وہ دوا جو خواتین کو انجانے میں سیکس کی ’خطرناک لت‘ میں مبتلا کر سکتی ہے

بی بی سی اردو  |  Mar 20, 2025

Getty Images

انسانی جسم میں نقل و حرکت کی خرابیوں بشمول ریسٹ لیس لیگ سنڈروم (آر ایل ایس)کے مریضوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں نے انھیں تجویز کردہ ادویات کے سنگین ضمنی اثرات کے بارے میں متنبہ نہیں کیا جن کی وجہ سے وہ خطرناک جنسی طرز عمل میں مبتلا ہو گئے۔

20 خواتین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں آر ایل ایس (ٹانگوں کی اعصابی بیماری) کے لیے دی جانے والی دواؤں نے ان کی زندگیوں کو برباد کر دیا۔

ادویات کی کمپنی جی ایس کے کی ایک رپورٹ، جسے بی بی سی نے دیکھا ہے، سے پتہ چلتا ہے کہ 2003 میں ڈوپامین ایگونسٹ کے نام سے جانی جانے والی دوا اور ’گمراہ کن‘ جنسی طرز عمل کے درمیان تعلق کا انکشاف ہوا تھا۔

اس میں ایک ایسے شخص کے کیس کا حوالہ بھی دیا گیا جس نے پارکنسنز نامی بیماری کی دوا لیتے ہوئے ایک بچے کو جنسی حملے کا نشانہ بنایا تھا۔

اگرچہ آگاہی دینے والے پمفلٹ میں اس ضمنی اثر کا کوئی واضح حوالہ نہیں ہے لیکن برطانیہ کے میڈیسن ریگولیٹر نے ہمیں بتایا کہ جنسی خواہش میں اضافے اور نقصاندہ طرز عمل کے بارے میں ایک عام انتباہ موجود تھا۔

جی ایس کے کا کہنا ہے کہ پمفلٹس میں جنسی دلچسپی میں تبدیلی کے خطرے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

کچھ خواتین، جنھوں نے خطرناک جنسی رویے کی طرف راغب ہونے کے بارے میں بتایا، نے ہمیں بتایا کہ انھیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔

دوسروں کا کہنا تھا کہ وہ جوا کھیلنے یا خریداری کرنے پر مجبور ہوئے حالانکہ انھوں نے ماضی میں ایسا کبھی نہیں کیا۔ ایک نے تو خود کو 150,000 پاؤنڈ سے زیادہ کا مقروضکرلیا۔

سیکس کے لیے گھر سے نکلنا شروع کر دیا

بہت سی خواتین کی طرح کلیئر کو بھی پہلی بار اپنے حمل کے دوران آر ایل ایس کی شکایت ہوئی۔ انھیں حرکت کرنے کی انتھک بے چینی کے ساتھ ساتھ اکثر بے خوابی اور جلد کے نیچے کسی چیز کے رینگنے جیسی سنسنی بھی ہوتی ہے۔

بچے کو جنم دینے کے بعد بھی ان کی یہ حالت برقرار رہی تو انھیں ڈوپامائن ایگونسٹ دوا روپنیرول تجویز کی گئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹروں نے انھیں کسی بھی ضمنی اثر کے بارے میں متنبہ نہیں کیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ابتدائی طور پر اس دوا نے ان کے آر ایل ایس کے لیے حیرت انگیز کام کیا، لیکن ایک سال یا اس کے بعد وہ غیر معمولی جنسی خواہش محسوس کرنے لگیں۔

کلیر کہتی ہیں کہ انھوں نے صبح سویرے اپنے گھر سے سیکس کے لیے نکلنا شروع کر دیا تھا۔

وہ ایسی قمیض پہنتیں جس سے جسم دکھائی دیتا اور جیکٹ پہنے ہوئے وہ کسی بھی مرد کو دیکھ کر اپنا سینہ جھکا لیتی تھیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ایک ساتھی ہونے کے باوجود خطرناک جگہوں پر وہ یہ کام باقاعدگی سے کرتی تھیں۔

