملے کے نتائج کو بہتر طور پر بیان کرنے کے لیے، جنرل ملی نے صدر کو کتائب حزب اللہ کو پہنچنے والے نقصان کی تصاویر بھی دکھائیں۔ کتائب حزب اللہ ایرانی حمایت یافتہ گروہ ہے جو عراق میں سرگرم ہے۔

Getty Images’مشیروں نے محتاط رہنے کا مشورہ دیا مگر ٹرمپ ردعمل دینا چاہتے تھے‘

مارک ایسپر نے اپنی کتاب میں وضاحت کی کہ یہ حملہ مکمل کامیابی کے ساتھ کیا گیا اور لڑاکا طیاروں نے اسلحہ ڈپو کے علاوہ دانستہ طور پر محفوظ فاصلے سے اُن عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا جہاں قدس فورس کے ارکان کے موجود ہونے کا امکان تھا تاکہ ایران کو تنبیہ ہو جائے مگر جانی نقصان بھی نہ ہو تاکہ ایران سے کشیدگی میں اضافہ نہ ہو۔ لیکن اس وضاحت نے توقعات کے برعکس ٹرمپ کو بہت غصہ دلایا۔

امریکی صدر نے غصے سے سر ہلاتے ہوئے جنرل ملی سے کہا ’یہ احمقانہ بات ہے۔ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ اب وہ سمجھتے ہوں گے کہ ہم درست ہدف کو نشانہ نہیں بنا سکتے۔‘

مسٹر ٹرمپ کے ردعمل سے واضح طور پر پریشان جنرل ملی نے مستقبل کی حکمت عملی میں اسے یاد رکھا اور جب آئندہ کے اقدامات پر تبادلہ خیال ہوا تو ملک سے باہر ایرانی اہداف کو نشانہ بنانے، خلیج فارس کے پانیوں میں ایرانی اہداف اور ایرانی حدود کے اندر بھی کارروائیوں کے آپشنز اٹھائے گئے۔

ایک خیال پاسداران انقلاب کے کمانڈروں جیسا کہ قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے کا بھی تھا جس میں ٹرمپ نے سب سے زیادہ دلچسپی دکھائی۔

اس میٹنگ میں صرف دو لوگ تھے جن کو جنگ کا عملی تجربہ تھا: مارک ملی اور مارک ایسپر جو کسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایرانی سرزمین پر حملہ یا قاسم سلیمانی پر حملہ ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہو سکتا تھا۔

وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف نے بھی اس سے اتفاق کیا۔ انھوں نے باری باری یہ وضاحت کی کہ بہتر ہو گا کہ امریکی ردعمل کی شدت کو آہستہ آہستہ بڑھایا جائے۔ لیکن ٹرمپ ایران کو سخت جواب دینا چاہتے تھے۔

رابرٹ اوبرائن بھی صدر ٹرمپ جیسی رائے رکھتے تھے۔ جب انھوں نے کہا کہ ہمیں مل کر تمام اہداف کو نشانہ بنانا چاہیے تو جوائنٹ چیفس آف سٹاف اور وزیر دفاع نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مارک ملی نے کہا کہ ’اگر ہم کوئی بڑا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں، تو ہمیں سب سے پہلے اس کے نتائج سے نمٹنے کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔‘

ممتاز امریکی صحافی باب ووڈورڈ، جو اگلے دن یعنی 30 دسمبر کو ڈونلڈ ٹرمپ کا انٹرویو کرنے والے تھے، اس وقت قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کے منصوبے سے لاعلم تھے۔

انھوں نے اپنی کتاب ’ریج‘ میں لکھا کہ ان کے پہنچنے سے چند گھنٹے قبل، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے گالف کورس پر سینیٹر لنڈسے گراہم سے کہا کہ ’میں سلیمانی کو مارنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔‘

ان کے مطابق کانگریس میں ٹرمپ کے حامی اور گولف کے ساتھی کھلاڑی لنڈسے گراہم نے صدر کو یاد دلایا کہ انھیں پہلے مستقبل میں ممکنہ ایرانی ردعمل سے نمٹنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ووڈورڈ کے مطابق لنڈسے نے ٹرمپ سے کہا کہ اگر سلیمانی کو مارا جاتا ہے اور وہ جوابی کارروائی کرتے ہیں، تو آپ کو ان کے تیل کے اڈوں کو نشانہ بنانا ہو گا، جو اُن کی کمزوری ہیں لیکن اس کے نتیجے میں ایک مکمل جنگ کا خدشہ تھا۔

