Getty Imagesکابل ائیرپورٹ کے ایبے گیٹ پر ہونے والے خودکش حملے میں 13 امریکی فوجی اور تقریباً 170 افغان شہری ہلاک ہوئے تھے
امریکی کانگریس سے ڈونلڈ ٹرمپ کا خطاب اپنی طوالت اور متنازع موضوعات کی وجہ سے تو خبروں میں ہے ہی، اس تقریر میں انھوں نے افغانستان میں 13 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ بننے والے خودکش حملے کے ’مرکزی ملزم‘ کی پاکستان سے گرفتاری کا اعلان کر کے بھی سب کو چونکا دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد کانگریس سے اپنے اولین خطاب میں کہا کہ ’مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے کہ سنہ2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران کابل ایئرپورٹ پر فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنانے والا مرکزی ملزم پکڑا گیا۔‘
یاد رہے کہ 26 اگست 2021 کو کابل ائیرپورٹ کے ایبے گیٹ پر ہونے والے خودکش حملے میں 13 امریکی فوجی اور تقریباً 170 افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی
امریکی صدر نے تو تقریر میں اس ملزم کی شناخت ظاہر نہیں کی لیکن امریکی محکمۂ انصاف نے بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں ایبے گیٹ خودکش حملے کے اس منصوبہ ساز کا نام محمد شریف اللہ المعروف جعفر بتایا ہے جس کا تعلق دہشت گرد تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شامکی خراسان شاخ سے ہے۔
پاکستان کے سکیورٹی ذرائع کے مطابق شریف اللہ 2016 میں داعش خراسان میں شامل ہوا اور کابل سمیت افغانستان میں کم از کم 21 حملوں میں ملوث ایک بڑی ٹیم کا حصہ تھا اور اس نے تنظیم کے رہنما شہاب المہاجر کے قریبی معاون کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
ذرائع کے مطابق شریف اللہ کو ستمبر 2019 میں افغانستان کے قومی سلامتی ڈائریکٹوریٹ نے گرفتار کیا تھا۔ 15 اگست 2021 کو طالبان کے کابل میں اقتدار سنبھالنے کے دوران وہ جیل سے فرار ہو گیا تھا۔
’بلوچستان سے گرفتاری‘
امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ شریف اللہ کابل ایئرپورٹ پر بم دھماکے کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والے ماسٹر مائنڈز میں سے ایک ہے۔ اس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ أفغانستان میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کی ذیلی شاخ داعش خراسان کا کمانڈر تھا۔
امریکی محکمہ دفاع کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ شریف اللہ کو تقریباً 10 روز قبل سی آئی اے اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی ایک مشترکہ کارروائی میں گرفتار کیا گیا۔
پاکستان کے سکیورٹی ذرائع کے مطابق شریف اللہ کو بلوچستان کے سرحدی علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا۔
ایک سینیئر امریکی اہلکار نے ایگزیو نیوز ویب سائٹ کو بتایا کہ سی آئی اے گذشتہ کچھ عرصے سے شریف اللہ پر نظر رکھے ہوئے تھی لیکن حال ہی میں اسے اس کی مکمل لوکیشن کے بارے میں اطلاع ملی۔
’سی آئی اے نے یہ معلومات پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو دیں۔ آئی ایس آئی نے پاکستانی فوج کے ایک ایلیٹ یونٹ کو اسے پاکستان افغانستان سرحد کے قریب سے پکڑنے بھیجا۔‘
ایگزیو نیوز ویب سائٹ کو ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ امریکہ کو دس دن قبل شریف اللہ کی گرفتاری کے متعلق آگاہ کیا گیا تھا جس کے بعد ریٹکلف اور ایف بی آئی کے سربراہ کشیپ پٹیل نے سی آئی اے ہیڈ کوارٹر سے پاکستانی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سے فون پر بات کی تھی۔