ووہ کہتی ہیں کہ ’آپ کے دماغ میں ایک عنصر رہتا ہے جو جانتا ہے کہ آپ جو کر رہے ہیں وہ غلط ہے لیکن یہ آپ کو اس حد تک متاثر کرتا ہے کہ آپ نہیں جانتے کہ آپ یہ کر رہے ہیں۔‘

کلیئر کہتی ہیں کہ ان خواہشات کا تعلق دوا سے جوڑنے میں کئی سال لگے اور جب انھوں نے اسے لینا بند کر دیا تو وہ فوری طور پر غائب ہو گئیں۔

جس خطرے میں انھوں نے خود کو ڈالا وہ اس کے لیے ’شرمندہ اور افسردہ‘ ہیں۔

Getty Imagesکلیر کہتی ہیں کہ انھوں نے صبح سویرے اپنے گھر سے سیکس کے لیے نکلنا شروع کر دیا تھاپارکنسن کی دوا اور جنسی حملہ

صحت کی رہنمائی کرنے والی تنظیم این آئی سی ای کے مطابق جوا اور جنسی خواہش میں اضافے سمیت جذباتی رویوں کو طویل عرصے سے ڈوپامین ایگونسٹ دوا کے لیے ادویات کے پمفلٹ میں ضمنی اثرات کے طور پر درج کیا گیا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ آر ایل ایس کے چھ سے 17 فیصد مریضوں کو متاثر کرتی ہے۔

این ایچ ایس کے مطابق عموماً کسی بھی دوا کے ’عام‘ ضمنی اثرات صرف ایک فیصد لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔

یہ دوا ہمارے دماغ میں ایک قدرتی کیمیکل ڈوپامین کے طرز عمل کی نقل کر کے کام کرتی ہیں جو ہماری حرکات کو منظم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اسے ’خوشی کاہارمون‘ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ اس وقت فعال ہوتا ہے جب کوئی چیز خوشگوار ہوتی ہے یا ہمیں انعام ملتا ہے۔

لیکن ماہرین کے مطابق ایگونسٹ دوا ان احساسات کو بڑھا کر نتائج کی قدر کو کم کر سکتی ہے جس کی وجہ سے جذباتی رویے پیدا ہوتے ہیں۔

سیکس میں لذت بڑھانے کی غرض سے منشیات کا استعمال: ’پہلے پہل تو خوشگوار آزادی کا احساس ہوا، مگر پھر میں زندہ لاش بن گیا‘اچھی سیکس لائف کا راز: جنسی تعلق کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟کیا سیکس کی لت کوئی بیماری ہے؟جنسی زیادتی، شراب اور ڈرگز کی لت سے نکل کر کامیابی کی کہانی

سنہ 2003 کی جی ایس کے رپورٹ میں جن کیسز کو ’گمراہ کن طرز عمل‘ کے طور پر بیان کیا گیا تھا ان میں دو مرد بھی شامل تھے جنہیں پارکنسن بیماری کے لیے روپنیرول تجویز کیا گیا تھا۔

ایک واقعے میں ایک 63 سالہ شخص نے سات سالہ بچی کوجنسی حملے کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اسے قید کی سزا سنائی گئی۔

دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ روپنیرول کے ساتھ علاج کے آغاز سے ہی مجرم کی جنسی خواہش میں نمایاں اضافہ ہوا تھا اور اس کی خوراک کم ہونے کے بعد یہ ’مسئلہ حل ہو گیا۔‘

’مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری کوئی غلطی نہیں‘

یونیورسٹی آف کیمبرج کی پروفیسر ویلری وون کے مطابق جی ایس کے کی وجہ سے پیدا ہونے والے ’گمراہ کن‘ جنسی رویوں کی شرح نامعلوم ہے اور ان کا تجربہ کرنے والے اس بارے میں کمبتاتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے ساتھ بہت سی بدنامی اور شرمندگی جڑی ہوئی ہے، اور لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ کسی دوا کی وجہ سے ہو رہا ہے۔‘

