وہ نئے شواہد جو ’کزن کے درمیان شادیوں‘ پر پابندی کے مطالبے کی وجہ بن رہے ہیں

بی بی سی اردو  |  Mar 06, 2025

BBC

بریڈ فورڈ کے اس گھر میں، تین بہنیں پرجوش انداز میں باتیں کر رہی ہیں کیونکہ آج ان کے لیے ایک اہم دن ہے۔ کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھی ایک بیوٹیشن ان کا میک اپ کر رہی ہے اور بال سنوار رہی ہے۔ یہاں کا ماحول خوشی اورہنسی سے بھرپور ہے۔ یہ جین آسٹن کے ناول کے ایک منظر کی طرح محسوس ہوتا ہے کیونکہ آسٹن کے کئی ناولوں کی طرح بات چیت کا موضوع بھی شادی ہے۔

یہ بہنیں اپنے خاندان میں ہونے والی شادی کی تیاری کر رہی ہیں جس میں دولہا اور دلہن فرسٹ کزن ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ غیرمعمولی بات ہو سکتی ہے، لیکن ان کے خاندان اور بریڈ فورڈ کے کچھ علاقوں میں، یہ کافی عام ہے۔

ان بہنوں میں سب سے بڑی بہن 29 سالہ عائشہ نے بھی 2017 میں اپنے فرسٹ کزن سے شادی کی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ اب ان کے دو بچے ہیں اور ان کی شادی شدہ زندگی خوش گوار ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے کزن سے شادی کرنا ان کے لیے ایک عام سی بات تھی۔ ان کی والدہ جو پاکستان سے برطانیہ آئی تھیں، نے فرض کیا کہ ان کی تینوں بیٹیاں ایسا ہی کریں گی۔

لیکن 26 سالہ سلینا نے، جو تینوں میں سب سے چھوٹی ہیں، ہمیں بتایا کہ اس نے خاندان کے باہر سے اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کر کے اس سانچے کو توڑ دیا۔ سلینا کے مطابق اپنے کزن سے شادی کرنا انھیں پسند نہیں تھا۔ اس کے بعد ملیکہ ہیں، جو 27 سال کی عمر میں ابھی تک غیرشادی شدہ ہیں اور خاندان میں شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر چکی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی ماں سے کہا تھا کہ میں اپنی بہنوں کے ایسے فیصلے (کزن میرج) پر بات نہیں کروں گی لیکن میں خود ایسا نہیں کروں گی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ تعلیم نے ان کے لیے مواقع پیدا کیے ہیں۔ ’پہلے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہوں بھی تو آپ سے اسے کام میں لانے کی توقع نہیں کی جاتی تھی اور آپ شادی کے بارے میں سوچ رہے ہوتے تھے۔ اب ذہنیت بہت مختلف ہے۔‘

پریشان کن اعدادوشمار

برطانیہ اور پورے یورپ میں، کزنز کی شادی کے معاملات پر اب زیادہ گہری نظر رکھی رہی ہے- خاص طور پر ڈاکٹروں کی طرف سے، جو خبردار کرتے ہیں کہ فرسٹ کزنز کے بچوں کو صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اور اب اس صورتحال میں بریڈ فورڈ سے کچھ نیا، ممکنہ طور پر پریشان کن ڈیٹا بھی سامنے آیا ہے۔

بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے شہر میں پیدا ہونے والے افراد کے مطالعے کا عمل 18ویں سال میں داخل ہو رہا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کے سب سے بڑی طبی تجزیوں میں سے ایک ہے: 2007 اور 2010 کے درمیان، محققین نے شہر میں 13 ہزار سے زیادہ بچوں کو چنا اور پھر بچپن سے لے کر نوجوانی تک اور اب جوانی میں ان کا قریب سے مشاہدہ کیا۔

اس تحقیق میں چھ میں سے ایک سے زیادہ بچوں کے والدین ایسے ہیں جو فرسٹ کزن ہیں، زیادہ تر بریڈ فورڈ کی پاکستانی کمیونٹی سے ہیں اور یہ کزنز کی آپس میں شادی کے صحت پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں دنیا کے اہم مطالعے میں سے ایک ہے۔

اور پچھلے چند ماہ میں شائع ہونے والے اعداد وشمار سے محققین کو علم ہوا کہ کزنز کی شادی کے ماضی کے اندازوں سے کہیں زیادہ وسیع نتائج ہو سکتے ہیں۔

سب سے واضح طریقہ جس سے ایسے والدین کے بچے کے لیے صحت کے خطرات بڑھ سکتے ہیں، سسٹک فائبروسس یا سکل سیل کی بیماری جیسے ’ریسیسو‘ یا اضطرابی عارضے ہیں۔

