سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے منگل (11 فروری) کی دوپہر پاکستان کے دورے پر آئے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے چھ رکنی خصوصی وفد نے ملاقات کی ہے۔
سپریم کورٹ سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق آئی ایم ایف کے وفد نے جوئل ٹرکیوٹز کی قیادت میں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی ہے اور اس ملاقات کے دوران عدالتی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے جاری کوششوں کا جائزہ پیش کیا گیا۔
منگل کو تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے چیف جسٹس نے بتایا کہ ’میں نے آئی ایم ایف کے وفد کو نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے ایجنڈے کا بتایا۔ میں نے وفد کو بتایا کہ ماتحت عدلیہ کی نگرانی ہائیکورٹس کرتی ہیں۔ وفد نے کہا معاہدوں کی پاسداری، اور پراپرٹی حقوق کے بارے ہم جاننا چاہتے ہیں، میں نے جواب دیا اس پر اصلاحات کر رہے ہیں۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے وفد نے کہا ’ہم پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا تحفظ چاہتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے صحافیوں کو غیررسمی گفتگو میں بتایا کہ ’میں نے آئی ایم ایف وفد کو جواب دیا ہے کہ ہم نے آئین کے تحت عدلیہ کی آزادی کا حلف اٹھا رکھا ہے، یہ ہمارا کام نہیں ہے آپ کو ساری تفصیلات بتائیں۔‘
آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس سے ملاقات کیا اندرونی معاملات میں مداخلت ہے؟
ماہرین کی رائے اس حوالے سے منقسم ہے تاہم حکومت کے خیال میں یہ مداخلت نہیں ہے اور وفد پاکستان سے ہونے والے تازہ قرض معاہدے کے تحت ہی اپنے جائزہ مشن پر ہے اور اداروں اور ان کے سربراہان سے ملاقاتیں کر رہا ہے۔
وزیر قانون کے مؤقف اور ماہرین کی رائے سے قبل یہ جان لیتے ہیں کہ خود سپریم کورٹ کے اعلامیے میں اس ملاقات سے متعلق کیا کہا گیا ہے کہ یہ ملاقات کن حالات اور کس کی درخواست پر کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس نے آئی ایم ایف وفد کے اراکین کو واضح کیا کہ ’عدلیہ ایسے مشنز (وفود) کے ساتھ براہ راست بات چیت نہیں کرتی، لیکن چونکہ فنانس ڈویژن نے اس حوالے سے درخواست کی تھی چنانچہ یہ ملاقات ہو رہی ہے۔‘
اعلامیے کے مطابق اس ملاقات میں چیف جسٹس نے وفد کو یقین دہانی کروائی کہ ’پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے اور ادارے (سپریم کورٹ) کا سربراہ ہونے کے ناطے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ اُن کی ذمہ داری ہے۔‘
اس اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس نے وفد کو بتایا کہ وہ اپنے تبصروں اور خیالات کے حوالے سے پوری طرح محتاط رہیں گے۔ ’اس کے بعد انھوں نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے حوالے سے اہم آئینی پیش رفت اور اصلاحات پر روشنی ڈالی، جن میں سینیئر سطح پر عدالت میں (ججوں کی) تعیناتیوں، عدالتی احتساب، اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تنظیم نو شامل ہے۔‘
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے یہ بھی بتایا کہ سپریم کورٹ فروری کے آخری ہفتے میں متوقع آئندہ نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی (این جے پی ایم سی) کے اجلاس کے لیے ایک اہم ایجنڈے کو حتمی شکل دے رہی ہے۔
اعلامیے کے مطابق وفد کو بتایا گیا کہ ’یہ ایجنڈا مختلف سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ مجوزہ ایجنڈے میں کسی بھی تجویز کو شامل کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔ انھوں نے مشن کو اس ضمن میں تجویز شیئر کرنے کی دعوت دی۔‘
ملاقات کے دوران عدالتی احتساب اور ججوں کے خلاف شکایات کے ازالے کے طریقہ کار پر بھی بات چیت ہوئی۔
اعلامیے کے مطابق آئی ایم ایف کے وفد نے قانونی اور ادارہ جاتی استحکام کو برقرار رکھنے میں عدلیہ کے کردار کو تسلیم کیا اور گورننس اور احتساب کو مضبوط بنانے کے لیے عدلیہ میں جاری اصلاحات کی تعریف کی۔
اعلامیے کے مطابق بات چیت میں عدالتی کارکردگی کو بڑھانے اور قانون کی حکمرانی کو اقتصادی اور سماجی ترقی کے سنگ بنیاد کے طور پر برقرار رکھنے کے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا گیا۔
کیا وفد کا دورہ آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کے ’دائرہ کار‘ میں آتا ہے؟Reuters
منگل کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ وفد کا یہ دورہ آئی ایم ایف کے 'ڈومین' یعنی دائرہ کار میں آتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'قانون کی حکمرانی، وفد کے ساتھ انتظام کا حصہ ہے۔'
چیف جسٹس سے ہونے والی ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ لا اینڈ جسٹس کمیشن سپریم کورٹ کا ایک ذیلی ادارہ ہے جو کہ جوڈیشل پالیسی اور عدالتی اصلاحات سے متعلق سفارشات تیار کرتا ہے۔