پروفیسر وون کا خیال ہے کہ خطرناک جنسی رویوں کے بارے میں طبی اداروں کو خاص طور پر خبردار کیا جانا چاہیے اور ان کی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے کیونکہ ان کے اثرات ’تباہ کن‘ ہو سکتے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ آر ایل ایس 20 بالغوں میں سے ایک کو متاثر کرتا ہے اور خواتین کا مردوں کے مقابلے میں اس کا شکار ہونے کا امکان تقریبا دوگنا ہوتا ہے۔

ہم نے جن 20 مریضوں سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف ڈاکٹر انھیں ادویات کے ممکنہ سنگین ضمنی اثرات کے بارے میں بتانے میں ناکام رہے بلکہ بعد میں ان کے جسم پر دوا کے اثرات کا جائزہ لینے میں بھی ناکام رہے۔

سارہ 50 سال کی تھیں جب انھیں ایک اور ڈوپامین ایگونسٹ دوا تجویز کی گئی تھی جو ایک دوسرے مینوفیکچرر نے تیار کی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس سے پہلے اگر بریڈ پٹ بھی برہنہ ہو کر کمرے میں آتے تو مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ لیکن اس دوا نے مجھے ایسی عورت میں تبدیل کر دیا جس کی جنسی لت بڑھ رہی تھی۔‘

سارہ نے استعمال شدہ زیرجامہ اور جنسی سرگرمیوں کی ویڈیوز آن لائن فروخت کرنا شروع کیں اور اجنبیوں کے ساتھ ٹیلی فون سیکس کا اہتمام کیا۔ انھوں نے خریداری بھی شروع کی جس کے نتیجے میں 30،000 پاؤنڈ کی مقروضہو گئیں۔

آخر کار انھیں علاج کے لیے داخل کرایا گیا لیکن ان کا ڈرائیونگ لائسنس چھین لیا گیا اور ان کی نوکری چلی گئی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے ان چیزوں کی طرف رخ کیا جو صحت مند نہیں تھیں، مجھے معلوم تھا کہ یہ رویہ میرا نہیں تھا لیکن میں اسے کنٹرول نہیں کر سکتی تھی۔‘

تیسری خاتون سو کا کہنا ہے کہ انھیں ڈوپامین کی دو مختلف دوائیں تجویز کی گئیں اور انھیں کسی بھی موقع پر جبری رویے کے ضمنی اثرات کے بارے میں خبردار نہیں کیا گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ جب دوسری دوا تجویز کی گئی تھی تو انھوں نے جوئے کے حالیہ رویے کا بھی ذکر کیا تھا کہ انھوں نے 80,000 پاؤنڈ لُٹا دیے۔ ’میری فیملی پر اس کا خوفناک اثر ہوا۔ میں نے وہ پیسے کھو دیے جو زندگی بدل سکتے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس میں میری اپنی کوئی غلطی نہیں ہے۔‘

BBCایک خاتون لوسی کا کہنا ہے کہ انھوں نے ڈوپامائن ایگونسٹ تجویز کیے جانے کے بعد جبری جوئے اور خطرناک جنسی تعلقات میں اپنی زندگی کا ایک عشرہ کھو دیارویّوں میں شدت اور تعلقات میں خرابی

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ 2011 میں پارکنسن کی بیماری کے چار مریضوں نے جی ایس کے کے خلاف عدالتی کارروائی کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ روپنیرول جوئے کے قرضوں اور ٹوٹے ہوئے تعلقات کا سبب بنا۔ انھوں نے یہ بھی شکایت کی کہ 2000 کے اوائل میں طبی مطالعات میں اس طرح کے طرز عمل اور ادوایات کے درمیان تعلق سامنے آنے کے باوجود جی ایس کے مارچ 2007 تک اپنے مواد میں کسی بھی انتباہ کو شامل کرنے میں ناکام رہی۔

تاہم جی ایس کے نے کسی قسم کی ذمہ داری سے انکار کر دیا۔

دیگر ممالک میں بھی سنگین ضمنی اثرات کے معاملات رپورٹ ہوئے ہیں خاص طور پر پارکنسن بیماری کے لیے دوا کے استعمال کے سلسلے میں۔