ماہر حیاتیات گریگور مینڈل کے پیش کردہ جینیات کے کلاسیکی نظریے کے مطابق، اگر دونوں والدین ایک متروک جین رکھتے ہیں تو25 فیصد امکان ہے کہ ان کے بچے کو یہ وراثت میں ملے گا اور جب والدین کزن ہوتے ہیں، تو ان دونوں کے کریئر ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے سو عام آبادی کے لیے تین فیصد کے مقابلے میں فرسٹ کزنز کے بچے کو وراثت میں عارضہ ملنے کا چھ فیصد امکان ہوتا ہے۔

لیکن بریڈ فورڈ میں ہونے والی تحقیق میں محققین صرف اس بات کو نہیں دیکھ رہے تھے کہ آیا کسی بچے کو کسی مخصوص اضطرابی عارضے کی تشخیص ہوئی ہے۔ اس کے بجائے انھوں نے درجنوں ڈیٹا پوائنٹس کا مطالعہ کیا، بچوں کی تقریر اور زبان کی نشوونما سے لے کر ان کی صحت کی دیکھ بھال کی فریکوئنسی سے لے کر سکول میں ان کی کارکردگی تک ہر چیز کا مشاہدہ کیا۔

پھر انھوں نے غربت اور والدین کی تعلیم کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کرنے کے لیے ایک ریاضیاتی ماڈل کا استعمال کیا تاکہ صرف ’کونسینجیونٹی‘ یعنی آپس میں رشتہ دار والدین کی وجہ سے پڑنے والے اثرات پر پوری توجہ مرکوز کی جا سکے۔

محققین کو علم ہوا کہ غربت جیسے عوامل پر قابو پانے کے بعد بھی، بریڈ فورڈ میں فرسٹ کزنز کے بچے میں بولنے کی صلاحیت اور زبان کے مسائلسامنے آنے کا 11 فیصد امکان تھا جبکہ اس کے مقابلے میں ان بچوں کے لیے یہ شرح سات فیصد تھی جن کے والدین کا کوئی آپسی خاندانی تعلق نہیں ہے۔

انھیں یہ بھی پتا چلا کہ فرسٹ کزنز کے بچے کے پاس ’بڑھوتری کے اچھے مرحلے‘ (انگلینڈ میں تمام پانچ سال کی عمر کے بچوں کے لیے ایک حکومتی پیمانہ) تک پہنچنے کے امکانات 54 فیصد ہوتے ہیں جبکہ ایسے بچوں کے لیے جن کے والدین آپس میں تعلق نہیں رکھتے، یہ امکانات 64 فیصد ہیں۔

ہمیں ایسے بچوں کے ڈاکٹروں سے رجوع کرنے کی تعداد کے ذریعے ان کی خراب صحت کے بارے میں مزید معلومات ملتی ہیں۔ فرسٹ کزنز کے بچوں کو ان بچوں کے مقابلے میں 33 فیصد زیادہ ڈاکٹروں کے پاس لے جایا گیا، جن کے والدین آپس میں تعلق نہیں رکھتے ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک بار جب آپ اس گروپ کے بچوں کا جائزہ لیں جنھیں پہلے سے ہی ایک تشخیصی عارضہ ہے، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہم آہنگی ان بچوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے جن میں تشخیصی عارضہ نہیں ہے۔

یونیورسٹی آف بریڈ فورڈ کے ایمریٹس پروفیسر اور اس تحقیق کے مصنف نیل سمال کا کہنا ہے کہ یہ مطالعہ ’اہم ہے۔‘

کزنز کے درمیان شادیاں: ’میرے بچوں کے ہاتھوں پر سوئیوں کے سینکڑوں نشان ہیں‘کزن سے شادی کرنے کے جینیاتی مسائل: حقیقت کیا ہے اور فسانہ کیا’مما کیا آپ کے پیٹ میں گیند ہے؟‘ سیکس سے متعلق بچوں کے سوالات کا جواب کیسے دیا جائےکم عمری میں ہی بال سفید کیوں ہو جاتے ہیں اور اس کا علاج کیا ہے؟خدشات

تاہم یقیناً یہ صرف ایک مطالعہ ہے، اور بریڈ فورڈ کی آبادی پورے برطانیہ کی نمائندہ نہیں ہے۔

اس کے باوجود، اس نے سائنسدانوں کی تشویش میں اضافہ کیا ہے اور پورے یورپ میں قانون سازوں کی توجہ مبذول کرائی ہے۔

