روس کے یوکرین پر حملے کے تین برس: ٹرمپ کے ’جھوٹ‘، پوتن کی چال اور زیلنسکی کے ڈٹے رہنے کی کہانی

بی بی سی اردو  |  Feb 24, 2025

BBC

کئیو اب جنگ سے نبرد آزما اُس شہر سے بالکل مختلف دکھتا ہے جو یہ تین برس قبل ہوا کرتا تھا۔ اب شہر کی دکانیں کھلی رہتی ہیں اور مسافروں کا ٹریفک جام میں پھنسنا بھی معمول ہے۔

تاہم 12 فروری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن سے ٹیلیفونک رابطے کے بعد سے 2022 کے روسی حملے کے بعد پیدا ہونے والا یوکرین کے معدوم ہونے کا ڈراؤنا خواب لوٹ آیا ہے۔

پہلے یوکرینی سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی کو روکنے یا جو ہتھیار یوکرین پہنچ چکے ہیں انھیں استعمال کرنے کی شرائط پر ناراض ہوا کرتے تھے۔ جبکہ وہ جانتے تھے کہ صدر بائیڈن کس کی طرف ہیں۔

اب ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دکھایا جانے والا غصہ اور آدھے سچ پر مبنی بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ صدر پوتن کی زبان بول رہے ہیں۔

ان میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ولادیمیر زیلنسکی کو آمر قرار دیا جانا اور یہ کہنا کہ وہ امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والے ان مذاکرات کا حصہ نہیں بن سکتے جن میں یوکرین کی تقدیر کا فیصلہ کیا جائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بولا جانے والا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ یوکرین نے اس جنگ کا آغاز کیا تھا۔

BBCیوکرینیوں کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا خوف ایک بار پھر لوٹ آیا ہے

ٹرمپ کی مذاکراتی حکمتِ عملی سنجیدہ مذاکرات کے آغاز سے قبل ہی رعایتیں دے دینا ہے۔ جس ملک نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے پڑوسی ملک پر حملہ کیا، ہزاروں لوگوں کی اموات اور بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بنا، اس پر دباؤ ڈالنے کے بجائے وہ یوکرین کے خلاف ہو گئے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ان بیانات سے روس کو کافی فائدہ پہنچا ہے کہ یوکرین نیٹو کا حصہ نہیں بنے گا اور روس جن علاقوں پر قابض ہے ان میں سے کچھ اپنے پاس رکھے گا۔

ولادیمیر پوتن کے ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ صرف طاقت کی عزت کرتے ہیں اور کسی بھی طرز کی رعایت کو وہ کمزوری کی علامت سمجھتے ہیں۔

وہ اس مطالبے سے زرا بھی پیچھے نہیں ہٹے ہیں کہ انھیں اس سے بھی زیادہ یوکرین کا حصہ چاہیے جس پر ان کی فوج اس وقت قابض ہے۔

حال ہی میں سعودی عرب میں امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد پوتن کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے اپنے اس مطالبے کو دہرایا کہ کسی بھی سکیورٹی گارنٹی کے لیے یوکرین میں نیٹو فوج کی تعیناتی روس کے لیے قابلِ قبول نہیں۔

Getty Imagesدوسری بار صدر منتخب ہونے کے بعد سے صدر ٹرمپ یوکرین کے مخالف ہو گئے ہیں

ایک سینیئر یورپی سفارت کار جو روس اور امریکہ کے ساتھ کام کر چکے ہیں نے مجھے بتایا کہ جب منجھے ہوئے لاوروف کی ڈونلڈ ٹرمپ کے ناتجربہ کار وزیرِ خارجہ مارک روبیو سے ملاقات ہوئی ہو گی تو لاوروف انھیں کچا ہی چبا گئے ہوں گے۔

بدلتا وقت

کچھ روز قبل جب ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کے صدر کے خلاف مزید بیانات دے رہے تھے، اب میری کئیو میں ولادیمیر زیلنسکی کے سینیئر مشیر ایہور براسیلو سے ملاقات ہوئی۔

