فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل کیس میں آئینی بینچ کے جج جسٹس حسن اظہر نے کہا جہاں ملٹری کی شمولیت ہو وہاں ملٹری کورٹ شامل ہوں گی۔ سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔
دورانِ سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے سوال کیا کہ 1962ء کے آئین کے وقت ایوب خان کا دور تھا، کیا ایوب خان کے دور میں لوگوں کو بنیادی حقوق میسر تھے؟
بانئ پی ٹی آئی کے وکیل عذیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ اس وقت بھی بنیادی حقوق دستیاب نہیں تھے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا، ان کی سیکیورٹی کسی آرمی پرسنل کے کنٹرول میں ہو گی، جہاں ملٹری کی شمولیت ہو وہاں ملٹری کورٹ شامل ہو گی۔
وکیل عذیر بھنڈاری نے بتایا کہ 103 افراد ایسے ہیں جن کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو رہا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے وکیل سے کہا کہ میڈیا پر ہم نے فوٹیجز دیکھی ہیں۔
وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اس کیس میں عدالت نے طے کرنا ہے کہ قانون کو کس حد تک وسعت دی جا سکتی ہے؟ 21 ویں آئینی ترمیم کے باوجود عدالت نے قرار دیا کہ مخصوص حالات کے سبب ترمیم لائی گئی، آرمی ایکٹ کا سویلین پر اطلاق کرنے کے لیے آئینی تحفظ دینا پڑے گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل عزیر بھنڈاری سے کہا کہ آپ ایک بات کر رہے ہیں، آپ کے موکل دوسری بات کرتے ہیں، آپ کا موکل کہتا ہے جن کے پاس اختیارات ہیں ان سے بات کروں گا۔
دورانِ سماعت سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ توسیع کے جسٹس منصور شاہ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کیس بھی موجود ہے، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا قانون نہیں تھا، سپریم کورٹ کی ہدایات پر پارلیمنٹ نے آرمی چیف کی توسیع کے لیے قانون سازی کی۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اس وقت ایک نوٹیفکیشن کے لیے سب سرجوڑ کر بیٹھ گئے تھے، یہ تو ہماری حالت تھی۔
جسٹس امین الدین خان نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی ممبر اسمبلی نے آرمی ایکٹ کے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھائی، آرمی ایکٹ کے خلاف پرائیویٹ بل لایا۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں بھارت کا حوالہ دیا، انہوں نے کہا بھارت میں ملٹری ٹرائل کے خلاف آزادانہ ٹربیونل میں اپیل جاتی ہے، بھارت میں اپیل کا حق پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے خود دیا یا عدالتی ہدایات تھیں؟
وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہمارے سامنے کلبھوشن یادیو کی مثال موجود ہے، کلبھوشن کو خصوصی قانون سازی کے ذریعے اپیل کا حق دیا گیا، اپیل کا حق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے سبب دیا گیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میں نے ماتحت عدلیہ کے ججز سے متعلق ایک فیصلے میں تجویز دی، میری تجویز پر ہائی کورٹ ججز کی کمیٹی بنی اور ماتحت عدلیہ کے ججز کے ٹیسٹ انٹرویو شروع ہوئے۔
وکیل عذیر بھنڈاری نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں اعتزاز احسن صاحب نے آپ کو بتایا کہ ٹرائل کیسے ہوتا تھا، فیئر ٹرائل تو دور کی بات، جیل ٹرائل میں کاغذ کا ٹکڑا تک نہیں لے جانے دیا جاتا۔
جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کاغذ کا ٹکڑا نہیں لے کے جانے دیتے تو خط کہاں سے آجاتے ہیں؟
جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ہاں ہاں آج کل تو خطوں کا تنازع بھی چل رہا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے کہا کہ آپ صرف بنیادی حقوق کے معاملے پر دلائل دیں۔ جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