ہندو تاجروں کے قتل میں ملوث ڈاکوؤں کی ہلاکت کے بعد لاڑکانہ میں زندگی کی رونق لوٹ آئی

اردو نیوز  |  Mar 06, 2025

صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں زندگی کی رونق لوٹ آئی ہے۔ دکانوں کے باہر کھانے پینے کے سٹالز اور چائے کے کھوکھوں، ہوٹلوں کی میزوں اور پان کی دکانوں پر لوگ ایک بار پھر بڑی تعداد میں نظر آنے لگے ہیں۔

چہروں سے اب پریشانی عیاں نہیں ہو رہی مگر باتوں کا موضوع اب بھی خوف اور بے یقینی ہی ہے۔ ہر دوسری میز پر ایک ہی موضوع زیر بحث ہے اور وہ گزشتہ رات ہونے والا پولیس مقابلہ ہے۔

مقامی پولیس کے مطابق نوڈیرو کے بائی پاس کے قریب ہونے والے اس مبینہ پولیس مقابلے میں جلبانی گینگ کے دو ڈاکو ہلاک ہوئے جبکہ اِن کے چار ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے ڈاکو ہندو دکان دار سنتوش کمار اور سنجے کمار کے قتل میں ملوث تھے اور انہوں نے رونق کمار پر بھی حملہ کیا تھا۔

ان واقعات کے بعد لاڑکانہ کے تاجروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ 29 جنوری کو ڈاکوؤں نے مزاحمت پر فائرنگ کرکے ہندو تاجر سنیل کمار کو قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد 13 فروری کو تاجر سنجے کمار پر حملہ کیا گیا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے۔ ان واقعات کے بعد تاجروں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا اور بازاروں کی رونق ماند پڑ گئی تھی۔

یہ شہر صرف سندھ کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سیاست کا بھی ایک اہم اور نمایاں مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے ملک کے دو وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو منختب ہوئے اور پیپلز پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاڑکانہ کو قومی سیاست میں ہمیشہ خاص اہمیت حاصل رہی ہے مگر حالیہ ہفتوں میں یہ شہر اپنے سیاسی پس منظر کی بجائے  ڈکیتی کی وارداتوں اور تاجروں پر حملوں کی خبروں کے باعث شہ سرخیوں میں رہا ہے۔

گذشتہ رات کے پولیس مقابلے کے بعد تاجروں اور شہریوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ تاہم فرار ہونے والے ڈاکوؤں کی موجودگی اب بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیا خطرہ واقعتاً ٹل چکا ہے یا یہ محض وقتی سکون ہے؟ بازار میں موجود شہری امید اور خدشات کے درمیان جھولتے ہوئے اسی موضوع پر تبصرہ کر رہے ہیں۔

ضلعی انتظامیہ لاڑکانہ کا کہنا ہے کہ وارداتوں میں ملوث گروہوں کے خلاف کارروائی جاری ہے، اور شہر میں پولیس و رینجرز کی اضافی نفری تعینات کی جا چکی ہے۔ صورت حال مکمل کنٹرول میں ہے، شہریوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ حکومت روزانہ کی بنیاد پر سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لے رہی ہے۔

دوسری طرف ان وارداتوں کے بعد لاڑکانہ کے بازاروں میں پھیلنے والے خوف نے مقامی تاجروں کو تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اب بھی غیر یقینی میں مبتلا ہیں اور دوسری جانب وہ لوگ جو معاملات بہتر ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

لاڑکانہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر ہریش لال ان لوگوں میں شامل ہیں جو حالیہ اقدامات سے مطمئن نظر آتے ہیں۔

انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے حکام سے بارہا ملاقاتیں کی ہیں اور اب حالات میں واضح بہتری آ رہی ہے۔ سکیورٹی ادارے متحرک ہیں اور خطرات میں کمی آئی ہے۔ یہ وقت اعتماد بحال کرنے کا ہے تاکہ شہر کی معیشت دوبارہ سنبھل سکے۔‘

اس کے باوجود مقامی صحافیوں اور سکیورٹی ذرائع کا ماننا ہے کہ لاڑکانہ اور اس کے گردونواح میں جرائم پیشہ گروہوں کی جڑیں گہری ہیں۔ جلبانی، اوڈھو اور بروہی برادریوں سے تعلق رکھنے والے کئی مسلح گروہ نہ صرف ڈکیتیوں میں ملوث ہیں بلکہ ان کا اثر و رسوخ دیہی علاقوں میں بھی قائم ہیں، جہاں سے مدد اور اسلحہ ملتا ہے۔

کچھ تاجر اب بھی ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ حالیہ وارداتیں صرف لوٹ مار تک محدود نہیں تھیں بلکہ ان کا مقصد ایک مخصوص کمیونٹی کو خوفزدہ کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ سنیل کمار، سنجے کمار اور رونق کمار پر حملوں کے بعد یہ سوال اُٹھا کہ کہیں صرف ہندو برادری کے تاجروں کو نشانہ تو نہیں بنایا جا رہا؟

پولیس حکام ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تفتیش کے مطابق ان وارداتوں کا مقصد صرف ڈکیتی کرنا ہی تھا، اور ان میں مذہبی یا لسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کرنے کے شواہد نہیں ملے۔

لاڑکانہ کے بازار میں مگر آج بھی گفتگو کرتے ہوئے کئی لوگ یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ ایک دکان دار نے دھیمی لہجے میں کہا کہ جب تک ڈکیتوں کے یہ گروہ موجود ہے، سکون کا سانس لینا مشکل ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More