براسیلو نے تسلیم کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات سے ان پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت مشکل اور کٹھن وقت ہے۔‘

’میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ 2022 سے آسان ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے ہم اس وقت کو ایک بار پھر جی رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یوکرینی عوام اور ان کے صدر لڑنے کے لیے اتنے ہی پُرعزم ہیں جتنے وہ 2022 میں تھے۔

’ہم ایک خود مختار ملک ہیں۔ ہم یورپ کا حصہ ہیں اور رہیں گے۔‘

پھیکے پڑتے رنگ

سنہ 2022 میں جب ولادیمیر پوتن نے یوکرین پر بھرپور حملے کا حکم دیا تو اس کے بعد کئیو کی سڑکیں ویران نظر آتی تھیں۔ ہر طرف چیک پوسٹیں، ناکے، ریت کی بوریوں کی دیوایں اور ٹینکوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے سٹیل سے بنائی گئی رکاوٹیں دکھائی دیتی تھیں۔

ریلوے سٹیشن پر 50 ہزار کے قریب افراد روزانہ کی بنیاد پر روسیوں سے دور مغربی علاقوں کو جانے کی کوشش کرتے۔ ان میں سے بیشتر تعداد خواتین اور بچوں کی ہوتی۔

Getty Images24 فروری 2022 کو یوکرین کے شہر چوگیو میں ہونے والے بمباری کے بعد ایک زخمی خاتون ہسپتال کے باہر کھڑی ہیں۔

پلیٹ فارم کھچا کھچ بھرے ہوتے اور ہر دفعہ جب بھی کوئی ٹرین آتی تو ایک افراتفری مچ جاتی اور لوگ ٹرین پر چڑھنے کے لیے ایک دوسرے کو دھکے دے رہے ہوتے۔

ان سرد دنوں میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے 21ویں صدی کے سارے رنگ پھیکے پڑ گئے ہیں اور زندگی ایک ایسی بے رنگی نیوز ریل میں تبدیل ہو گئی ہے جو یورپینز کے خیال میں ماضی کا حصہ بن چکی تھی۔

جو بائیڈن کے مطابق زیلنسکی امریکی وارننگ پر کان دھرنے کو تیار نہ تھے کہ روسی حملہ ناگزیر ہے۔

پوتن کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ ایک الگ چیز ہے۔ لیکن ہزاروں فوجیوں اور فوجی ساز و سامان کے ساتھ کسی ملک پر حملہ آور ہونا تو ماضی کی بات لگتی تھی۔

پوتن کا خیال تھا کہ روس کی جدید اور طاقتور فوج اپنے ضدی پڑوسی اور اس کے نافرمان صدر کو بنا وقت ضائع کیے جھکانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

یوکرین کے مغربی اتحادیوں کا بھی یہی خیال تھا کہ روس کو یوکرین پر قبضہ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

ٹی وی نیوز چینلز پر بیٹھے ریٹائرڈ جنرلز اس بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے کہ کیسے چھوٹے ہتھیار یوکرین میں سمگل کر کے وہاں مزاحمت کو ہوا دی جائے جبکہ مغرب روس پر پابندیاں عائد کر کے بہتری کی امید لگائے بیٹھا تھا۔

Getty Imagesکئیو کو آج بھی روسی میزائلوں اور ڈرون حملوں کا سامنا ہے۔

ایسے میں جب روسی افواج یوکرین کی سرحد پر جمع ہو رہی تھیں تو جرمنی نے یوکرین کو ہتھیاروں کے بجائے پانچ ہزار بیلسٹک ہیلمٹ بھیجے۔

کیئو کے میئر وٹالائی کلکسکاکو کسی زمانے میں ہیوی ویٹ باکسر ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے ایک جرمن اخبار سے شکایت کرتے ہوئے اس امداد کو ایک مذاق سے تشبیہ دی تھی۔ ’جرمنی اگلی امداد کھیپ کیا بھجوائے گا، تکیے؟‘