سینیٹر گراہم نے ٹرمپ کو یہ بھی یاد دلایا کہ امریکی مفادات پر حملہ کرنے کے قاسم سلیمانی کے منصوبے کے بارے میں انٹیلیجنس سروسز کی معلومات کوئی نئی بات نہیں ہے کیوںکہ ’اس قاسم سلیمانی نے ہمیشہ یہی کیا ہے۔ آپ کو اپنے ردعمل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘

تین دن بعد قاسم سلیمانی ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے۔

Getty Imagesقدس فورس: امریکی فوجیوں کے لیے ڈراؤنا خواب

آئی آر جی سی یعنی پاسداران انقلاب کی قدس فورس اور قاسم سلیمانی برسوں سے واشنگٹن کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔

سنہ 2007 میں بش انتظامیہ نے قدس فورس کو نشانہ بنانے اور عراق میں عسکریت پسندوں کو امداد فراہم کرنے سے روکنے کے لیے ایک خصوصی انٹیلیجنس یونٹ بنایا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عراق میں مبینہ طور پر آئی آر جی سی کے انجینیئروں کے ڈیزائن کردہ سڑک کنارے نصب بموں سے امریکی افواج کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

پینٹاگون کے اندازوں کے مطابق سنہ 2003 سے سنہ 2011 تک عراق میں تمام امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں میں سے 17 فیصد بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر قاسم سلیمانی کی قیادت میں قدس فورس کی وجہ سے ہوئیں۔

لیکن جب صدر بش، جنھوں نے عراق میں جنگ کا آغاز کیا تھا، کے سامنے ایرانی سرزمین پر قدس فورس کے دو تربیتی اڈوں پر حملہ کرنے کی بات ہوئی تو انھوں نے اپنے قومی سلامتی کے مشیروں سے کہا کہ اس کا حتمی نتیجہ کانگریس میں مواخذے کی صورت میں نکلے گا۔

تاہم واشنگٹن میں قدس فورس کے کمانڈر یعنی جنرل قاسم سلیمانی کے دشمنوں کی کمی نہیں تھی۔ کمانڈر جنرل میکنزی نے انھیں ایک اچھا کمانڈر کہا ’کیونکہ وہ جنگ کی اگلی صفوں پر ہوتے تھے۔‘ انھوں نے قاسم سلیمانی کا موازنہ نازی جرمنی کے ایس ایس جنرل رین ہارڈ ہائیڈرچ سے بھی کیا۔

سنہ 2010 میں جب جنرل میکنزی محکمہ دفاع کے حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ڈائریکٹر بنے تو وہ ایران سے متعلق ہر اجلاس میں قاسم سلیمانی کے بارے میں پوچھتے رہے، یہاں تک کہ پینٹاگون میں ایران کے ماہر تجزیہ کاروں نے اس بارے میں مذاق شروع کر دیا تھا۔

آئرن ڈوم اور دیگر اسرائیلی دفاعی نظام کیا ہیں اور وہ کیسے کام کرتے ہیں؟اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا سراغ کیسے لگایا اور انھیں کیسے نشانہ بنایا گیا؟اسرائیل اور ایران میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟متنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہ

جنرل فرینک میکنزی نے اپنی کتاب ’دی میلٹنگ پوائنٹ‘ میں اس بات پر زور دیا کہ ان کے سوالات عام طور پر قاسم سلیمانی کے بجائے ایرانی حکومت کی پالیسیوں پر اُن کو ممکنہ طور پر ہٹانے کے اثرات پر مرکوز ہوتے تھے اور انھیں کبھی تسلی بخش جواب نہیں ملا کیونکہ ’کسی کو یقین نہیں تھا کہ سلیمانی کو اصل میں نشانہ بنایا جائے گا۔‘

جب فور سٹار جنرل میکنزی کو مارچ 2019 میں امریکی سینٹرل کمانڈ کی سربراہی کے لیے مقرر کیا گیا تو مسلح افواج کی سپیشل آپریشنز ٹاسک فورس کے کمانڈر نے ہدایت کی تھی کہ ’اگر ضرورت پڑی تو سلیمانی کے خلاف کارروائی کا منصوبہ تیار کریں۔‘

جنرل میکنزی کے مطابق امریکہ کے اتحادی بھی اس مسئلے میں دلچسپی رکھتے تھے اور اس مقصد کے لیے وہ وائٹ ہاؤس سے رابطہ کر چکے تھے۔ اسی وقت سی آئی اے بھی کوئی ایسا ہی حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی بڑھنے کے ساتھ ہی اس حل کو حتمی شکل دینے کی کوششیں بڑھ گئیں۔

