سیاست جمود کا شکار ہو تو عوام بحیثیت مجموعی روایتی تبصروں اور تجزیوں سے بھی عاجز آ جاتے ہیں، کچھ تکنیکی اور کچھ ’فنی‘ (انگریزی والا ہی سمجھ لیں) کے کارن پہلے ہی روایتی میڈیا اور اس پر بیٹھے دانشوروں کی رائے خاصی غیر جاندار ہوتی جا رہی ہے۔ اس بیچ متبادل کی تلاش میں پھر ان دنوں موبائل فون پر دستیاب ان گنت دیگر پلیٹ فارمز پر مرضی کی آوازیں سننے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے، یہاں بھی ایک خاص حد کے بعد ناظر تھک جاتا ہے، تو وہ انٹرٹینمنٹ اور فنون لطیفہ کی دیگر اصناف کی جانب رجوع کرتا ہے، جس کا بڑا ثبوت ٹِک ٹاکرز کا ہِٹ ہونا ہے۔ ان کے بے تُکے کرتب بھی لاکھوں میں دیکھے جاتے ہیں۔ یوٹیوب اور فیس بک کے بعد اب اسی لیے ٹِک ٹاک پاکستان میں مقبول ترین ایپلی کیشن بنتی جا رہی ہے۔ احتجاج، استعفے، لانگ مارچ، بنتے بگڑتے اتحاد یا سیاسی طور پر انکشافات کے ہنگام تو دو چار دن صحافیوں اور ولاگرز کے ہاں کانٹینٹ کی رونق لگ جاتی ہے، مگر جیسے ہی معاملہ جمود کا شکار ہوتا ہے تو پھر ’رائے غیر جاندار‘ اور انتہائی پریڈکٹیبل ہوتی جاتی ہے۔ابلاغیات کا ادنیٰ سا طالبعلم ہونے کے ناطے اسی لیے آج سوچا کہ روایتی تبصروں کی بجائے تازہ سیاسی ہنگاموں میں سے کشید شدہ کچھ جانکاری آپ تک پہنچائی جائے، اور پھر ان دنوں کا سب سے اہم مدعا یعنی ’سیاسی اتفاق رائے کے بغیر استحکام، کیسے ممکن‘ پر بھی اپنی سی کوشش کر لی جائے۔ تو لیجیے سب سے پہلے وزیرِ داخلہ کی بابت عرض کیے دیے دیتے ہیں۔ یعنی اس قدر اہم عہدہ، اس قدر اہم تعلقات کے حامل، جناب نقوی آخر کیونکر اہم ترین موقعوں سے غائب رہے؟ چیمپئنز ٹرافی کا فائنل تھا، شاہ جی وہاں غیرحاضر، جعفر ایکسپریس کا افسوسناک واقع پیش آیا تو شاہ جی کے دفتر سے ان کے سٹاف کی جانب سے پریس ریلیزز تو آتی رہیں لیکن شاہ جی کہیں دکھائی نہ دیے، وزیراعلٰی بلوچستان اور ترجمان پاک فوج کی اہم بریفنگ ہوئی، شاہ جی البتہ یہاں بھی نہ پائے گئے، وزیراعظم اور سپہ سالار کوئٹہ تشریف لے گئے، وزیر داخلہ وہاں ہمراہ دکھائی نہ ددیے، پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا، نقوی سرکار اس اجلاس میں بھی غیرحاضر رہے۔ ایک اہم وفاقی وزیر کے توسط سے علم ہوا کہ اس روز وہ اجلاس شروع ہونے سے پہلے تک وہ ان کے ساتھ مسلسل فون پر رابطوں میں مصروف رہے، لیکن ان کے مطلوبہ نمبر سے مطلوبہ جواب موصول نہ ہوا۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی منظرنامے سے غائب ہیں۔ (فوٹو: وزارت داخلہ)ان کے قریبی ذرائع بتلاتے ہیں کہ اس روز وہ بیرون ملک تھے اور رات گئے غالباً وطن واپس پہنچے۔ ہوسکتا ہے کہ نجی مصروفیات ہوں، ہوسکتا ہے طبعیت ناساز ہو یا ہوسکتا ہے کہ وہ معمول کی ذمہ داریوں کے علاوہ کسی اہم ذمہ داری پر معمور ہوں۔ قیاس آرائیاں تو پھر جنم لیں گی ناں قبلہ۔ ہم فقط ایک عاجزانہ سوال ضرور اٹھائے دیتے ہیں اور وہ یہ کہ اس قدر اہم معاملات میں بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ نقوی صاحب فریم سے آؤٹ رہیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ وجہ عمومی نہیں۔ مزید جواب اسی عاجزانہ سوال میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔دوسری خبر تحریک انصاف سے جڑی ہے، چند روز پہلے عرض کی تھی کہ سلمان اکرم راجہ و دیگر کپتان سے گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ سوشل میڈیا اور ان کے نام سے منسوب ہینڈلز کی نگرانی اور خارجہ امور پر قائم کی گئی کمیٹی کا کچھ کیجیے۔ اطلاع تو تھی مگر پھر ثبوت بھی مل گیا جب پرسوں رات شیخ وقاص اکرم نے بیرسٹر گوہر کے دستخطوں سے جاری پروانہ جاری کیا۔ چار پانچ سطروں کے اس پتر میں بنا لگی لپٹی لکھا تھا کہ عمران خان کی ہدایت کے عین مطابق جنوری 2025 کو قائم کی گئی چار رکنی کمیٹی برائے فارن افیئرز فوراً تحلیل کی جاتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اس مدعے پر کوئی وجہ بیان نہ کی گئی۔ زلفی بخاری، سجاد برکی، شہباز گل اور عاطف خان پر مبنی کمیٹی دو ماہ کے اندر اندر انجام کو پہنچی۔ یہی نہیں بلکہ معلوم ہوا کہ محترمہ علیمہ خان نے بھی سوشل میڈیا کے ذمہ داروں کو قدرے احتیاط اور ذمہ دار رہنے کا پیغام دیا ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس خبر کا بظاہر سیاسی منظر نامے سے کیا تعلق؟ تو عرض ہے کہ یہ اعتماد سازی کی جانب ایک مثبت پیش رفت ہے۔ گلے شکوں کی وجہ سے ’باہمی ربط‘ بالکل منقطع ہو چکا تھا، دستیاب قیادت بے بس سی ہو چکی تھی، لہذا اپنے تئیں یہ ایک شمع جلانے کی کاوش ہے۔لیکن اس بیچ اہم ترین مدعا تو وہی ہے جو آپ سب کو بھی پریشان کیے ہوئے ہے، وہ یہ کہ پارلیمان کی حالیہ بیٹھک میں تحریک انصاف شریک نہ ہوئی، گنڈا پور بطور وزیراعلٰی ضرور وہاں تھے اور انہوں نے اپنی بساط کے مطابق دل کا بوجھ بھی خوب ہلکا کیا۔ لیکن تحریک انصاف تذبذب کا شکار رہنے کے بعد بالآخر بائیکاٹ پر مجبور ہوئی۔ حضرت مولانا بھی اس مدعے پر ان سے قدرے نالاں رہے۔ ’علیمہ خان نے بھی سوشل میڈیا کے ذمہ داروں کو قدرے احتیاط اور ذمہ دار رہنے کا پیغام دیا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)اطلاع تھی کہ اگر رات گئے یا اسی روز صبح دس تک خان سے ملاقات کروا دی جاتی تو انہیں اجلاس میں شرکت کے لیے گرین سگنل مل جانا تھا، ملاقات ہو پائی نہ اجلاس میں شرکت، ردعمل بظاہر پھر یہی ہو سکتا تھا۔ اب جبکہ سرکار ایک اعلامیہ جاری کر چکی اور اس بیچ سپہ سالار گورننس کے گیپس کی نشاندہی کر چکے، سوفٹ سٹیٹ سے ہارڈ سٹیٹ بننے کا عزم بھی کر لیا گیا، لیکن سیاسی طور پر پی ٹی آئی کی عدم شرکت سے بحیثیت مجموعی قومی اتفاق رائے کا صیغہ کوشش سے بھی اختیار کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے کیونکہ اب عید کے بعد پی ٹی آئی اور اپوزیشن الائنس اسی مدعے پر ایک اے پی سی کا انعقاد کرنے جا رہے ہیں، جس میں انہوں نے حکومت کو نہ بلانے کا اعلان کیا ہے۔ وہ بلائیں تو یہ نہیں جاتے، اور یہ انہیں بلانے سے ہی انکاری۔ تو اس بیچ یہ قومی اتفاق رائے نامی لالی پاپ تجزیوں میں کاہے کو رولا جا رہا ہے قبلہ؟