زیلنسکی نے کیئو چھوڑ کر جلاوطنی میں حکومت قائم کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے سوٹ کی جگہ فوجی لباس اپنا لیا۔ سوشل میڈیا اور اپنی ویڈیوز میں انھوں نے بارہا یوکرینیوں سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر لڑیں گے۔

یوکرین اپنے دارالحکومت پر روسی حملے کو روکنے میں کامیاب رہا۔

ایک بار جب یوکرین نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ لڑنے کے قابل ہیں تو یورپینز اور امریکیوں کا رویہ بھی تبدیل ہو گیا اور ہتھیاروں کی فراہمی میں بھی اضافہ ہونے لگا۔

Getty Imagesیوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی جنگ کے آغاز کے بعد سے فوجی یونیفارم پہنتے ہیں۔

ایک سینیئر یوکرینی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پوتن کی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے جنگ کی جگہ پریڈ کی تیاری کی تھی۔‘

’انھیں نہیں لگا تھا کہ یوکرین لڑے گا۔ انھیں لگا تھا کہ ان کا تقاریر اور پھولوں سے استقبال ہو گا۔‘

29 مارچ 2022 کو روسی فوج کیئو سے پیچھے ہٹ گئی۔ اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد ہم نے کئیو کے نزدیکی شہروں ارپین، بوچا اور ہوسٹومیل کا دورہ کیا۔

جس سڑک پر روسی اپنی کامیابی کا جشن منانے کا سوچ رہے تھے وہاں ہمیں سویلینز کی لاشیں پڑی نظر آئیں۔ ان میں سے کچھ کے ارد گرد جلے ہوئے ٹائر پڑے تھے جو جنگی جرائم کے نشانات مٹانے کی ناکام کوششوں کی نشاندہی کر رہے تھے۔

بچنے جانے والوں نے روسی مظالم کے بارے میں بتایا۔ ایک خاتون نے مجھے ایک قبر دکھائی جس میں انھوں نے اکیلے اپنے بیٹے کو دفنایا تھا۔

ان کے بیٹے کو سڑک پار کرتے وقت گولی مار دی گئی تھی۔ روسی فوجیوں نے انھیں ان کے گھر سے نکال دیا۔ ان کے گھر کے باغیچے میں ووڈکا، وسکی اور جن کی خالی بوتلیں پڑی تھیں جنھیں روسی فوجی اپنے پیچھے چھوڑ گئے تھے۔

سڑکوں کے نزدیک جنگل میں لگے روسی فوجیوں کے کیمپ جنھیں وہ جلد بازی میں چھوڑ گئے تھے کچرے سے بھرے تھے۔

پیشہ ور اور نظم و ضبط والی فوج سڑے ہوئے کوڑے کے ڈھیر کے پاس نہیں رہتے۔

تین سال کے بعد جنگ کافی بدل چکی ہے۔ کیئو اب نسبتاً پر سکون ہے تاہم اب بھی راتوں میں روسی میزائل اور ڈرون کے حملوں کی پیشگی اطلاع دینے والے الارم بجتے ہیں۔

تاہم روس کے ساتھ واقع ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ لمبی سرحد جو شمال سے مشرق اور پھر جنوب سے نیچے بحیرۂ اسود تک جاتی ہے پر جنگ کہیں زیدہ مہلک اور قریب لگتی ہے۔

سرحد کے ساتھ خالی اور تباہ شدہ گاؤں اور قصبوں کی ایک قطار سی ہے۔

یوکرین کے صنعتی مراکز ڈونیتسک اور لوہانسک کی جانب روس کی پیش قدمی جاری ہے لیکن اس کے لیے روسی فوج کو بھاری جانی اور ساز و سامان کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