اسکینڈینیویا کے دو ممالک اب کزن کی شادی کو مکمل طور پر غیر قانونی قرار دے چکے ہیں۔ ناروے میں یہ عمل گزشتہ سال غیر قانونی ہو گیا تھا۔ سویڈن میں، پابندی اگلے سال سے نافذ ہو جائے گی۔

PA Mediaجینیات کے کلاسیکی نظریے کے مطابق، اگر دونوں والدین ایک متروک جین رکھتے ہیں تو25 فیصد امکان ہے کہ ان کے بچے کو یہ وراثت میں ملے گا

برطانیہ میں، کنزرویٹو ایم پی رچرڈ ہولڈن نے اس پریکٹس کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے پرائیویٹ ممبرز کا بل پیش کیا ہے، اور اسے غیر قانونی شادیوں (والدین، بچے، بہن بھائیوں اور دادا دادی کے ساتھ) کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔

لیکن لیبر حکومت کا کہنا ہے کہ پابندی لگانے کا ’کوئی منصوبہ نہیں‘ ہے۔ تاہم برطانیہ میں کزن-جوڑے کو بچے پیدا کرنے کے خطرات کے بارے میں تعلیم دی جاتی ہے، اور حمل میں اضافی اسکریننگ کروانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

لیکن ایسے لوگ موجود ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ کزن کی شادی پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔

برطانیہ میں زیادہ تر افراد کے لیے اپنے کزن سے شادی کا تصور اجنبی ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ اتنا غیر معمولی نہیں تھا۔

چارلس ڈارون نے اپنی پہلی کزن ایما ویگ ووڈ سے شادی کی۔ ان کے بیٹے، وکٹورین سائنسدان سر جارج ڈارون نے اندازہ لگایا کہ 19ویں صدی کے برطانیہ میں اشرافیہ میں ہونے والی 20 شادیوں میں سے ایک کزن کے درمیان ہوتی تھی۔ ان میں سے ایک ملکہ وکٹوریہ تھی جنھوں نے اپنے پہلے کزن شہزادہ البرٹ سے شادی کی۔

Getty Imagesجنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والوں میں کزن کی شادیوں کا رواج عام ہے

20ویں صدی تک کزنز کے درمیان شادیوں کا تناسب کم ہو کر تقریباً 1% رہ گیا تھا۔ لیکن یہ جنوبی ایشیا کی کچھ اقلیتوں میں نسبتاً عام رواج ہے۔ دو سال پہلے شائع ہونی والی ایک تحقیق کے مطابق بریڈ فورڈ کے اندرون شہر کے تین وارڈز میں، پاکستانی کمیونٹی کی تقریباً نصف (46%) ماؤں کی شادی فرسٹ یا سیکنڈ کزن سے ہوئی۔

اثرات

دسمبر میں رچرڈ ہولڈن نے پیدائشی نقائص کے خطرے کو اجاگر کیا۔ ٹی وی پر انھوں نے اعداد و شمار کی طرف اشارہ کیا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کزن والدین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہوتی ہے اور دل، دماغ اور گردے کے زیادہ مسائل ہوتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ جب یہ مشق نسلوں تک جاری رہتی ہے تو صحت کے اثرات ’مشترکہ‘ ہوسکتے ہیں۔

پیٹرک نیش، ایک محقق اور فارس فاؤنڈیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے شریک بانی ہیں، بھی کزن کی شادی پر پابندی دیکھنا چاہتے ہیں۔

گزشتہ سال آکسفورڈ جرنل آف لاء اینڈ ریلیجن میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں، نیش نے لکھا تھا کہ پابندی کے نتیجے میں بہتری آئے گی، خاص طور پر ان کمیونٹیز میں جہاں یہ رواج عام ہے۔

Sam Oddieپروفیسر سیم اوڈی

بریڈ فورڈ کے ایک کنسلٹنٹ نیونٹولوجسٹ اور محقق پروفیسر سیم اوڈی نے شہر میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے کام کیااور بہت سے مشاہدات کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ’واضح تھا کہ یہ حالات بریڈ فورڈ میں کسی اور جگہ کے مقابلے میں زیادہ ہو رہے ہیں۔‘

انھوں نے ایسے خاندان دیکھے جنھوں نے ایک کے بعد ایک بچے کو ایک ہی جینیاتی عارضے کی وجہ سے کھو دیا۔

نسل

پروفیسر اوڈی کے خیال میں بریڈ فورڈ میں جینیاتی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ کزن کی شادی نہیں بلکہ ایک ایسا ہی مسئلہ ہے جسے ’اینڈوگیمی‘ کہا جاتا ہے، جس میں لوگ اپنی قریبی برادری کے افراد سے شادی کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک نسلی گروہ میں، لوگوں کے مشترکہ آباؤ اجداد اور جینز کا اشتراک کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے - چاہے وہ فرسٹ کزن ہوں یا نہ ہوں۔

