BBCتھر میں زیر کاشت زمین کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ جانوروں کی چراگاہیں بھی متاثر ہو رہی ہیں
خان محمد نے پہلے سے نم زمین کو کھودنا شروع کیا تو زمین کے ایک فٹ ہی سے پانی نکلنا شروع ہو گیا اور جلد ہی یہ گڑھا پانی سے بھر گیا۔ گڑھے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے خان محمد نے بتایا کہ چند سال پہلے تک یہاں زیر زمین پانی 45 سے 50 فٹ نیچے تھا۔
خان محمد سندھ کے گوڑانو گاؤں کے رہائشی ہیں اور اُن کی زمین اُس ڈیم سے تقریباً 500 میٹر کے فاصلے پر ہے جہاں تھر سے کوئلہ نکالنے والی کمپنی ’اینگرو تھر کول‘ نکاسی آب کر رہی ہے۔
پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں کوئلہ سرنگ لگا کر حاصل کیا جاتا ہے مگر اِس کے برعکس ’کالے سونے‘ کی دولت سے مالا مال تھر کے علاقے میں کوئلہ زیرِ زمین موجود ہے اور اس کوئلے تک رسائی کے لیے زیر زمین پانی ایک رکاوٹ ہوتا ہے جو زمین پر موجود ریت اور زیر زمین کوئلے کے ذخائر کے درمیان موجود ہے۔
BBCپاکستان کے پہاڑی علاقوں کے برعکس تھر میں کوئلہ زمین کے نیچے ہے
جو کمپنیاں تھر سے کوئلہ نکالتی ہیں اُن کے لیے بڑا مسئلہ اس زیر زمین پانی کی نکاسی ہے جس کے بعد وہ باآسانی کوئلے تک پہنچ جاتے ہیں۔
گوڑانو گاؤں میں اینگرو تھر کول کمپنی کوئلہ نکالتی ہے اور اس عمل کے دوران وہ زیر زمین پانی کی نکاسی ایک ایسے علاقے میں کر رہے ہیں جو کول ایریا میں نہیں آتا تھا۔
اس علاقے کے چاروں اطراف بلند ٹیلے ہیں چنانچہ اس جگہ پر ڈیم بنا دیا گیا ہے جہاں کوئلے کی کان کنی کے دوران نکالا جانے والے پانی کی نکاسی کی جاتی ہے۔
مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ اِس علاقے کو ڈیم میں بدلنے سے قبل یہاں پانچ ہزار ایکڑ سے زائد اراضی پر لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے۔
BBCمقامی افراد کے مطابق ڈیم بننے سے قبل یہاں پانچ ہزار ایکڑ سے زائد اراضی پر لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے
جب گوڑانو میں نکاسی آب کی غرض سے یہ ڈیم بنایا جا رہا تھا تو اُس وقت مقامی افراد نے اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا تھا جبکہ سندھ کے شہر اسلام کوٹ سے لے کر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تک مارچ بھی کیا گیا اور عدالتوں سے بھی رجوع کیا۔ تاہم مقامی افراد کے مطابق انھیں کسی بھی فورم سے ریلیف نہیں ملا۔
خان محمد نے بتایا کہ اُن کی کچھ زیر کاشت زمین تو اِس ڈیم کے ایریا میں آ گئی اور اب کمپنی کی جانب سے نکاس کیا جانے والا پانی رساؤ کرکے مزید آگے آ گیا ہے اور اُن کی گاؤں کی زمینوں تک پہنچ گیا ہے۔
BBCخان محمد: پہلے یہاں پانی 45، 50 فٹ کی گہرائی پر تھا اب ایک فٹ کے بعد پانی نکل آتا ہے اور زمین کاشتکاری کے قابل نہیں رہی
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ پانی انتہائی کھارا ہوتا ہے جس سے کاشتکاری کے قابل زمین بھی خراب ہو گئی ہے اور اس میں کوئی چیز نہیں اُگتی۔‘
خان محمد کا کہنا ہے کہ چند سال پہلے تک وہ اس زمین میں گندم، باجرا، گوار اور مونگ کی فصلیں کاشت کرتے تھے۔
گوڑانو گاؤں میں بی بی سی نے کچھ ایسے مکانات بھی دیکھے جن کی دیواروں سیم کے باعث خراب ہو چکی ہیں۔ اس صحرائی علاقے میں بارش کا سیزن ہر سال جون اور جولائی کے مہینوں میں ہوتا ہے۔ مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ زیر زمین پانی کی وجہ سے سیم اب ان کے مکانوں کو نگل رہی ہے۔