مئی سے دسمبر 2019 تک عراق میں امریکی اڈوں پر 19 راکٹ حملے ہوئے۔ جون 2019 میں جب خلیج فارس پر 200 ملین ڈالر کے امریکی گلوبل ہاک ڈرون کو نشانہ بنایا گیا، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی قومی سلامتی ٹیم کے ساتھ کئی ملاقاتوں کے بعد، ایران کے تین مقامات پر حملوں کا حکم دیا لیکن اس شرط پر کہ خلیجی ریاستیں ان حملوں پر اٹھنے والے اخراجات کا کچھ حصہ ادا کریں۔

لیکن پھر سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور قومی سلامتی مشیر جان بولٹن اور اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے اصرار کے باوجود انھوں نے حملے سے صرف دس منٹ قبل ہی اپنا حکم واپس لے لیا۔

Getty Images

28 دسمبر کو عراق میں امریکی سفارتخانے پر حملے سے دو دن پہلے سینٹرل آپریشنز کے کمانڈر ایڈمرل سیموئیل ایک بڑا نقشہ لے کر میک ڈِل ایئر فورس بیس میں جنرل میکنزی کے گھر گئے۔

اس منصوبے میں کچھ ایسے آپشنز شامل تھے جو امریکی سینٹرل کمانڈ نے ایران کے ساتھ ممکنہ تصادم کے لیے پیشگی تیار کر رکھے تھے۔ یمن میں آئی آر جی سی کے ایک سینیئر کمانڈر، جن کے بارے میں پینٹاگون کا خیال تھا کہ وہ حوثی باغیوں کی میزائل صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے تھے، ایک کتائب حزب اللہ کمانڈر، اور قاسم سلیمانی اہداف کی فہرست میں تھے۔ ایرانی جہاز ’ساویز‘ ایک اور آپشن تھا۔

امریکی بحریہ ساویز جہاز کو انٹیلیجنس معلومات جمع کرنے والا جہاز سمجھتی تھی جو یمن سے جبوتی تک امریکی بحری جہازوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتا تھا۔

یہی آپشنز ٹرمپ کو بھی پیش کیے گئے تھے۔ جنرل میکنزی کا کہنا ہے کہ انھوں نے پہلے مارک ملی سے سُنا کہ صدر ٹرمپ ایران کو منھ توڑ جواب دینے اور قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں اور انھوں نے انٹیلیجنس فورسز کی مدد سے صدر کو قاسم سلیمانی پر ممکنہ حملے کے نتائج کی وضاحت دینےکے لیے ایک الگ رپورٹ تیار کی۔

قاسم سلیمانی پر حملے کے ممکنہ نتائج کے بارے میں خدشات کے باوجود فہرست کسی منفی سفارش کے بغیر ڈونلڈ ٹرمپ کی میز پر پہنچ گئی۔

29 دسمبر کو 6:30 بجے مائیک ملی نے جنرل میکنزی کو ایک فون کال پر بتایا کہ صدر ٹرمپ نے یمن میں قدس فورس کے کمانڈرز پر حملے، 14,000 ٹن وزنی جہاز ساویز پر حملے اور عراق میں قاسم سلیمانی پر حملے کی منظوری دے دی ہے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ موسم خزاں کے آخر میں شام اور عراق میں سلیمانی پر حملہ کرنے کے ممکنہ آپشنز پر کام کر رہا تھا۔ جنرل میکنزی اور مارک ملی کا خیال تھا کہ شام میں قدس فورس کے کمانڈر کو نشانہ بنانا بہتر تھا، اور عراق میں یہ کارروائی کرنے سے شیعہ ملیشیا کی وجہ سے سنگین فوجی اور سیاسی نتائج ہوں گے۔

اب ٹرمپ کے حکم پر وہ اپنی ہی رائے کی خلاف ورزی کرنے والے تھے۔ اس رات دیر تک امریکی سینٹرل کمانڈ نے کم و بیش واضح کر دیا تھا کہ وہ اپنی کارروائیاں کیسے کرے گی۔ یہ حملہ رات کو کیا گیا، پہلے قاسم سلیمانی اور پھر یمن میں قدس فورس کے کمانڈر کے خلاف، لیکن ساویز بحری جہاز پر حملہ ملتوی کر دیا گیا۔

Getty Images'کیا آپ اسے مار گرا سکتے ہوں‘

پینٹاگون نے پتہ لگایا تھا کہ قاسم سلیمانی 31 دسمبر کو تہران سے بغداد کا سفر کریں گے۔