وزیر قانون کے مطابق جہاں تک بات عدالتی خود مختاری کی ہے اور یا ججز کی تعیناتی کی تو یہ خالص ایک آئینی نوعیت کا معاملہ ہے اور اس پر وفد مداخلت نہیں کرتا اور یہ وفد کے مشن کا حصہ بھی نہیں تھا۔
انھوں نے کہا کہ لا اینڈ جسٹس کمیشن پہلے سے ہی بہت سارے بین الاقوامی اداروں سے رابطے قائم کیے ہوئے ہے۔
تاہم اس کے برعکس پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس نوعیت کی دورہ اور ملاقات کسی بھی ملک کے اندورنی معاملات میں مداخلت کی بہترین مثال ہے۔ ان کے مطابق اس وفد کا یہ مینڈیٹ ہی نہیں ہے کہ وہ اس طرح ملک کے چیف جسٹس سے ملیں اور پھر ان سے تفصیلی نوعیت کے سوالات کرے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلے بھی قرض معاہدے کیے ہیں مگر ماضی میں کبھی سپریم کورٹ کی سطح پر آئی ایم ایف نے کوئی جائزہ نہیں لیا۔
معاشی امور کے نامہ نگار اور تجزیہ کار خرم حسین کے مطابق آئی ایم ایف وفد کی ملاقات کسی بھی طرح پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہے۔ اُن کی رائے میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے جو سات ارب ڈالر پروگرام کا معاہدہ کر رکھا ہے اس کے تحت پاکستان نے اس طرح کے جائزے کے لیے رضامندی ظاہر کر رکھی ہے۔
تاہم سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ کے مطابق سپریم کورٹ کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور یہ ملاقات اگر ضلعی عدالتوں یا ہائی کورٹس کی سطح پر بھی ہوتی، تو بات قابل ہضم تھی، مگر اس سے اوپر جانے کی کوئی تُک نہیں بنتی تھی۔
حفیظ شیخ کے مطابق اس وفد کا مینڈیٹ محض اتنا ہے کہ اس نے بدعنوانی سے متعلق ایک مخصوص رپورٹ مرتب کرنی ہے جبکہ سات ارب ڈالر کے پروگرام کا جائزہ لینے کے لیے آئی ایم ایف کا وفد اگلے دو سے تین ہفتوں میں پاکستان کا دورہ کرے گا جس کی بنیاد پر پھر یہ فیصلہ ہونا ہے کہ اسلام آباد کو قرض کی اگلی قسط جاری کی جانی چاہیے یا نہیں۔
تاہم خرم حسین نے وہ تفصیلات بیان کی ہیں جن میں آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کے تحت پاکستان عدالتی اصلاحات کرنے کا پابند ہے اور پھر آئی ایم ایف کے جائزے سے مشروط اس پروگرام کو آگے بڑھانے کا پابند ہے۔
آئی ایم ایف کا یہ وفد ایک ہفتے کے لیے پاکستان کے دورے پر رہے گا اور چھ شعبوں کی کڑی نگرانی کرے گا کہ کیسے یہ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
حکام کے مطابق یہ وفد مالیاتی گورننس، سینٹرل بینک گورننس اینڈ آپریشنز، مالیاتی شعبے پر نظر رکھے گا، مارکیٹ ریگولیشن کا جائزہ لے گا اور پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور اینٹی منی لانڈرنگ جیسے اقدامات کا جائزہ لے گا۔
اس وفد عدلیہ، سٹیٹ بینک، الیکشن کمیشن، فنانس اور ریونیو اور ایس ای سی پی سمیت دیگر شعبوں کے حکام سے ملاقاتیں کرنی ہیں۔
پاکستان نے آئی ایم ایف سے ہوئے قرض معاہدے میں کن شرائط کو تسلیم کر رکھا ہے؟Reuters
گذشتہ برس پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سات ارب ڈالر قرض کے حصول کے لیے طے پانے والے معاہدے سے قبل پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے عائد کردہ شرائط کو پورا کرنے کی کوشش کی تھی جس کے تحت رواں مالی سال میں ٹیکس آمدن بڑھانے، مختلف شعبوں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے اور نئے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے جیسے اقدامات شامل تھے۔
اینٹی کرپشن فریم ورک کو مؤثر بنانے کے لیے حکومت 2025 تک سول سروس ایکٹ میں ترمیم کرے گی تاکہ اعلیٰ سطح کے عوامی عہدیداروں کے اثاثوں کی ڈیجیٹل فائلنگ اور ان کی عوامی رسائی کو یقینی بنایا جا سکے اور ایف بی آر کے ذریعے اثاثوں کی جانچ کے لیے ایک مستحکم فریم ورک تیار کیا جائے گا۔
عدالتی اور ریگولیٹری نظام کا جائزہ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کا حصہ ہے اور پاکستان نے اس معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔ پاکستان نے فنڈ کو یہ یقین دلا رکھا ہے کہ وہ انسداد بدعنوانی کے لیے اپنے اداروں کی صلاحیت میں اضافہ کرے گا اور وہ آگے بڑھنے کے لیے سب کو غیرامتیازی کاروباری اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے سات ارب ڈالرز قرض کی منظوری سے پاکستانی معیشت اور عام افراد کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟پاکستان میں زرعی آمدن پر ٹیکس کیوں لگایا گیا ہے اور ’سُپر ٹیکس‘ کا اطلاق کتنی آمدن پر ہو گا؟’نان فائلرز‘ کی کیٹیگری ختم کرنے کا فیصلہ کن لوگوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے؟سلطنتِ عدلیہ کے ڈھلتے سائےکیا پاکستانی حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر عوام پر ٹیکس کا اضافی بوجھ ڈالا؟کیا ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے پر شہریوں کے سِم کارڈ بند کرنے جیسا اقدام مؤثر ثابت ہو گا؟