اس گاؤں میں پینے کے پانی کی فراہمی کا بڑا ذریعہ یہاں موجود درجنوں کنویں تھے۔ مگراس صورتحال کے باعث اگرچہ یہاں موجود کنوؤں میں پانی کی سطح بہت بلند ہو چکی ہے مگر وہ میٹھے نہیں رہے اور اُن کا ذائقہ بھی شدید کڑوا ہے جو پینے کے لائق نہیں ہے۔
بی بی سی نے جب یہاں موجود ایک ہینڈ پمپ (نلکے) سے ملنے والی پانی کے چند گھونٹ پیے تو اس کا ذائقہ سمندر کے کھارے پانی جیسا تھا۔
سندھ اینگروکمپنی نے یہاں پانی کو صاف کرنے کی غرض سے ’آر او‘ پلانٹس لگائے ہیں جن سے یومیہ 45 منٹ کے لیے پانی مہیا کیا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس پانی سے اُن کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں اور انھیں کپڑوں کو دھونے، نہانے اور دیگر اہم ضروریات کے لیے کھارا پانی استعمال کرنا پڑتا ہے۔
ہماری وہاں موجودگی کے دوران ہی آر او پلانٹس کے ذریعے پانی کی فراہمی کا وقت ہو گیا اور پانی کی ٹنکیوں کے گرد خواتین اور بچے نیلے اور سفید رنگ کے کین لے کر جمع ہو گئے۔
BBC
اُن میں اس گاؤں کی رہائشی خاتون سیتا بائی بھی تھیں۔
انھوں نے ہمیں بتایا کہ گوڑانو گاؤں میں ماضی میں میٹھے پانی کے سو ذخائر ہوتے تھے۔ ’پانی کی فراوانی تھی، جب چاہتے اور جتنا چاہتے پانی حاصل کرتے۔ وقت اور مقدار کی کوئی قید نہیں تھی۔‘
’اب ہمیں یہ ایک ٹنکی ملی ہے جس سے صرف پینے کا پانی دستیاب ہے۔ باقی نہانے، کپڑے دھونے اور کھانا بنانے کے لیے ہم وہی کھارا پانی استعمال کرتے ہیں۔ سارا دن آنکھیں اس ٹنکی پر جمی رہتی ہیں کہ کب پانی آئے گا اور ہمکب پانی بھریں گے۔ کبھی دو تو کبھی چار کین مل جاتے تھے۔ کوئی اگر ہم سے پہلے پانی بھر لے تو ہمارے لیے نہیں بچتا، یہاں ہر گھر 10 سے 12 افراد کے کنبوں پر مشتمل ہے، اب اُن کے لیے پانی کیسے ہو؟‘
BBCسیتا بائی: ’پہلے یہاں میٹھے پانی کے سو ذخیرے تھے‘
اینگرو کے پاور پلانٹ کی کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی یعنی ’سی ایس آر تھر فاؤنڈیشن‘ کے جی ایم فرحان انصاری نے بتایا کہ ’ڈیڑھ کلومیٹر کے علاقے میں کان کنی چل رہی ہے۔ وہاں سے پانی نکالا جا رہا ہے جس میں سے آدھا پانی گوڑانو گاؤں کی طرف روانہ کرتے ہیں اور باقی پانی پلانٹ میں ہی استعمال ہوتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’گوڑانو گاؤں میں ان کی کپمنی کی جانب سے لگائے گئے پانچ آر او پلانٹ چل رہے ہیں۔ جس جس محلے میں پانی جا رہا ہے وہاں میٹر لگائے ہوئے ہیں، اگر کہیں رکاوٹ آ جائے تو علاقہ مکینوں کو ٹینکر کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر علاقوں میں 10 مزید آر او پلانٹس لگائے جائیں گے۔‘
اینگرو کے زیر استعمال کوئلے کی کانوں سے سالانہ ساڑھے سات ملین ٹن سے زیادہ کوئلہ نکالا جا رہا ہے، اس کوئلے کی مدد سے یہاں لگائے گئے تین پاور پلانٹ کُل 1320 میگاواٹ بجلی بناتے ہیں اور حکام کےمطابق یہاں سات سے آٹھ ہزار لوگ کام کرتے ہیں۔
جب ہم اینگرو کے پلانٹ پر پہنچے تو کئی لوگ نوکری کی درخواستیں لیے اپنی قسمت آزمانے آئے ہوئے تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگ عرصہ دراز سے نوکری کے حصول کے لیے یہاں کے چکر لگا رہے ہیں۔
BBCاینگرو پاور پلانٹ
ثنااللہ نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ یہاں موجود تمام افراد مقامی ہیں۔ ’ہم روزانہ آتے ہیں لیکن ملازمت دو، چار افراد کو ملتی ہے، باقی کو جواب دے دیا جاتا ہے۔‘