پوتن کا خفیہ ہتھیار: سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں کی جانے والی روس کی کارروائیاں جو مغربی دنیا کو پریشان کیے ہوئے ہیںیوکرین کے ’نایاب معدنی ذخائر‘ جن پر ٹرمپ کی نظر ہےریاض کے بند کمرے کی غیرمعمولی تصویر اور وہ ’سفارتی دھماکہ‘ جس نے مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیاپوتن کو رعایت دینے کی ’غلطی‘ یا سیاسی چال: ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی نے کیسے دنیا کو الجھا دیا

گذشتہ سال اگست میں یوکرینی فوج روس کی سرحد کے اندر داخل ہو کر کرہسک میں ایک چھوٹے سے علاقے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ وہ آج بھی وہاں موجود ہیں اور لڑ رہے ہیں۔ زیلنسکی کو امید ہے کہ وہ اس علاقے کو روس کے ساتھ سودے بازے میں اپنے فائدے کے لیے استعمال کر پائیں گے۔

کرسک کے ساتھ واقع یوکرین کے برف سے ڈھکے شمال مشرقی جنگلات میں اب تک ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کے اثرات نہیں پہنچے ہیں۔

لیکن اس کے اثرات یہاں بھی محسوس ہونے لگیں گے اگر امریکی صدر نے اپنی دھمکیوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے فوجی امداد اور انٹیلی جنس معلومات دینا بند کر دیں۔ لیکن یوکرین کے نقطہ نظر سے اس سے زیادہ برا ایک ایسا امن معاہدہ مسلط کرنا ہوگا جو روس کے حق میں ہو۔

لیکن ابھی جنگ جاری ہے اور جنگل بیسویں صدی کے کسی خون آلود میدانِ جنگ کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ جنگجو جنگل کی برفیلی زمین میں بنی خندقوں اور بنکرز کے ساتھ ساتھ درختوں کی اوٹ میں خاموشی سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کھلے میدانوں میں ٹینکوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے کانکریٹ اور سٹیل کی بنی رکاوٹیں دکھائی دیتی ہیں۔

خشک اور گرم زیرِ زمین بنکرز میں 21ویں صدی کی زیادہ شبیہ ملتی ہے۔ یہاں جنریٹروں اور سولر پینلز کی مدد سے لیپ ٹاپ اور ٹی وی سکرینیں روشن ہیں جو باہر کی دنیا سے ان کا رابطہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔

BBCیہ جنگ اس وقت شمال مشرقی یوکرین کے شہر سومی کے آس پاس کے جنگلات میں لڑی جا رہی ہے۔

بری خبر نشر ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اگلے مورچوں پر موجود فوجی اس کو دیکھتے بھی ہیں۔ 30 سالہ فوجی ایوہن کہتے ہیں کہ ان کے پاس سوچنے کے لیے اس زیادہ اہم چیز ہیں – ان کے ساتھی اور، ان کی اہلیہ اور دو بچے جنھیں وہ دس ماہ پہلے پیچھے چھوڑ آئَے تھے جب انھوں نے فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔

یہ کرسک کے محاذ پر گزارنے کے لیے ایک لمبا عرصہ ہے۔ وہ اب ایک تجربہ کار سپاہی کی طرح دکھتے اور بات کرتے ہیں۔

انھوں نے شمالی کوریا کے فوجیوں کا سامنا کیا ہے جنھیں ان کے لیڈر کم جونگ اُن نے اپنے اتحادی پوتن کی مدد کے لیے بھیجا تھا۔

'کورین فوجی آخری دم تک لڑتے ہیں۔ اگر وہ زخمی ہیں اور آپ ان کے قریب جاتے ہیں تو امکان ہے کہ وہ خود کو بم سے اڑا دیں گے تاکہ مرتے مرتے بھی وہ مزید کو اپنے ساتھ لے جا سکیں۔'

BBCایوہن کو فکر نہیں تھی کہ شاید انھیں امریکیوں کی مدد بغیر اپنے بل بوتے پر لڑنا پڑے۔