’اس کے بعد سے سی آئی اے، محکمہ انصاف اور ایف بی آئی نے اس کی حوالگی پر مل کر کام کیا، جس میں ریٹکلف، پٹیل اور اٹارنی جنرل پام بوندی ذاتی طور پر شامل تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی سی آئی اے ڈائریکٹر جان ریٹکلف کو ہدایت دی تھی کہ وہ ایبی گیٹ دہشتگردی میں ملوث عناصر کو پکڑنا اپنی ترجیح بنائیں، سی آئی اے ڈائریکٹر نے عہدہ سنبھالنے کے دوسرے ہی روز پاکستان میں سینیئر حکام کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا تھا اور پھر فروری میں میونخ سکیورٹی کانفرنس میں بھی پاکستان کے ایک اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار کےساتھ اس معاملے پر بات کی تھی۔
کابل ایئرپورٹ حملہ، داعش ماسٹر مائنڈ اور خفیہ آپریشن: صدر ٹرمپ نے ’پاکستان حکومت کا شکریہ‘ کیوں ادا کیا اور یہ کیوں اہم ہے؟’تین روز سے سن رہے تھے کہ ایئرپورٹ پر دھماکے کا خطرہ ہے اور پھر وہی ہو گیا‘’وہ شہر جس سے مجھے محبت تھی اب وہاں کچھ محفوظ نہیں تھا‘کابل ہوائی اڈے پر دہشت گردی، طالبان کو بدنام کرنے کی کوشش؟’حملہ آور کے لیے ہوائی اڈے کے قریب راستے کی تلاش میں مدد‘
امریکی محکمۂ انصاف کے حکام کے مطابق دو مارچ 2025 کو شریف اللہ پر ایک نامزد غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کو مادی مدد اور وسائل فراہم کرنے اور ہلاکت خیز سازش کے الزامات عائد کیے گئے اور انھیں پانچ مارچ 2025 کو ورجینیا میں عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ دو مارچ 2025 کو ایف بی آئی کے نمائندوں کو دیے گئے انٹرویو میں شریف اللہ نے ایبی گیٹ حملے کی تیاری میں مدد دینے کا اعتراف کیا، جس میں حملہ آور کے لیے ہوائی اڈے کے قریب راستے کی تلاش کا عمل بھی شامل تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ شریف اللہ نے خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور امریکی یا طالبان کی چوکیوں پر نظر رکھی اور اس کے بعد داعش کے دیگر اراکین کو بتایا کہ اس کا خیال ہے کہ راستہ صاف ہے اور حملہ آور کی نشاندہی نہیں ہو سکے گی۔
محکمۂ انصاف کا یہ بھی کہنا ہے کہ شریف اللہ نے عبدالرحمان ال لوگاری کو داعش خراسان کے ایک کارندے کے طور پر شناخت بھی کیا اور اعتراف کیا کہ وہ اسے پہلے سے جانتا تھا۔
خیال رہے کہ ال لوگاری ہی وہ خودکش حملہ آور تھا جس نے ایبی گیٹ پر خودکش بم حملہ کیا جس میں 13 امریکی فوجی اور 160 کے قریب شہری ہلاک ہوئے تھے۔
محکمۂ انصاف کے مطابق ایف بی آئی کو دیے گئے انٹرویو کے دوران شریف اللہ نے متعدد دیگر حملوں میں داعش خراسان کی جانب سے معاونت کا اعتراف بھی کیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ شریف اللہ نے 20 جون 2016 کو ہونے والے ایک خودکش حملے سے قبل حملہ آور کو تیار کرنے کے عمل کی بھی نگرانی کی اور بعد میں حملہ آور کو ہدف کے قریب پہنچایا۔
امریکی حکام نے بیان میں شریف اللہ کا تعلق مارچ 2024 میں روس کے دارالحکومت ماسکو کے قریب ہونے والے کروکس سٹی ہال حملے سے بھی جوڑا۔
امریکی محکمۂ انصاف کے مطابق ایف بی آئی کے ساتھ اپنے انٹرویو کے دوران، شریف اللہ نے اعتراف کیا کہ داعش خراسان کی جانب سے، اس نے ممکنہ حملہ آوروں کو کلاشنکوف طرز کی بندوقوں اور دیگر ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں ہدایات دی تھیں۔
شریف اللہ نے اس حملے کے الزام میں گرفتار چار حملہ آوروں میں سے دو کو پہچاننے کا اعتراف بھی کیا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ الزامات ثابت ہونے پر شریف اللہ کو زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
کابل ایئرپورٹ حملے کو ’حکمت عملی کی سطح پر روکے جانا ممکن نہیں تھا‘
15 اپریل 2024 کو امریکہ کے محکمہ دفاع کی ویب سائٹ پر کابل کے حامد کرزئی ایئرپورٹ پر ہوئے خودکش حملے سے متعلق ایک رپورٹ بعنوان ’کابل ایئرپورٹ پر حملے سے متعلق ریویو (جائزے) میں ابتدائی نتائج کی تصدیق اور حملہ آور کی شناخت‘ شائع کی تھی۔
یہ ریویو ستمبر 2023 میں یو ایس آرمی سینٹرل کمانڈ کے احکامات پر کیا گیا تھا اور اس ضمنی جائزے کے نتائج سے معلوم ہوا تھا کہ یہ حملہ اکیلے خودکش بمبار نے کیا تھا اور حکمت عملی کی سطح پر اسے روکے جانا ممکن نہیں تھا۔