فرحان انصاریکے مطابق یہاں کافی چیزیں چینی کمپنیوں نے آؤٹ سورس کی ہوئی ہیں، مستقل ملازم کم ہیں مگر اس کے باوجود ملازمین کی اکثریت مقامی تھری لوگوں پر مشتمل ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’جب چینی کمپنیاں یہاں آئیں تو انھوں نے پوچھا کہ اتنے ویلڈر، پلمبر، ڈرائیور وغیرہ درکار ہوں گے۔ یہ سب ہنرمند کہاں سے آئیں گے۔ میں انھیں کہتا تھا کہ تھر میں اچھے باورچی اور ڈرائیور ہی مل سکتے ہیں، اس کے بعد ہم نے یہاں کے لوگوں کی تربیت شروع کی۔ مقصد یہ تھا کہ ان لوگوں کو وہ ہنر دیں جو پاور پلانٹ اور کوئلے کی کان کنی کے لیے درکار ہے۔‘
’تھر کی ہوا، آدمی کو عاشق بنا دیتی ہے‘ہائبرڈ نظام کی معاشی شکل اور فوج کا کردار: زراعت اور سیاحت سے متعلق ’ایس آئی ایف سی‘ کے منصوبوں پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟مارگلہ کے دو دیہات کی زمین پاکستانی فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے مطلوب: ’حکومت ہم پر رحم کرے، ہمیں بےگھر نہ کرے‘فوج اور پنجاب حکومت چولستان کی بنجر زمینوں کو قابل کاشت کیوں بنانا چاہتے ہیں؟
اس علاقے میں کوئلے کی کانوں سے بجلی کے پلانٹس تک خواتین ڈمپر ٹرک چلاتی نظر آئیں۔ اینگرو اس کو اپنا فلیگ شپ پروگرام قرار دیتا ہے اور یہاں آنے والے ہر وفد اور مہمان کو ان خواتین اور ان کے کام سے متعارف کروایا جاتا ہے۔ تاہم ان خواتین کی تعداد صرف 25 ہے اور وہ بھی کانٹریک پر کام کرتی ہیں۔
ایک ڈمپر ڈرائیور غلام فاطمہ نے ہمیں بتایا کہ ’جب پچاس، ساٹھ ہزار روپے ماہانہ آ جائیں تو یقیناً انسان کی زندگی میں تبدیلی آ جاتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس ملازمت کی بدولت وہ اپنے بچوں کو سکولوں میں پڑھانے کے قابل ہوئی ہیں، اُن کی اچھی دیکھ بھال کر سکتی ہیں اور انھیں اچھا کھانا کھلا سکتی ہیں۔
BBCغلام فاطمہ: ’جب پچاس، ساٹھ ہزار روپے ماہانہ آ جائیں تو یقیناً انسان کی زندگی میں تبدیلی آ جاتی ہے‘
تھر فاؤنڈیشن کے جی ایم فرحان انصاری نے بتایا کہ ان ڈمپر ڈرائیوروں کے علاوہ اُن کی فاؤنڈیشن کے زیر انتظام 28 سکول بھی ہیں جن میں خواتین ٹیچرز رکھی گئی ہیں۔ ان کے مطابق جو آر او پلانٹ ہیں اس میں بھی خواتین آپریٹر ہیں جبکہ اس کے علاوہ سکولوں میں بھی لڑکیوں کی انرولمنٹ کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
اینگرو کے علاوہ یہاں ایک اور کمپنی بھی مصروف عمل ہے۔ شنگھائی الیکٹرک کمپنی کے زیر انتظام سائنو سندھ ریسورسز پرائیوٹ لمیٹڈ کے 660 کے دو پاور پلانٹ لگے ہوئے ہیں جہاں بجلی کی پیداوار کے لیے لگ بھگ ساڑھے سات ملین ٹن سالانہ کوئلہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق سندھ اینگرو کمپنی نے اگرچہ بلاک 2 کے متاثرین کو معاوضے کے ساتھ ساتھ گھر بھی تعمیر کرکے دیے تھے مگر شنگھائی الیکٹرک نے یہ پالیسی اختیار نہیں کی اور انھوں نے متاثرین کو صرف معاوضے کی ادائیگی کی ہے۔
تلوایو گاؤں سے بیدخل کیے گئے بھیل کمیونٹی کے لوگوں نے شنگھائی کمپنی کے اس پلانٹ سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور دوبارہ اپنے جھونپڑیوں کی تعمیر شروع کر دی ہے مگر اس علاقے میں نہ تو پانی دستیاب ہے، نہ سکول، نہ صحت مرکز اور نہ ہی بجلی موجود ہے۔
BBCشنگھائی پاور پلانٹ
اسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مادھو بھیل بتاتے ہیں کہ سرکاری لوگ آئے تھے جنھوں نے کہا کہ مشین والوں کے کام میں رخنہ پڑ رہا ہے، آپ کے مطالبات بھی پورے ہوں گے اور سہولیات بھی ملیں گی مگر اس کے بدلے آپ کو یہاں سے جانا ہو گا۔
’ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں، بس اُن کے آسرے پر چلے آئے۔ کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا، زبانی کلامی بات ہوئی مگر ہمارے ساتھ جنسہولیات کے وعدے کیے گئے تھے ان میں سے کچھ نہیں ملا۔ اب جہاں بیٹھے ہیں وہ زمین بھی 25 گھرانوں نے اپنے پیسوں سے خریدی ہے۔‘
مادھو کی اہلیہ سیتا بائی نے بتایا کہ کمپنیوں کی وجہ سے اُن کے علاقے میں ریت اتنی اڑتی تھی کہ وہاں بسنے والے اندھے ہو گئے تھے۔ ’مجبوراً اپنا بسا بسایا گاؤں چھوڑ کر آئے اور اب یہاں پینے کا پانی بھی دو کلومیٹر دور سے لا رہے ہیں۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’ہمارے ساتھ مسلم آبادی تھی جہاں جگہ ہموار کر کے پلاٹنگ کی گئی جبکہ انھیں پانی اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی گئیں مگر ہماری ایک نہ سُنی گئی۔‘
ایک طرف شنگھائی کمپنی کی کوئلہ کان سے خارج ہونے والا پانی فصلوں اور آبادی کی طرف آگے بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف کانکنی کا علاقہ بھی پھیل رہا ہے۔
کھاریو غلام شاہ گاؤں کے 1500 گھرانے اِس وقت اس کی زد میں آ چکے ہیں۔ یہاں ہماری ملاقات مقامی ایکٹوسٹس سے ہوئی۔
کیول مینگھواڑ نے بتایا کہ ڈمپنگ اُن سے صرف چار سو سے پانچ سو میٹر قریب ہے جہاں سارا دن ریت اڑتی ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو ڈمپنگ کے ٹیلوں سے پانی نیچے آ جاتا ہے اور ان کے گھر ڈوب جاتے ہیں، اور گاؤں کاقبرستان اور جس نام پر گاؤں قائم ہے وہ مزار بھی زیر آب آ جاتی ہے۔
ہریش کمار نے بتایا کہ کمپنی نے کوئی ریسیٹلمنٹ پالیسی واضح نہیں کی جس کی وجہ سے اب یہاں لوگ بھگت رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کمپنی نے تعلیم اورصحت کے حوالے سے بھی کوئی اقدامات نہیں اٹھائے اتنی بھی سہولیات نہیں دی گئیں جتنی اینگرو نے اپنے بلاک ٹو میں دی ہیں۔
ہم نے سوال کیا کہ کھاریو غلام شاہ کے کتنے رہائشی شنگھائی کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں تو مقامی رہنما سورج جئے پال نے بتایا کہ ایک سال پہلے انھوں نے گھر گھرجا کر اعداد و شمار جمع کیے کہ یہاں موجود لوگوں کی تعلیم اور قابلیت کیا ہے؟
اُن کے مطابق اس کے بعد انھوں نےتقریبا 400 افراد کی فہرست کمپنی میں جمع کروائی، جن میں ایم اے انگریزی نوجوان بھی تھے اور ایڈمن کے کام کا تجربہ رکھنے والے افراد بھی۔ ’کسی کو ملازمت نہیں ملی چند ایک کو ڈرائیور کی نوکری یا فلیگ مین کی نوکری دی گئی ہے، اور بس۔‘
سائنو سندھ ریسورسز پرائیوٹ لمیٹڈ کا مقامی ترقی میں کیا کردار ہے، کتنے مقامی لوگ ملازمت میں ہیں اور کمپنی سی ایس آر کس طرح خرچ کر رہی ہے، ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے اسلام کوٹ میں کمپنی حکام سے رابطہ کیا گیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اس کے بعد انتظامیہ کو متعدد بار فون اور ای میلز بھی کی گئیں اور سوالات بھی بھیجے گئے لیکن کمپنی نے ایک ماہ کے عرصے میں بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