جن تمام سپاہیوں کے ہم نے انٹرویو کیے انھوں نے سکیورٹی خدشات کے باعث اپنے پورے نام استعمال نہ کرنے کی درخواست کی۔ بظاہر ایوہن کو فکر نہیں تھی کہ مستقبل میں شاید انھیں امریکیوں کی مدد کے بغیر اپنے بل بوتے پر لڑنا پڑے۔

'مدد ہمیشہ نہیں آنے والی۔ آج ہے، کل نہیں ہوگی۔'

ان کا کہنا ہے کہ یوکرین اب مزید کئی ہتھیار مقامی طور پر تیار کر رہا ہے۔ جہاںتکڈرون حملوں کی بات ہے تو یہ سچ بھی ہے۔ تاہم یوکرین اب بھی جدید ہتھیاروں کے لیے امریکہ منحصر ہے۔ یہ وہی ہتھیار ہیں جن سے روس کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔

محاذ پر لڑنے والوں اور بھرتی سے بھاگنے والوں میں تلخی

بہت سے رضاکار سپاہی جنھوں نے تین سال قبل ہتھیار اٹھائے تھے، یا تو مارے جا چکے ہیں یا پھر زخمی ہو چکے ہیں یا اتنے تھک چکے ہیں کہ وہ مزید لڑائی جاری نہیں رکھ سکتے۔

یوکرین میں سب سے زیادہ تلخی ان لوگوں کے درمیان پائی جاتی ہے جو اگلے محاذوں پر لڑ رہے ہیں اور وہ جو رشوت دے کر فوج میں جانے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایوہن کا کہنا ہے کہ وہ ان افراد کے بنا ہی ٹھیک ہیں۔

ان کا کہنا یہ افراد یہاں آنے کے بعد بھاگ جائیں اور ہمارے لیے مسئلہ پیدا کریں، اس سے بہتر یہ ہے کہ وہ رشوت دے یہاں محاذ پر آئیں ہی نہیں۔

ایوہن کہتے ہیں کہ انھیں ان کے نہ آنے سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ لوگ بھگوڑے ہیں۔

جنگ میں آپ کے پاس فضول خیالات کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ کرسک میں محاذِ جنگ پر واپس جانے کی تیاری کرنے والے سپاہیوں کے لیے داؤ بالکل سیدھا ہے۔

مائکولا فضائی حملہ کرنے والے فوجیوں کے ایک دستے کی کمانڈ کرتے ہیں۔ وہ امریکہ کی جانب سے فراہم کیے جانے والے 'سٹرائیکر' بکتر بند گاڑیوں کے بارے میں بڑے شوق سے بتاتے ہیں۔

'کرسک نے دشمن جوہری ریاست کو دکھا دیا کہ ایک غیر جوہری ریاست جس کی آبادی اور فوج اس سے کہیں کم ہے، اس کی سرحد میں گھس کر ایک علاقے پر قبضہ کر سکتی ہے اور روس اس بارے میں زیادہ کچھ نہیں کر سکا۔'

ان کا کہنا ہے کہ پوتن کے مقاصد واضح ہیں۔

BBCمائکولا فضائی حملہ کرنے والے فوجیوں کی ایک کمپنی کی کمانڈ کرتے ہیں۔ وہ پوتن پر بالک بھروسہ نہیں کرتے

'ان کا مقصد پورے یوکرین پر قبضہ کر کے اس کی قانونی حیثیت، حکومت اور صدر کو تبدیل کرنا ہے۔ وہ ہمارے سیاسی نظام کو تباہ کرکے یوکرین کو اپنا تابعدار ریاست بنانا چاہتے ہیں۔'

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکیوں اور دیگر کو ولادیمیر پوتن پر بھروسہ کرنا چاہیے تو وہ اس سوال پر بے ساختہ ہنس دیے۔