’اینڈوگیمی‘ برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹیز کے لیے منفرد نہیں ہے۔ یہ برطانیہ کی یہودی برادری اور عالمی سطح پر امیش اور فرانسیسی کینیڈین میں بھی ایک مسئلہ ہے۔

پروفیسر اوڈی کا کہنا ہے کہ ’اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خاندانی تعلق کا صحیح پتہ نہیں لگایا جا سکتا، لیکن جین ایک خاص گروپ کے اندر زیادہ عام طور پر پایا جاتا ہے، اور اسی وجہ سے، دونوں والدین متاثرہ جین رکھتے ہیں۔‘

تعلیم کی طاقت

پابندی کے بجائے، وہ تعلیم کی طاقت پر زور دیتے ہیں - یا جسے وہ ’جینیاتی خواندگی‘ کہتے ہیں۔ بریڈ فورڈ میں کئی سالوں سے پاکستانی کمیونٹی کے لوگوں کو جینیاتی خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔ جوڑوں کو ماہرانہ مشورہ دیا جاتا ہے اور حمل کی کلاسوں میں، حاملہ ماؤں کے ساتھ معلومات شیئر کی جاتی ہیں۔

Getty Imagesبریڈ فورڈ میں کئی سالوں سے پاکستانی کمیونٹی کے لوگوں کو جینیاتی خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے ایک مہم چلائی جا رہی ہے

تینوں خواتین، جن کا ہم نے انٹرویو کیا، کے خیالات آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ صحت کے خطرات کے بارے میں بڑھتی ہوئی آگاہی ہے۔

سلینا کہتی ہیں کہ ’میری امی بہت چھوٹی تھیں جب وہ [پاکستان سے برطانیہ] آئیں۔ ان کے کچھ خیالات تھے لیکن وہ بدل گئے کیونکہ وہ ہم سے پیار کرتی ہیں۔ میں نے صرف سمجھایا کہ ’ماں، کزن کی شادی سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘

عائشہ، سب سے بڑی بہن، جو خود کزن سے شادی کر چکی ہیں، نے کہا کہ ان کے دونوں بچوں میں سے کوئی بھی اپنے کزن سے شادی نہیں کرے گا۔

جس وقت ان کی شادی ہوئی، وہ کہتی ہیں ’میں نہیں جانتی تھی۔‘

لیکن اب وہ جینیاتی خطرات سے واقف ہیں۔ ان کے دو میں سے کسی بچے کو جینیاتی بیماری نہیں ہے۔

بریڈ فورڈ میں کم از کم، یہ رجحان عمل زوال پذیر ہے۔ بریڈ فورڈ کے مطالعہ کے مطابق ایسی شادیوں کا تناسب 2000 کی دہائی کے آخر میں 39 فیصد سے کم ہو کر 2010 کی دہائی کے آخر میں 27 فیصد رہ گیا۔

بریڈ فورڈ پراجیکٹ کے چیف تفتیش کار پروفیسر جان رائٹ کے مطابق یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ابھی حال ہی میں ان کی ٹیم نے برطانیہ میں کزن کی شادی کے خطرات کے بارے میں شواہد شائع کیے ہیں۔

’جب ہم نے 10 سال پہلے خاندانوں سے بات کی تو یہ بالکل واضح تھا کہ لوگ خطرات سے آگاہ نہیں تھے لیکن تمام والدین صحت مند بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘

ان کا ماننا ہے کہ ’تعلیم نقطہ آغاز ہے اور ہم نے بریڈ فورڈ میں دکھایا ہے کہ یہ کتنا طاقتور ہے۔‘

جبر

صحت کے خدشات کے علاوہ، ایک اور وجہ ہے کہ کچھ لوگ کزن کی شادی پر پابندی دیکھنا چاہتے ہیں: ’سماجی ہم آہنگی پر اس کا اثر۔‘

یہ وہ چیز ہے جو اسکینڈینیویا میں بڑی حد تک بحث کو آگے بڑھا رہی ہے۔ ناروے میں، جہاں کزن کی شادی پر گزشتہ سال پابندی عائد کی گئی تھی، قانون سازوں کا کہنا تھا کہ یہ رواج جبری شادی سے منسلک ہے۔