سندھ میں سب سے زیادہ مال مویشیوں کی پرورش صحرائے تھر میں کی جاتی ہے جہاں یہ جانور کھلے میدانوں اور مختص چراگاہوں میں پلتے بڑھتے ہیں۔ لیکن اب اس کام میں بھی کمی آئی ہے اور مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس کی وجہ بھی کوئلہ کمپنیاں ہیں جنھیں الاٹ کیے گئے ایریا میں کئی چراگاہیں بھی آئی ہیں یا متاثر ہوئی ہیں۔
BBCمقامی افراد کے مطابق اس صورتحال کے باعث جانوروں کی چراگاہیں بھی متاثر ہوئی ہیں
تھر میں کوئلے کے منصوبے چین اقتصادی راہداری کا حصہ تھے۔ ان منصوبوں کے لیے بنائی جانے والے سڑک نے تھر کے ایک حصے کے رہائشیوں کے لیے سفر میں آسانی تو پیدا کی ہے جبکہ عمرکوٹ، چھاچھرو سمیت دیگر شہروں میں سڑکیں آج بھی ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام کوٹ میں ایک ایئرپورٹ بھی بنایا گیا جہاں سے صرف وی آئی پیز موومنٹ ہوتی ہے۔
اسلام کوٹ تھر کا مرکزی شہر ہے۔ یہاں پاور کمپنیوں کے آنے سے معشیت پر کیا اثر پڑا ہے اور کیا یہ کمپنیاں مقامی ترقی اور کاروبار میں بھی مددگار ثابت ہو رہی ہیں؟ ٹاؤن چیئرمین کملیش کمار کے پاس اس کا جواب نفی میں تھا۔
کملیش مقامی تاجر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ کچھ نہ کچھ خریداری ہوتی ہے لیکن زیادہ تر کمپنیوں کی خریداری کراچی سے کی جاتی ہے، اس شہر کو جو فائدہ ملنا چاہیے تھا وہ نہیں ملا۔
یاد رہے کہ اسلام کوٹ کو ماڈل سٹی بنانے کے لیے حکومت سندھ نے ماسٹر پلان تیار کیا تھا 'جس کے تحت یہاں صنعتی منصوبے بھی لگائے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی تاہم کملیش کمار نے بتایا کہ کچھ میٹنگ وغیرہ ضرور ہوئیں تھیں، لیکن گذشتہ چار، پانچ سال سے اس معاملے پر بھی خاموشی ہے۔
حکومت سندھ نے اسلام کوٹ کے شہریوں کے لیے بجلی کے سو یونٹ مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ سو یونٹس کے بجائے اب صرف 800 روپے ماہانہ بل میں ایڈجسٹ کیے جاتے ہیں۔
سندھ اینگرو کمپنی اور شنگھائی کمپنی کے پاور پلانٹ جانے سے قبل سڑک پر بڑے بڑے بورڈ آویزاں ہیں جن پر تحریر ہے کہ ’تھر بدلے گا پاکستان۔‘ ان بجلی کی کمپنیوں کے خلاف آئے دن متاثرین احتجاج کرتے ہیں لیکن پارلیمان میں ان کی حالت زار پر بات کرنے کے بجائے صرف ’تھر بدلے گا پاکستان‘ کی آوازیں آتی ہیں۔
دو ماہ قبل بھی اس علاقے میں متاثرین نے احتجاج کیا تھا جس کے بعد سندھ کے صوبائی وزیر توانائی ناصر شاہ نے ان سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ صوبائی وزیر نے متاثرین کو آگاہ کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے مقامی افراد کو سہولیات کی فراہمی کے لیے واضح ہدایات ہیں اورمقامی افراد کو روزگار سمیت تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی سندھ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔
’تھر کی ہوا، آدمی کو عاشق بنا دیتی ہے‘ہائبرڈ نظام کی معاشی شکل اور فوج کا کردار: زراعت اور سیاحت سے متعلق ’ایس آئی ایف سی‘ کے منصوبوں پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟فوج اور پنجاب حکومت چولستان کی بنجر زمینوں کو قابل کاشت کیوں بنانا چاہتے ہیں؟مارگلہ کے دو دیہات کی زمین پاکستانی فوج کو دفاعی مقاصد کے لیے مطلوب: ’حکومت ہم پر رحم کرے، ہمیں بےگھر نہ کرے‘پاکستان میں کوئلے سے تیل و گیس پیدا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