Getty Images
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے شمالی قصبہ سوپور کے رہنے والے ایک 14 سالہ بچے نے 2016 میں اپنے والدین سے کہا کہ جس پیر بابا کے پاس وہ اُسے بھیج رہے ہیں وہ اس کے ساتھ ریپکر رہا ہے۔
معاملہ پولیس تک پہنچا تو درجنوں دوسرے بچوں نے بھی اسی طرح کے خوفناک تجربات کا ذکر کیا جس کے بعد اعجاز شیخ نامی اس جعلی پیر کو گرفتار کیا گیا لیکن اس وقت بابا کو سزا نہیں ہوئی۔
گذشتہ ہفتے نو سال بعد بلآخر بارہمولہ کی عدالت نے 54 سالہ جعلی پیر کو 30 سال کی قیدِ بامشقت اور پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
عدالت نے ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہاس معاملے کی تحقیقات جاری رکھی جائیں اور مزید انکشافات پر الگ الگ مقدمے درج کیے جائیں تاکہ سزا میں اضافہ کیا جائے۔
’عقیدت کی سرگوشیاں، خوف کی بازگشت‘
بارہمولہ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ میر وجاہت نے سماعت کے دوران اس واقعے پر ذاتی برہمی کا اظہار کیا۔ 123 صفحات پر مشتمل فیصلے میں انھوں نے کہا کہ ’یہ عدالت پختہ ثبوتوں کی بنیاد پر ملزم کو غیرفطری عمل کا مرتکب پاتی ہے۔
یہ معصوم بچوں کی ذہنی اور روحانی صحت پر ایک بدترین حملہ ہے۔ متاثرہ بچوں نے نہایت دلیری کا مظاہرہ کر کے معاملہ سامنے لایا ہے، لہٰذا بچوں یا ان کے والدین کی شناخت کو خفیہ رکھا جائے تاکہ مزید تحقیقات میں کوئی خلل نہ ہو۔‘
میر وجاہت نے اپنی لکھی ہوئی ایک انگریزی نظم کو بھی فیصلے میں شامل کیا ہے۔ ’عقیدت کی سرگوشیاں، خوف کی بازگشت‘ کے عنوان سے اس نظم میں جعلی پیر کے ہاتھوں معصوم بچوں کو پہنچی روحانی تکلیف کی عکاسی کی گئی ہے۔
نظام کے ایک حصے میں کہا گیا ہے:
’وہ نورانی لباس میں کھڑا تھا
ایک چرواہے کی طرح جو بھیڑوں کی اندھیرے میں رہنمائی کرتا ہے
ایک بچہ سلامتی اور اطمینان کی تلاش میں پہنچا
اُسی وقت نور پر تاریکی چھا گئی‘
جج نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ’یہ فیصلہ اُن ہزاروں دبی ہوئی آوازوں کے لیے اُمید کی ایک کرن ہے، جو جعلی پیروں اور جعل سازوں کی مکاری کا شکار ہوئے ہیں۔‘
’یہ خوف و دہشت کا کمرہ ہے‘: چائلڈ کیئر سینٹر کے سابق ملازم نے درجنوں بچوں کے ریپ کا اعتراف کر لیادو بہنوں کے مبینہ ریپ کے ملزم کو ’تھوک چاٹنے کی سزا‘: باپ جو جرگے کے فیصلے کے خلاف ڈٹ گیاGetty Images’بھروسے کا قتل‘
اعجاز شیخ سوپور کی ایک مسجد کے امام اور ایک مقامی سکول میں اُستاد تھے۔ انھوں نے اپنے بارے میں یہ مشہور کر رکھا تھا کہ اُن کے اندر ایک جن ہے جو رات میں لوگوں کے مسئلے حل کرتا ہے۔
وہ اپنے یہاں آنے والے لوگوں سے کہتے کہ وہ 10 سال یا اس سے کم عمر کے بچوں کو رات میں ان کے گھر بھیجیں جہاں یہ بچے جن سے بات کر کے اپنے والدین کے مسائل حل کر دیں گے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ تجارت میں ترقی، سرکاری نوکری، شادی اور طلاق جیسے معاملات میں ’روحانی مداخلت‘ کا دعویٰ کرتا تھا۔
واضح رہے نو سال قبل جب ایک بچے کے انکشاف سے اعجاز شیخ گرفتار ہوئے، اس وقت تک وہ برسوں سے درجنوں بچوں کا ریپ کر چکے تھے۔ جب عدالت نے انھیں سزا سنائی تو ریپ کا شکار کئی بچوں کی عمر بیس سے چوبیس سال ہو چکی تھی۔
ایک متاثرہ بچے کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب کوئی شخص مسجد میں امام ہو، سکول میں اُستاد ہو اور لوگ اُسے پیر صاحب پکارتے ہوں، تو ایسے شخص پر شبہ کرنا ممکن نہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ بھروسے کا قتل ہوا ہے۔‘
ابھی تک ایک درجن خاندانوں نے عدالت سے رجوع کیا ہے، تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ یہ تعداد بہت زیادہ ہے کیونکہ معاشرے میں ایسے جرائم کے شکار اکثر لوگ سامنے نہیں آتے۔
عدالتی فیصلے میں معاشرے کے پڑھے لکھے لوگوں سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ ایسے جعلی پیروں کی اندھی تقلید سے متعلق معاشرے میں بیداری پیدا کریں۔
فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ 'جرائم جب مذہب اور عقیدے کے پردے میں کیے جائیں تو وہ لوگ زیادہ متاثر ہوجاتے ہیں جنہیں زندگی کا درست مطالعہ نہیں ہوتا۔ وہ لوگ جھاڑ پھونک کرنے والے جرائم پیشہ لوگوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔'
سوپور کے رہنے والے ایک سماجی کارکن نے متاثرہ بچوں کی کونسلنگ کا انتظام کیا۔
انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ 'ان بچوں کی خاموشی بہت کچھ بیان کرتی ہے۔ کچھ بچے رو پڑتے ہیں اور کچھ پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ماہرین نے ہمیں بتایا کہ انہیں ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا کیونکہ یہ معمولی چوٹ نہیں بلکہ روح پر لگے زخم ہیں۔'
چکوال کے مدرسے میں بچوں سے ریپ کے الزام میں دو اساتذہ گرفتار: ’کیس دبانے والوں کو بھی شامل تفتیش کریں گے‘’یہ خوف و دہشت کا کمرہ ہے‘: چائلڈ کیئر سینٹر کے سابق ملازم نے درجنوں بچوں کے ریپ کا اعتراف کر لیادو بہنوں کے مبینہ ریپ کے ملزم کو ’تھوک چاٹنے کی سزا‘: باپ جو جرگے کے فیصلے کے خلاف ڈٹ گیافیصل آباد میں معلم مدرسہ کی کمسن بچے کو ریپ کرنے کی کوشش: پولیس ملزم کی رہائی کے بعد متحرک کیوں ہوئی؟خیرپور: جب تین بچوں کے مبینہ ریپ کے ملزم استاد کو ’قرآن پر معافی ملی‘