'نہیں، میری پاس انگلیاں کم پڑ جاتی ہیں اگر میں گننے بیٹھوں کہ پوتن نے کتنی مرتبہ جھوٹ بولا ہے۔ ہر کسی سے! روسیوں سے، ہم سے اور مغربی اتحادیوں سے۔ اس نے ہر کسی سے جھوٹ بولا ہے۔'

جنگ کے ماحول میں بڑے ہوتے بچے

جنگ کے ابتدائی دنوں میں کئیو کے ایک رضاکار مرکز میں میری ملاقات دو نوجوان طالبعلموں سے ہوئی۔ میکسم کی عمر 19 جبکہ ڈیمیٹریو 18 سال کے تھے۔ وہ وہاں فوج میں بھرتی کے لیے اپنا نام لکھوانے آئے تھے۔ جب وہ دیگر رضاکاروں کے ساتھ قطار میں اپنا کیمپنگ کا سامان لیے کھڑے ایسے لگ رہے تھے جیسے کوئی نوجوان کسی فیسٹیول میں جانے کے لیے کھڑے ہوں۔ واحد چیز جو ان کے میدانِ جنگ میں جانے کی گواہی دے رہی تھی وہ ان کی رائفلیں تھیں۔

اس وقت میں نے لکھا تھا کہ، '18، 19 سال کے لڑکے جنگ پر جا رہے ہیں۔ مجھے لگا تھا کہ شاید یورپ اس دور سے آگے نکل چکا ہے۔'

کچھ ہفتوں بعد میکسم اور ڈیمیٹریو یونیفارم میں ملبوس کئیو کے باہر ایک ناکے پر تعینات تھے جہاں وہ اس وقتبھی دوسرے کم عمر نوجوانوں کی طرح ہنسی مذاق کر رہے تھے۔

Getty Imagesیوکرین پر روس کے حملے کے بعد یورپ میں فوج میں زبردستی بھرتی کا رجحان لوٹ آیا۔

وہ دونوں کئیو میں ہونے والی جنگ میں لڑے۔ جب جنگ مشرقی محاذ کی جانب منتقل ہوئی تو ڈیمیٹریو نے فوج چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بطور سٹوڈنٹ رضاکار ان کا حق تھا۔ اب وہ نیشنل ملٹری یونیورسٹی سے افسر بن رہے ہیں تاکہ ضرورت پڑی تو وہ ایک بار پھر لڑ سکیں۔

میکسم اب بھی فوج میں ہیں اور پچھلے دو برس سے مشرقی محاذ پر لڑ رہے ہیں۔ اب وہ ملٹری انٹیلیجنس میں افسر ہیں۔

میں ان کے ساتھ رابطے میں رہا۔ لاکھوں دیگر نوجوانوں کی طرح جنگ نے ان کی زندگی کو بھی ایسے متاثر کیا ہے جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ٹرمپکے ماسکو کی جانب جھکاؤ سے انھیں لگتا ہے کہ انھیں ایک مرتبہ پھر شروع سے جدوجہد کرنی پڑے گی۔

ڈیمیٹریو کہتے ہیں کہ ہم نے سب کو متحرک کیا۔ 'اپنے لوگوں کو، وسائل کو، اور مجھے لگتا ہے کہ ایک بار پھر یہ کرنا پڑے گا۔'

ماضی سے موازنہ

کرسک بارڈر پر موجود فوجیوں کے برعکس یہ دونوں خبریں دیکھتے ہیں۔ میونخ سکیورٹی کانفرنس میں ٹرمپ کی جانب سے اپنائی جانے والی سفارتکاری اور حکمتِ عملی سے انھیں 1938 میں اس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم نیویل چیمبرلین کی میونخ میں ہی کی گئی اس بدنامِ زمانہ ڈیل یاد آ گئی جس کے نتیجے میں چیکوسلواکیہ کو اڈولف ہٹلر کے مطالبات ماننا پڑے تھے۔