ٹونجے ایجیڈیئس کے مطابق، جو ایک صحافی ہیں، ’پولیس کا دعویٰ ہے کہ کزن کی شادی مجرموں کے لیے خاندانوں میں عزت برقرار رکھنا آسان بناتی ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’خاندان کے اندر شادی تشدد اور بدسلوکی کی ایک اہم وجہ ہے۔‘

نارویجن پولیس کی ایک سینئر افسر جیسمینا ہولٹن نے گزشتہ سال ناروے کے نشریاتی ادارے این آر کے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ کزن کی شادی پر مجبور ہونے والی کچھ خواتین مالی انحصار کے باعث پھنس چکی ہیں۔

اسی طرح، سویڈن کے سیکرٹری انصاف گونر سٹرومر نے کہا کہ ان کے اپنے ملک کی کزن کی شادی پر پابندی خواتین کو ’غیرت کے جابرانہ معیار‘ سے آزاد کر دے گی۔

پابندی کے حامی بڑے پیمانے پر کزن کی شادی کو علیحدگی کے ایک آلے کے طور پر دیکھتے ہیں، جو لوگوں کو باقی معاشرے سے الگ کر دیتے ہیں۔ فارس فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے نیش کا کہنا ہے کہ کزن کی شادی پر پابندی بریڈ فورڈ جیسی جگہوں پر نسلی علیحدگی کو کم کرنے میں مدد کرے گی۔

تاہمچند لوگوں کا خیال ہے کہ ایسا کرنے کے لیے پابندی لگانا ضروری نہیں۔

BBCنذیر افضل، سابق چیف کراؤن پراسیکیوٹر برائے نارتھ ویسٹ انگلینڈ، کا کہنا ہے کہ 'سوچی سمجھی قانون سازی ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرے گی جو کزن سے شادی کرنے پر مجبور ہیں'

نذیر افضل، سابق چیف کراؤن پراسیکیوٹر برائے نارتھ ویسٹ انگلینڈ، کا کہنا ہے کہ ’سوچی سمجھی قانون سازی ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرے گی جو کزن سے شادی کرنے پر مجبور ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں ثقافتی تنوع اور ذاتی پسند کا احترام کرنا چاہیے۔ کزن میرج دنیا کے بہت سے حصوں میں ایک اہم ثقافتی عمل ہے، اور قانون سازی کو ان سماجی اور خاندانی اقدار کے لیے حساس ہونا چاہیے۔‘

وہ تجویز دیتے ہیں کہ حکومتیں ایسی شادی کرنے والے جوڑوں کی تعلیم اور جینیاتی جانچ کو بڑھانے کے بارے میں سوچیں ناکہ مکمل پابندی لگائیں۔

تقسیم

کرما نروانا، ایک خیراتی ادارہ جو غیرت پر مبنی بدسلوکی کو ختم کرنے کے لیے کام کرتا ہے، نے کزن کی شادی پر پابندی لگانے کی کوشش کو ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ، نفرت کو بھڑکانے اور برادریوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کا ایک آلہ‘ قرار دیا۔

رچرڈ ہولڈن کا بل ہاؤس آف کامنز میں انتظار کر رہا ہے۔ حکومتی تعاون کے بغیر اس کے پاس ہونے کا کبھی امکان نہیں تھا لیکن سکینڈینیویا میں ایسی ہی پابندی کے بعد اس معاملے پر بات ہو رہی ہے۔

بریڈ فورڈ کے گھر میں عائشہ، جو کزن میرج میں ہیں، اپنے دہائیوں پر محیط تعلق کے بارے میں سوچ کر کہتی ہیں کہہم نے بہت قربانیاں دی ہیں لیکن ہم ایک ساتھ خوش ہیں۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ محبت کی شادیوں میں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ صرف مختلف ہوں گی۔‘

کم عمری میں ہی بال سفید کیوں ہو جاتے ہیں اور اس کا علاج کیا ہے؟’مما کیا آپ کے پیٹ میں گیند ہے؟‘ سیکس سے متعلق بچوں کے سوالات کا جواب کیسے دیا جائےکزن سے شادی کرنے کے جینیاتی مسائل: حقیقت کیا ہے اور فسانہ کیاکزنز کے درمیان شادیاں: ’میرے بچوں کے ہاتھوں پر سوئیوں کے سینکڑوں نشان ہیں‘بچوں کے ذہن پر پورن دیکھنے کے منفی اثرات: ’13 برس کی عمر تک میں پورن کے ساتھ ساتھ خود لذتی کے عمل سے آشنا ہو چکی تھی‘کیا مردوں کو بھی ماہواری ہوتی ہے؟ ’اریٹیبل مین سنڈروم‘ کیا ہے اور اِس کا سیکس لائف سے کیا تعلق ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More