پاکستان کے مشہور شہروں میں سے ایک لاہور ہے جو اپنے انفرادی کلچر کی وجہ سے بھی زبان زد عام رہتا ہے۔ یہاں راستہ پوچھنے پر گھما دیا جانا یا نت نئے طریقوں سے فراڈ کرنے جیسے واقعات بھی موضع بحث رہتے ہیں۔ ان دنوں لاہور میں ایک نوسرباز گروہ سرگرم ہے جو سرکاری اہلکاروں کے روپ میں کام کر رہا ہے۔سنیچر کو اس گروہ کے تین ارکان لاہور کے پوش علاقے گلبرگ میں نمودار ہوئے جن میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔ گلبرگ وہی علاقہ ہے جہاں مشہور زمانہ قذافی سٹیڈیم واقع ہے۔ اس علاقے میں رنگ برنگے کیفے اور ریستوران اس کو امتیازی بناتے ہیں۔
اس گروہ نے اسی صورت حال کا فائدہ اٹھایا اور ایک کیفے میں داخل ہو کر اپنا تعارف پنجاب فوڈ اتھارٹی کے افسران کے طور پر کروایا۔
اس کیفے کے مالک فرحان اعظم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ لوگ آئے تو آتے ہی اپنا تعارف کروا کر ہمارے سٹاک کی چیکنگ شروع کر دی۔ اور جلد ہی انہوں سٹاف کو ہراساں کرنا شروع کر دیا کہ جتنا بھی سامان پڑا ہے وہ ایکسپائر ہو چکا ہے۔ اور اس کی ری پیکجنگ کی گئی ہے۔ اب کیفے سیل ہو گا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اتنے پُراعتماد تھے کہ کہیں سے لگ نہیں رہا تھا کہ وہ سرکاری اہلکار نہیں ہیں۔ جب ان سے بات چیت کی اور ایک ملازم نے ان کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو انہوں نے موبائل چھین لیا۔ اس کے بعد وہ اس بات پر آئے کہ کیفے سیل نہیں ہو گا لیکن سامان ضبط ہو گا۔‘’پُراعتماد نوسربازوں نے اس دوران کہا کہ سامان اب فوڈ اتھارٹی کے دفتر سے ملے گا۔ اور اس کے بعد ایک لوڈر رکشے پر کیفے کا سامان جس میں درآمد شدہ کافی بینز اور دیگر خام مال لوڈ کیا اور وہاں سے نکل گئے۔‘لاہور کے مختلف علاقوں سے اب تک 12 سے زائد نوسرباز گرفتار کیے گئے ہیں۔ (فائل فوٹو: ایکس)تھانہ گلبرگ میں درج مقدمے کے مطابق یہ افراد 11 لاکھ روپے سے زائد کا سامان لے کر فرار ہوئے۔ جبکہ یہ ساری کاروائی سی سی ٹی وی کیمروں نے بھی محفوظ کی۔ جاتے ہوئے ایک شخص نے کیمرے کو بھی اکھاڑنے کی کوشش کی جس پر کیفے کے مالک کو ان پر شک ہوا۔بعد میں جب فوڈ اتھارٹی سے پتہ کیا تو ان کی ٹیم نے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ اور کیمرے میں آںے والے افراد نہ ہی پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ملازم تھے۔ جس کے بعد کیفے کے مالک نے تھانے میں مقدمہ درج کروا دیا۔حال ہی میں شہر کے مختلف علاقوں سے اب تک 12 سے زائد نوسرباز گرفتار کیے گئے ہیں جو مجسٹریٹس کا روپ دھار کر دکانداروں سے ’منتھلیاں‘ لے رہے تھے۔اس حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر سٹی بابر علی کا کہنا تھا کہ ’موجودہ حکومت نے پرائس کنٹرول کے لیے شہر میں 25 مجسٹریٹ تعینات کیے ہیں لیکن ہمارے نوٹس میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ لوگ مجسٹریٹ بن کر جعل سازی سے پیسے بٹور رہے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے ایک منظم طریقے سے ان لوگوں کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اس میں ہم تاجر تنظیموں کی مدد لے رہے ہیں۔‘ان دنوں شادیوں کا سیزن چل رہا ہے تو ون ڈش کی خلاف ورزی کا پتہ لگانے والے ’جعلی‘ سرکاری افسران کی بھی بھرمار ہے۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)انہوں نے کہا کہ ’ایک تاجر نے ڈی سی آفس میں ایسے ایک نوسرباز کی اطلاع دی تو جب اسے گرفتار کیا گیا تو وہ آرام سے کرسی پر انتہائی ُپراعتماد طریقے سے براجمان تھا۔‘ان دنوں شادیوں کا سیزن چل رہا ہے تو ون ڈش کی خلاف ورزی کا پتا لگانے والے ’جعلی‘ سرکاری افسران کی بھی بھرمار ہے۔ پولیس کے مطابق گذشتہ دو ہفتوں میں پانچ ایسے نوسرباز گرفتار کیے گئے ہیں جو شادی ہال سیل کرنا چاہتے تھے اور اس کے بدلے رقم کا تقاضا کر رہے تھے۔