پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ٹریفک پولیس نے لاہور ہائی کورٹ کو تجویز دی ہے کہ ای چالان کی مد میں اربوں روپے کی ریکوری کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی تجدید سے منسلک کیا جائے۔ٹریفک پولیس کی یہ تجویز عدالت کے سب سے طویل ترین کیس میں دی گئی ہیں جو سموگ کے تدارک سے متعلق ہے۔اس تحریری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ای چالان کی مد میں اب تک صوبہ بھر کے شہریوں کی طرف پونے 6 ارب روپے واجب الادا ہیں۔خیال رہے کہ صوبے میں ای چالان سب سے پہلے صوبائی دارالحکومت لاہور میں کچھ سال پہلے شروع کیا گیا تاہم، بعد میں سے روک دیا گیا۔
البتہ مریم نواز نے گذشتہ سال حکومت سنبھالتے ہی ای چالان کا اجرا دوبارہ سے کر دیا تھا۔
اس تحریری رپورٹ میں لاہور ہائی کورٹ سے درخواست کی گئی ہے کہ اگر ٹریفک پولیس کی ریکوری ہو جائے تو صوبے میں ٹریفک کے نظام کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے جس سے سموگ کی صورت حال بہتر ہوگی۔عدالت کو یہ کہا گیا ہے کہ ایک حکم نامے کے ذریعے تمام شہریوں کی دستاویزات بنانے اور تجدید کے عمل کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ہونے والے جرمانوں کی ادائیگی سے منسلک کردیا جائے جس سے ریکوری آسان ہو جائے گی۔ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ کیمروں کے ذریعے کیے جانے والے چالان گھروں میں بھیجے جاتے ہیں۔ (فوٹو: فیس بک)اس دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن سرکاری ملازمین نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کر رکھی ہے اور انہیں ای چالان جاری ہو چکے ہیں، ان کی ادائیگی ان کی تنخواہ سے کروائی جائے۔ اور اکاؤنٹنٹ جنرل کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ تمام نادہندہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے جرمانے کی کٹوتی کو یقنی بنائے۔ای چالان نظام غیر مؤثر کیوں؟ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ کیمروں کے ذریعے کیے جانے والے چالان گھروں میں بھیجے جاتے ہیں اور بار بار وارننگ دی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود لوگ چالان جمع نہیں کرواتے۔ چیف ٹریفک آفیسر لاہور اطہر وحید کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس سوائے لوگوں کو وارننگ بھیجنے کے اور کوئی اختیار نہیں ہے۔‘’آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ جن لوگوں کی خلاف ورزیاں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں ان کو سڑکوں پر روک کر ان سے ریکوری کی جاتی ہے۔ ‘ان کا کہنا تھا کہ ’عدالت نے ہم نے پوچھا تھا کہ ٹریفک کے نظام کو مزید بہتر کیسے کیا جا سکتا ہے؟ تو ہم نے ایک تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی ہے جس میں ایک تجویز 5 ارب 74 کروڑ روپے کے ای چالان کی ریکوری ہے۔‘مریم نواز نے گذشتہ سال حکومت سنبھالتے ہی ای چالان کا اجرا دوبارہ سے کر دیا تھا۔ (فوٹو: فیس بک)’رپورٹ میں عدالت سے کہا گیا ہے کہ ہمیں یہ بھی اختیار دیا جائے کہ اگر کوئی شخص 10 سے زیادہ خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو تو اس کی گاڑی کو قبضے میں لے لیا جائے۔ اگر یہ ریکوری ہو جاتی ہے تو ہم اس پیسے سے ایک بہترین نظام وضع کر سکتے ہیں۔‘سی ٹی او کا کہنا ہے کہ ای چالان کی اصل افادیت اسی صورت میں آئے گی جب اس سے کیے جانے جرمانے ادا ہوں گے، اور وہ رقم سرکاری خزانے میں جمع ہو گی۔’لوگوں کو اندازہ ہو کہ جرمانہ ادا کیے بغیر ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔‘تین روز کے بعد عدالت دوبارہ سماعت جمعے کے روز کر رہی ہے۔ اگر یہ تجاویز مان لی گئیں تو شہریوں کے اپنے جرمانے ادا کرنے لیے ایک صورت حال کا سامنا ہو گا۔ خاص طور پر سرکاری ملازمین کو جن کی تنخواہیں خود سرکار جاری کرتی ہے۔