میکسم کہتے ہیں سب کچھ ویسا ہی ہو رہا ہے۔ 'مغرب ایک جارح کو کچھ علاقوں پر قبضہ کرنے دے رہا ہے۔ مغرب جارح کے ساتھ سودے بازی کر رہا ہے اور اب کی بار برطانیہ کا کردار امریکہ نبھا رہا ہے۔'

ان کا ماننا ہے کہ یہ صرف یوکرین نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرناک موڑ ہے۔

'ہمیں دکھ رہا ہے کہ یورپ آہستہ آہستہ جاگ رہا ہے۔۔۔۔ لیکن اگر انھیں جنگ کے لیے تیار ہونا تھا تو انھیں یہ چند سال پہلے کر لینا چاہیے تھا۔'

ڈیمیٹریو بھی متفق ہیں کہ آگے حالات بہت خطرناک ہونے جا رہے ہیں۔

'مجھے لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی نیویل چیمبرلین کی طرح بننا چاہتے ہیں۔۔۔۔ٹرمپ کو ونسٹن چرچل بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔'

صدر ٹرمپ کے بیانات کا اثر

اگر آپ بھی ریئل اسٹیٹ ڈیولپر ہیں جیسے ڈونلڈ تھے تو آپ کو پتا ہوگا کہ توڑ پھوڑ سے پیسہ بنتا ہے۔ ایک پراپرٹی خریدیں، اسے پہلے گرائیں اور پھر دوبارہ تعمیر کریں، اسی میں آپ کی کامیابی ہے۔ لیکن اس حکمتِ عملی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ خود مختاری اور آزادی کی قیمت نہیں لگائی جا سکتی۔ ٹرمپ کہتے ہیں وہ امریکہ کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں لیکن وہ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ امریکیوں کے علاوہ دوسری اقوام بھی اپنے ملک کے بارے میں ایسے ہی احساسات رکھتی ہیں۔

جب سے ٹرمپ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تب سے وہ ہر چیز کو توڑ پھوڑ کر دوبارہ بنانے کے منصوبے میں لگے ہوئے ہیں۔ انھوں نے ایلون مسک کو امریکہ کے سرکاری محکموں کی تنظیمِ نو کی ذمہ داری سونپی ہے جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اربوں ڈالرز ضائع ہو رہے ہیں۔

بین الاقومی سطح پر بات کی جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ اور یورپی جمہوریتوں کے درمیان 80 سالہ اتحاد کی بنیاد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ غیر متوقع ہیں، لیکن وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس بارے میں وہ کئی برسوں سے بات کرت آئے ہیں۔

وہ پہلے امریکی صدر نہیں جنھیں یہ لگا ہو کہ ان کے یورپی اتحادی امریکی دفاعی بجٹ کے پیچھے چھپ اپنے پیسے بچا رہے ہیں۔

ٹرمپ کے وزیرِ دفاع پیٹ ہیگستھ کا اپنے نیٹو اتحادیوں کے بارے میں استعمال کیا گیا یہ جملہ، 'صدر ٹرمپ کسی کو بھی انکل سام کو انکل سَکَر بنانے کی اجازت نہیں دیں گے' سابق امریکی صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کی جانب شعوری حوالہ تھا۔

چار نومبر 1959 کی ایک امریکی سرکاری دستاویز سے صدر آئزن ہاور کی پریشانی کا پتا چلتا ہے۔ اس میں لکھا ہے، 'صدر گذشتہ پانچ برسوں سے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ حقائق یورپیوں کے سامنے رکھے، ان کے خیال میں یورپی 'انکل سیم کو انکل سَکَر' بنانے کے قریب ہیں۔'

ٹرمپ اب وصولی چاہتے ہیں۔ انھوں نے یوکرین سے 500 ارب ڈالرز مالیت کی معدنیات کا مطالبہ کیا ہے۔ زیلنسکی نے یہ کہ کر اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ اپنے ملک کو نہیں بیچ سکتے۔ وہ کسی بھی رعایت کے بدلے سکیورٹی گارنٹی چاہتے ہیں۔