اس دن امریکی سینٹرل کمانڈ میں جنرل میکنزی دو بڑی سکرینوں کے سامنے ایک بڑی میز پر بیٹھے تھے۔ ایک سکرین پر مختلف ڈیٹا کے ساتھ ڈرون کی مدد سے حاصل ہونے والی سیاہ اور سفید تصاویر تھیں اور دوسری سکرین پر سینکڑوں فوجیوں اور سویلین طیاروں کی نقل و حرکت دیکھی جا سکتی تھی۔

قاسم سلیمانی آخر کار تہران میں اپنے گھر سے نکلے۔ صبح 9:45 پر اپنے طیارے میں سوار ہوئے اور دو گھنٹے کی پرواز کے بعد بغداد پہنچ گئے۔

لیکن طیارے نے بغداد میں اُترنے کے بجائے 30,000 فٹ کی بلندی پر مغرب کی جانب پرواز جاری رکھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ حملہ کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے لگا تھا۔ جنرل میکنزی، سیکریٹری آف ڈیفنس اور چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے ساتھ ایک کانفرنس کال پر تھے جب پینٹاگون سے کسی نے پوچھا ’کیا آپ اس کو مار گرا نہیں سکتے؟‘

اس درخواست کی تعمیل کرنے کا فیصلہ کیے بغیر جنرل میکنزی نے قطر میں امریکی فضائی اڈے پر موجود ایک فضائیہ کے کمانڈر کو فون کیا کہ ’اگر میں حکم دوں تو کیا آپ اس طیارے کو مار گرا سکتے ہیں؟‘

اس سوال کے جواب میں قطر کے امریکی اڈے سے دو جنگی لڑاکا طیاروں نے پرواز بھری لیکن تھوڑی ہی دیر بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ طیارہ جس میں قدس فورس کے کمانڈر سوار تھے شام جانے والا طیارہ تھا جس میں دیگر مسافر بھی موجود تھے۔ قاسم سلیمانی کو شام میں نشانہ نہیں بنایا جانا تھا اور امریکہ ایرانی مسافر طیارے کو مار گرانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔

امریکی جیٹ طیارے اپنے اڈے پر واپس آ گئے اور جب قاسم سلیمانی کے طیارے نے دمشق میں اترنے کے لیے اپنی اونچائی کم کی تو یہ واضح ہو گیا کہ حملہ فی الحال ملتوی کر دیا گیا ہے۔

جنرل میکنزی نے یمن میں حملے کو روکنے کا حکم بھی دیا۔ قاسم سلیمانی کے دمشق سے بغداد کے سفر کا انتظار تقریباً تین دن تک جاری رہا اور آخر کار، ’دمشق کے ہوائی اڈے پر موجود ایجنٹوں‘ نے اطلاع دی کہ ایک طیارہ بغداد جانے کے لیے تیار ہے اور قاسم سلیمانی کے جلد ہی اس میں سوار ہونے کی توقع ہے۔

قدس فورس کے کمانڈر بالآخر تین گھنٹے کی تاخیر کے بعد طیارے میں سوار ہوئے تو امریکی سینٹرل کمانڈ کے ہیڈکوارٹر میں ہنگامی اجلاس ہوا۔

2 جنوری کو بغداد میں رات 12 بج کر 47 منٹ پر جنرل مکینزی کے حکم پر العدید ایئر بیس سے اڑان بھرنے والے ریپئر ڈرون نے ہیل فائر میزائل داغے اور قدس فورس کے کمانڈر کو لے جانے والی گاڑی کو اُڑا دیا۔

اس وقت کے سینٹ کام کمانڈر کا خیال ہے کہ قاسم سلیمانی پر حملہ کرنے کا فیصلہ محتاط منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور یہ فیصلہ ایک ایسے صدر نے کیا جس نے مشیروں سے سُنا تھا کہ ایران کوئی جواب نہیں دے گا۔

اس رائے سے جنرل میکنزی کے مطابق سینٹ کام یا امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں میں سے کوئی بھی متفق نہیں تھا۔

لیکن اس آپریشن کے اختتام پر جنرل مکینزی نے اپنے فوجیوں سے جو کہا وہ یہ تھا: ’قاسم سلیمانی آج مر چکے ہیں اور کل بھی ہم یہیں ہوں گے۔‘

’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟متنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہاسرائیل اور ایران میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا سراغ کیسے لگایا اور انھیں کیسے نشانہ بنایا گیا؟آئرن ڈوم اور دیگر اسرائیلی دفاعی نظام کیا ہیں اور وہ کیسے کام کرتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More