’بیٹی پر جان قربان‘، ونی سے بچانے کے لیے ڈی آئی خان میں باپ کی ’خودکشی‘

اردو نیوز  |  Mar 10, 2025

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں غریب باپ نے اپنی کم سن بچی کو ونی کیے جانے پر مبینہ طور پو زہریلی گولیاں کھا کر خود کشی کر لی ہے۔

سسٹم اس وقت حرکت میں آیا جب عادل نامی شخص جو پیشے کے لحاظ سے حجام تھے، نے خودکشی سے قبل ایک آڈیو پیغام ریکارڈ کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ کیسے کچھ افراد نے زبردستی ان کی بیٹی کو ونی کی رسم کا شکار کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ آڈیو پیغام سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔

پولیس کے مطابق اس واقعے میں ملوث دو ملزمان گرفتار کر لیے گئے ہیں، جبکہ تیسرے ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ مرنے سے قبل ریکارڈ کی جانے والی اس آڈیو میں سنا جا سکتا ہے ایک شخص انتہائی کرب کے عالم میں سرائیکی زبان میں کہہ رہا ہے کہ ’میرا نام عادل ہے، اور میں پیشے کے لحاظ سے حجام ہوں میرے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے۔ مجھے اغوا کیا گیا اور زبردستی اشٹام پیپر پر انگوٹھے لگوائے گئے۔ میں ان کی منتیں کرتا رہا کہ وہ ایسا نہ کریں۔ میرے مجرم رمضو، اس کا بیٹا عمران اور دوسرا بیٹا فرید ہیں۔‘

اس آڈیو کے اگلے حصے میں ڈبڈباتی ہوئی آواز میں عادل اپنے قریبی رشتہ داروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے اپنی جان قربان کر دی ہے، اب بچوں کے چاچے اور مامے جانیں۔ مجھے نہیں پتا کہ خودکشی حرام ہے یا حلال میں بس یہی کر سکتا تھا۔‘

اصل واقعہ ہے کیا؟

ڈی آئی خان کے تھانہ پہاڑپور میں درج ایف آئی آر کے مطابق ونی کا یہ واقعہ ڈیرہ اسماعیل کے گاؤں بگوانی شمالی میں پیش آیا۔ جس میں عادل نامی حجام کی کم سن بیٹی کو جرگے نے زبردستی شادی کرنے کا حکم دیا۔

پولیس سے دستیاب ابتدائی معلومات کے مطابق ایک شادی کی تقریب میں عادل کا بھانجا اس کیس کے ملزم کی بیٹی کے ساتھ مبینہ طور پر نازیبا حرکات کرتا پکڑا گیا۔ یہ معاملہ جرگے کے سامنے آیا اور عادل کے بھانجے پر چھ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔

تاہم اس کے ساتھ ہی مرکزی ملزمان نے عادل پر بھی دباؤ ڈالا کہ ’ان کی بیٹی کی عزت چونکہ ان کے گھر میں خراب ہوئی لہذا اس کی ایک بیٹی ونی کی جائے گی۔‘

پولیس نے دو ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)پولیس کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ عادل کو بلا کر زبردستی اس فیصلے پر انگوٹھے لگوائے گئے۔ جرگے کے اس فیصلے سے دل برداشتہ ہو کر عادل نے خودکشی کر لی۔

ایس پی پہاڑ پور گوہر علی خان کے مطابق عادل کی آڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور دو ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ بچی کو بازیاب کروا کے واپس اس کے گھر منتقل کر دیا گیا ہے، جبکہ ایک ملزم کی گرفتاری کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاندان نے اس واقعے کی درخواست نہیں دی، اس لیے سرکاری مدعیت میں پرچہ درج کیا گیا ہے، جس میں تعزیرات پاکستان کی قتل بسبب سے متعلق دفعہ (322) لگائی گئی ہے جبکہ اس کے ساتھ ونی کی دفعہ بھی لگائی گئی ہے۔

’پورے معاشرے کے لیے ایک کڑا سوال‘،  سوشل میڈیا پر ردعمل

اس واقعے پر مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ خالد خان نے لکھا کہ ظلم کی انتہا ہے کہ تحصیل پہاڑ پور کا عادل روتے روتے موت کو گلے لگا بیٹھا۔

’پنچایت کی طرف سے 11 سالہ بیٹی کو ونی چڑھانے کے صدمے میں خودکشی کرنے والے عادل حجام نے مرنے سے قبل آڈیو ریکارڈ کی اور کہا کہ خودکشی اس لیے کر رہا ہوں کہ شاید میری یہ قربانی میری 11 سالہ بچی کا مستقبل بچا لے۔‘

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’چھ بیٹیوں کا باپ  انصاف کی تلاش میں اپنی جان دے بیٹھا! ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے بگوانی شمالی میں پیش آنے والا واقعہ نہ صرف دل دہلا دینے والا ہے، بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک کڑا سوال بھی ہے۔‘

عثمان خان نے لکھا کہ ’خواتین کا عالمی دن اور ڈیرہ اسماعیل خان کا دل دہلا دینے والا المیہ! ایک باپ نے بیٹی کو ونی کے ظلم سے بچانے اور انصاف کے حصول کی کوشش میں اپنی جان دے دی۔ بے بسی کی انتہا ہے۔ پولیس خاموش، ونی ہوتی رہی اور باپ کی خودکشی نے آخر پولیس کی آنکھیں کھولیں، اور دو ملزمان گرفتار ہوئے۔ کیا یہ ہے ہمارا انصاف؟ کیا خواتین کی عزت کی قیمت جان ہے؟‘

ونی کی رسم ہے کیا؟

ونی یا سورہ ایک رسم کے ہی دو نام ہیں۔ پنجاب میں اسے ونی اور خیبرپختونخوا میں اسے سورہ کہا جاتا ہے۔ اس رسم کے مطابق دوخاندانوں میں صلح کی خاطر جرگے کے ذریعے جرمانے یا ہرجانے کے طور پر لڑکیاں دی جاتی ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ کم سن لڑکیاں بڑی عمر کے افراد سے بیاہی جاتی ہیں۔

یہ رسمیں قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہیں، جن میں قبیلوں اور خاندانوں کے بیچ خون ریزی رکوانے کے لیے پنچایتی نظام کے ذریعے لڑکیوں کو ونی کیا جاتا تھا۔ تاہم اب پاکستان کے موجودہ قانون کے تحت یہ عمل نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ قابل سزا جرم ہے جس میں دس سال تک سزا دی جا سکتی ہے۔
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More