نجی محفلوں میں یورپی سیاست دان اور سفارتکار اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انھوں نے یوکرین کو اتنی مدد فراہم کی کہ اسے روس کے ہاتھوں شکست نہ ہو لیکن اتنی اتنی امداد کبھی فراہم نہیں کی کہ یوکرین جیت جائے۔

اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ روس جو کہ پہلے ہی بین الاقوامی پابندیوں کے باعث کمزور ہو چکا ہے اور مسلسل جنگ کی وجہ سے اس کی افرادی قوت کم ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے بالآخر وہ جنگ ہار جائے گا۔ لیکن یہ بات حتمی نہیں۔

جنگیں عام طور پر معاہدوں کے نتیجوں میں ختم ہوتی ہیں۔ 1945 میں جرمنی کا غیر مشروط طور ہتھیار ڈالنا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔

ٹرمپ پر نقید یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں۔ انھوں نے بس اپنے دل کی آواز سنتے ہوئے پوتن سے روابط بڑھانے کی کوشش کی جنھیں وہ پسند کرتے ہیں۔

ترمپ کا ماننا ہے طاقتور ممالک کے طاقتور لیڈرز دنیا کو اپنی مرضی سے چلا سکتے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے پوتن کو پیش کی جانے والی رعایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی ترجیح روس سے تعلقات بحال کرنا ہے۔

پوتن کا سامنا

ایک زیادہ قابل عمل منصوبہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی طرح سے پوتن کو اپنے ان خیالات کو ترک کرنے کے لیے راضی کیا جو ان کے جیو سٹریٹیجک ڈی این اے میں رچ بس چکے ہیں۔

پوتن کے دماغ میں پیوست ایک خیال یہ ہے کہ یوکرین کی خودمختاری کو ختم کر کے اسے ایک بار پھر روس کے کنٹرول میں لینا ہے جیسے وہ سوویت دور یا اس سے قبل روس کے زار کے وقت میں تھا۔

ایسا ہوتا مشکل ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا یوکرین کا اپنی آزادی روس کے حوالے کر دینا۔

یوکرین جنگ کی وجہ سے یورپ کی سکیورٹی کا تناظر یکسر بدل گیا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اس کے رہنما رواں مہینے ہونے والے واقعات سے اتنا پریشان ہیں۔

ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنے نوجوانوں کو ایسی جنگوں کا ایندھن بننے سے روکنا ہے جو میکسم جیسے نوجوانوں کو نگل چکا ہے۔

'سب بدل گئے، میں بھی بدل گیا ہوں۔ مجھے لگتا ہے ان برسوں میں یوکرین میں سب بڑے ہو گئے ہیں۔ وہ سب لوگ جو فوج میں شامل ہوئے اور اتنے لمبے عرصے سے لڑ رہے ہیں، ایک دم بدل چکے ہیں۔'

یوکرین کے صدر روس کے خلاف ’یورپ کی فوج‘ کیوں بنانا چاہتے ہیں؟یوکرین نے ’سوویت دور کے میزائل‘ سے سمندر میں روسی ہیلی کاپٹر کیسے مار گرایا؟دفاعی نظام کو چکمہ دینے اور ٹینکوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے یوکرینی میزائل اور جدید ڈرونز نے کیسے مقبولیت حاصل کیشوہر سے 50 منٹ ’ملاقات‘ کے لیے 50 گھنٹے سفر: وہ خواتین جنھیں اپنی شادی بچانے کے لیے میدان جنگ کا رُخ کرنا پڑتا ہےسکوٹر بم، ’جنگی مچھر اور روسی ہٹ لسٹ‘: ماسکو میں ایک جنرل کا قتل اور یوکرین کی ’موساد جیسی کارروائیاں‘ٹرائیڈنٹ: یوکرین کا ’دو کلومیٹر کی اونچائی پر اڑتے ہوائی جہاز مار گرانے کی صلاحیت رکھنے‘ والے لیزر ہتھیار بنانے کا دعویٰ
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More