فرانس میں ایک عدالت نے دو بچوں کے والد کو ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا جس نے شکایت کی تھی کہ روپنیرول نے اسے زبردستی ہم جنس پرستی کی جانب راغب کیا جبکہ ایک اور شخص جس کا مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا اس نے بلیوں پر تشدد کرنا شروع کر دیا تھا۔

امریکن اکیڈمی آف سلیپ میڈیسن تجویز کرتی ہے کہ ان ادویات کو صرف قلیل مدتی علاج کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔

بی بی سی نے جن خواتین سے بات کی ان میں سے کئی نے یہ بھی شکایت کی کہ دوا کے طویل عرصے تک استعمال سے ان کا آر ایل ایس بگڑ گیا۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی خوراک میں اضافہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں ان کے جبری رویے میں اضافہ ہوا تھا۔

کنسلٹنٹ نیورولوجسٹ ڈاکٹر گائے لیشزنر کا کہنا ہے کہ یہ دوائیں اب بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان کا ماننا ہے کہ دوا ساز کمپنیوں، صحت کے حکام اور ڈاکٹروں کو مریضوں کو ان ضمنی اثرات کے بارے میں بہتر طور پر خبردار کرنے کی ضرورت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہر کوئی نہیں جانتا کہ کس قسم کی ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔‘

BBCسو نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے 80,000 پاؤنڈ جوئے میں ہار دیے

ایک بیان میں جی ایس کے نے بی بی سی کو بتایا کہ روپنیرول کے ’وسیع پیمانے پر کلینیکل ٹرائلز‘ یعنی تجربات کیے گئے تھے۔

کمپنی کے مطابق یہ دوا مؤثر ثابت ہوئی تاہم تمام ادویات کی طرح اس کے بھی ممکنہ ضمنی اثرات ہیں اور یہ تجویز کردہ معلومات میں واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔

اپنی 2003 کی تحقیق، جس میں ’گمراہ کن‘ جنسی رویے کے ساتھ تعلق پایا گیا تھا، کے حوالے سے جی ایس کے نے ہمیں بتایا کہ یہ صحت کے حکام کے ساتھ بھی شیئر کی گئی تھی۔

روپنیرول کے مریضوں کے لیے تازہ پمفلٹ میں پانچ جگہ پر جنسی دلچسپی میں تبدیلیوں کا خاص حوالہ دیا گیا ہے۔ خاص طور پر اس طرح کے احساسات کی شدت ’غیرمعمولی طور پر زیادہ‘، ’حد سے زیادہ‘ یازیادہ ہونے سے متعلق انتباہ کیا گیا ہے۔

برطانیہ کی میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پروڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی نے کہا ہے کہ اگرچہ انتباہ میں ’غلط‘ جنسی رویے کا مخصوص حوالہ شامل نہیں ہے لیکن اس طرح کے جذبات مختلف ہوتے ہیں اور نقصان دہ سرگرمیوں کے بارے میں ایک عام انتباہ شامل ہے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پیشہ ور افراد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مریضوں کو ممکنہ خطرے کی وضاحت کریں اور سبھی کو اس قسم کے ضمنی اثرات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

محکمہ صحت اور سماجی دیکھ بھال نےاس حوالے سےتبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

نوٹ: لوگوں کی شناخت کے تحفظ کے لیے اس مضمون میں کچھ نام تبدیل کیے گئے ہیں

اچھی سیکس لائف کیسی ہوتی ہے اور اس میں موجود خرابیاں کیسے دور کی جائیں؟سیکس میں لذت بڑھانے کی غرض سے منشیات کا استعمال: ’پہلے پہل تو خوشگوار آزادی کا احساس ہوا، مگر پھر میں زندہ لاش بن گیا‘نوجوانوں میں دورانِ سیکس گلا دبانے کا خطرناک عمل:’میں اُس وقت بےہوش تو نہیں ہوئی لیکن اپنی جگہ جم سی گئی تھی‘اچھی سیکس لائف کا راز: جنسی تعلق کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟مردوں میں مقبول ویاگرا خواتین کے لیے کیوں نہ بن سکی؟کیا سیکس کی لت کوئی بیماری ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More