ڈارک انرجی: وہ پراسرار قوت جس نے آئن سٹائن کے کائناتی نظریے کو ہلا کر رکھ دیا ہے

بی بی سی اردو  |  Mar 20, 2025

ESAسائنسدانوں کے مطابق کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور دھکیلنے والی قوت ویسی نہیں رہی جیسی سمجھی جا رہی تھی

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈارک انرجی نامی ایک پراسرار قوت، جو کائنات کی توسیع کا باعث بنتی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔

یہ دریافت جو ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اس موجودہ نظریے سے متصادم ہے جسے جزوی طور پر البرٹ آئن سٹائن نے پیش کیا تھا۔

ان نتائج کی تصدیق کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے، لیکن اس تحقیق میں شامل سائنسدانوں میں جوش و خروش بڑھ رہا ہے۔

کچھ کا خیال ہے کہ وہ فلکیات کی دنیا کی سب سے بڑی دریافتوں میں سے ایک ایسی دریافت کے دہانے پر ہیں- جو کہ ہمیں کائنات کے بارے میں ہماری تفہیم اور نظریے پر بنیادی طور پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔

یہاں تک کہ اس مطالعے میں شامل کچھ انتہائی محتاط محققین، جیسے کہ یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر آفر لاہاو، ان نئے شواہد سے متاثر ہوئے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’یہ ایک ڈرامائی لمحہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم کائنات کے بارے میں اپنی سمجھ بوجھ میں ایک مثالی تبدیلی کا مشاہدہ کر رہے ہوں۔‘

1998 میں ڈارک انرجی کی دریافت اپنے آپ میں چونکا دینے والی تھی۔ اس وقت تک یہ نظریہ تھا کہ کائنات کی تخلیق کی وجہ بننے والے دھماکے ’بگ بینگ‘ کے بعد، کشش ثقل کی قوت کی وجہ سے اس کا پھیلاؤ سست ہو جائے گا۔

لیکن امریکی اور آسٹریلوی سائنسدانوں کے مشاہدات سے معلوم ہوا کہ یہ درحقیقت تیز ہو رہا ہے۔ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ اس کے پیچھے کارفرما قوت کیا ہے، لہٰذا انھوں نے اسے ڈارک انرجی کا نام دیا جو ان کی سمجھ کی کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔

DESIڈارک انرجی سپیکٹروسکوپک انسٹرومنٹ پانچ ہزار آپٹیکل فائبرز پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر ایک روبوٹ کے ذریعے کنٹرول شدہ ٹیلی سکوپ ہے

ہم نہیں جانتے کہ ڈارک انرجی کیا ہے اور یہ سائنس کے سب سے بڑے رازوں میں سے ایک ہے۔ تاہم ماہرین فلکیات اس کی پیمائش کر سکتے ہیں اور کائنات کی تاریخ کے مختلف مقامات پر ایک دوسرے سے دور کہکشاؤں کی سرعت کا مشاہدہ کر کے جان سکتے ہیں کہ کیا یہ تبدیل ہو رہی ہے۔

جوابات تلاش کرنے کے لیے کئی تجربات کیے گئے جن میں امریکی ریاست ایریزونا کے علاقے ٹیوسوں کے قریب واقع کٹ پیک نیشنل آبزرویٹری میں ڈارک انرجی سپیکٹروسکوپک انسٹرومنٹ (DESI) سے بھی مدد لی گئی جو پانچ ہزار آپٹیکل فائبرز پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر ایک روبوٹ کے ذریعے کنٹرول شدہ ٹیلی سکوپ ہے جو تیز رفتاری سے کہکشاؤں کا جائزہ لیتا ہے۔

پچھلے سال، جب ڈارک انرجی سپیکٹروسکوپک انسٹرومنٹ پر کام کرنے والے محققین کو یہ اشارے ملے کہ ڈارک انرجی کے ذریعے استعمال کی جانے والی قوت وقت کے ساتھ بدل گئی ہے، تو بہت سے سائنسدانوں نے سوچا کہ یہ اعداد وشمار میں آنے والا فرق ہے جو دور ہو جائے گا۔