ضمنی جائزے میں بتایا گیا تھا کہ ’انٹیلیجنس کمیونٹی کو دستیاب معلومات تک رسائی کے بعد ہم کابل ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والے خودکش بمبار کی شناخت عبدالرحمن ال لوگاری کے طور پر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ال لوگاری 2016 سے نام نہاد دولت اسلامیہ (خراسان) کا رُکن تھا۔‘
اس جائزے سے منسلک ایک افسر نے بتایا کہ ال لوگاری دولت اسلامیہ خراسان کے اُن ہزاروں مقید کارکنوں میں سے ایک تھا جنھیں اگست 2021 میں برسراقتدار آنے کے بعد طالبان نے رہائی دی تھی۔
اسی اہلکار نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ال لوگاری رہا ہوتا یا نہ ہوتا، اس سے قطع نظر دولت اسلامیہ پھر بھی حملہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی کیونکہ اس دہشت گرد تنظیم کے پاس پہلے سے ہی متعدد خودکش بمبار دستیاب تھے۔ ’یہ اُس نتیجے کی تائید کرتا ہے کہ کابل ایئرپورٹ پر حملہ حکمت عملی کی سطح پر روکا نہیں جا سکتا تھا۔‘
یاد رہے کہ کابل ایئرپورٹ پر حملے سے متعلق تفتیش سنہ 2022 میں مکمل ہوئی تھی۔ اور اس تفتیش کا ضمنی جائزہ لینے والی ٹیم نے ایک متنازع موضوع پر بھی توجہ دی اور وہ یہ تھی کہ حملے کی صبح امریکی میرین سنائپرز (نشانہ باز) نے مثبت طور پر کسی ایسے فرد کی شناخت کی تھی یا نہیں جو کابل ایئرپورٹ پر موجود انخلا کے منتظر شہریوں سے کچھ الگ دکھائی دے رہا تھا۔
اس الگ دکھائی دینے والے شخص کو رپورٹ میں ’بالڈ مین اِن بلیک‘ یعنی (کالے کپڑوں میں ملبوس گنجا شخص) کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے۔ سوال یہ تھا کہ کیا یہ الگ دکھائی دینے والا شخص 'خطرے کے طور پر نامزد' ہونے کے لائق تھا۔
تاہم ضمنی جائزے میں پتا چلا کہ اس روز ایئرپورٹ پر موجود بٹالین کمانڈر نے ’رولز آف انگیجمنٹ' کے تحت اس درخواست کا باقاعدہ جائزہ لیا۔ 'بٹالین کمانڈر نے یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے ٹھوس فوجی فیصلے کا استعمال کیا کہ 'بالڈ مین اِن بلیک'ایک قانونی فوجی ہدف نہیں تھا۔ اس واقعات کے نتیجے میں یہ کہنا کہ بٹالین کمانڈر صورتحال کا صحیح ادراک نہیں کر پائے درست نہیں اور اس کی تصدیق دستیاب ثبوتوں سے نہیں ہوتی۔‘
’یہ واضح ہے کہ (بٹالین کمانڈر) نے سنائپرز کو 'بالڈ مین اِن بلیک' کو انگیج کرنے کی منظوری نہیں دی۔ اور یہ واضح تھا کہ اس فیصلے کو مانا گیا تھا۔‘
ضمنی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ ’اِس بات کا امکان بہت کم تھا کہ ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والے اصل حملہ آور عبدالرحمان الوگاری کو اس کی جانب سے خودکش حملہ کرنے سے قبل شناخت کر لیا جاتا۔‘
’ٹائم لائن اور ایئرپورٹ پر موجود ہجوم کی تعداد کو دیکھتے ہوئے حملے سے قبل حملہ آور کی شناخت ناممکن تھی۔‘ ٹیم کے ایک ممبر نے کہا کہ ’سروس ممبران یعنی اہلکار حملے کے دن اپنے فرائض کو لے کر چوکس تھے، اس حقیقت کے باوجود کہ اس وقت دستیاب انٹیلیجنس کے پاس اس نوعیت کے ڈیٹا کی کمی تھی جسے عبدالرحمان کی بروقت شناخت کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔‘
اُسی اہلکار نے مزید کہا کہ ’انٹیلیجنس اداروں نے فیشل ریکیگنیشن کا استعمال کرتے ہوئے عبدالرحمان الوگاری کی تصویر کا موازنہ ’بالڈ مین اِن بلیک‘ سے کیا اور اس کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ یہ الگ الگ تصاویر ایک ہی فرد کی نہیں تھیں۔
کابل ڈائری: ’اگر دھماکہ خیز مواد گاڑی میں تھا، تو پھر وہ پھٹا کیوں نہیں‘کابل کی شاہراؤں سے اٹھتا تعفن اور سناٹے میں غیر یقینی کی کیفیتصدر ٹرمپ نے پاکستان کا ذکر کب کب اور کہاں کہاں کیا؟کابل ایئرپورٹ حملہ، داعش ماسٹر مائنڈ اور خفیہ آپریشن: صدر ٹرمپ نے ’پاکستان حکومت کا شکریہ‘ کیوں ادا کیا اور یہ کیوں اہم ہے؟کابل ہوائی اڈے پر دہشت گردی، طالبان کو بدنام کرنے کی کوشش؟