لیکن ایک برس بعد بجائے دور ہونے کے وہ فرق بڑھ گیا ہے۔

پورٹ سمتھ یونیورسٹی کے پروفیسر شیشادری نداتھور کا کہنا ہے کہ ثبوت اب پہلے سے زیادہ ٹھوس ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے پہلے سال کے مقابلے میں بہت سے اضافی تجزیے بھی کیے ہیں، اور وہ ہمیں یقین دلا رہے ہیں کہ نتائج اس ڈیٹا میں پر نامعلوم اثر سے متاثر نہیں ہوتے ہیں جس کے بارے میں ہم لاعلم ہوں۔‘

عجیب نتائج

یہ ڈیٹا ابھی تک دریافت کے طور پر بیان کیے جانے کی حد تک نہیں پہنچا، لیکن اس نے بہت سے ماہرین فلکیات، بشمول سکاٹش ماہر فلکیات اور رائل ایڈنبرا یونیورسٹی کی پروفیسر کیتھرین ہیمنز کو اس کا نوٹس لینے پر مجبور کیا ہے۔

انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’ڈارک انرجی ہماری سوچ سے بھی زیادہ عجیب معلوم ہوتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا ’2024 میں ڈیٹا بالکل نیا تھا، کسی کو بھی اس پر پورا یقین نہیں تھا اور لوگوں کا خیال تھا کہ مزید کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن اب، بہت زیادہ ڈیٹا موجود ہے اور سائنسی برادری کی طرف سے بہت زیادہ جانچ پڑتال کی جا رہی ہے، لہذا، اگرچہ ابھی بھی ایک موقع ہے کہ 'فرق‘ دور ہو جائے لیکن اس بات کا بھی امکان ہے کہ ہم واقعی ایک بڑی دریافت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘

ESAفلوریڈا سے یورپی ٹیلی سکوپ سائنس کی دنیا کے سب سے بڑے سوال کا جواب تلاش کرنے کی مہم پر روانہ ہو چکی ہے کہ کائنات کس چیز کی بنی ہوئی ہے

تو اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟

’کوئی نہیں جانتا!‘ پروفیسر لاہاو اس بات کو خوش دلی سے تسلیم کرتے ہیں۔

’اگر یہ نیا نتیجہ درست ہے، تو ہمیں اس طریقہ کار کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو تغیر کا سبب بنتا ہے اور اس کا مطلب ایک بالکل نیا نظریہ ہوسکتا ہے، جو بہت پرجوش چیز ہے۔‘

ڈارک انرجی سپیکٹروسکوپک انسٹرومنٹ آئندہ دو برس میں تقریباً پانچ کروڑ کہکشاؤں اور دیگر روشن اشیاء کی پیمائش کرنے کے منصوبے کے ساتھ مزید ڈیٹا کا حصول جاری رکھے گا اور سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ آیا ان کے مشاہدات غیر واضح طور پر درست ہیں۔

کیلیفورنیا میں لارنس برکلے نیشنل لیب کے پوسٹ ڈاکٹریٹ محقق آندرے کوسیو نے کہا، ’ہمارا کام یہی ہے کہ کائنات سے معلوم کریں کہ وہ کیسے کام کرتی ہے اور شاید وہ ہمیں بتا رہی ہے کہ وہ ہمارے سوچ سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔‘

ڈارک انرجی کی نوعیت کے بارے میں مزید تفصیلات 2023 میں لانچ کیے جانے والے یورپی سپیس ایجنسی کے یوکلڈ مشن کے ذریعے حاصل کی جائیں گی، جو ایک خلائی دوربین ہے جو ڈارک انرجی سپیکٹروسکوپک انسٹرومنٹ سے کہیں آگے کی تحقیق کرے گی اور اس سے بھی زیادہ تفصیل حاصل کرے گی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More