BBCچنار کے تحفظ سے متعلق اس مہم کے دوران لوگوں کو آگہی بھی دی جا رہی ہے
مغل حکمران شاہ جہاں نے تقریباً 350 سال قبل انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں جھیلِ ڈل کے کنارے واقع وسیع و عریض نسیم باغ میں 1200 چنار کے درخت لگائے تھے اور اس کے بعد کئی دہائیوں تک جگہ جگہ چنار کے پودے لگانے کا رجحان عام ہو گیا۔
آج کشمیر میں شاید ہی کوئی جگہ ہو جہاں چنار کے درخت نہ ہوں۔ تاہم معاملہ سرکاری عمارتیں کھڑی کرنے کا ہو، سڑکوں کی تعمیر کا یا مبینہ سمگلرز کی ہوس کا، دہائیوں سے چنار کے درختوں کی بے دردی سے کٹائی میں بھی تیزی آئی ہے۔
چنار کے درختوں کی کٹائی کے خلاف انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں متعدد احتجاجی مظاہرے بھی ہوتے رہے ہیں اور ماہرین نے اس خوبصورت درخت کے معدوم ہونے کے خطرے سے بھی خبردار کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے محکمۂ جنگلات نے چنار کے درختوں کی جیوٹیگِنگ کی مہم شروع کی ہے اور ابھی تک اس مہم کے دوران 35 ہزار درختوں کو جیو ٹیگ کیا گیا ہے۔
BBCمہم کے دوران انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع گاندربل میں 74 فُٹ موٹے تنے والا چنار کا درخت بھی دریافت ہوا ہےکیا جیوٹیگِنگ سے چنار بچ جائیں گے؟
محکمۂ جنگلات کے محقق ڈاکٹر سیّد طارِق اس مہم کے سربراہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ایک، ایک چنار کے پاس جا کر اُس کی موٹائی، لمبائی، اُس کی صحت اور اس کا مقام نوٹ کرتے ہیں۔
’اس کے بعد ان معلومات کی کوڈنِگ ہوتی ہے، پھر اس کوڈ کو مخصوص تختی پر پرنٹ کر کے چنار کی درخت پر لگایا جاتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں اس مہم سے نہ صرف چنار کے درختوں کی اصل تعداد کا پتہ چلے گا بلکہ خفیہ طور پر درخت کاٹنے والوں کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی۔
مہم کے دوران انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع گاندربل میں اطلاعات کے مطابق 74 فُٹ موٹے تنے والا چنار کا درخت بھی دریافت ہوا ہے، جس کی متعلقہ عالمی ادارے میں اطلاع بھی دی گئی ہے۔
کشمیر: رمضان میں برف کے ریمپ پر نیم برہنہ ماڈلز کا فیشن شو تنقید کی زد میںانڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ’کمانڈوز‘ کے روپ میں سیاحوں کو لوٹنے والے بہروپیے گرفتار خواتین کو ’طلاق یافتہ‘ پکارنے پر پابندی: ’عورت کی پہچان طلاق یا شادی نہیں‘کیا مسلم رہنما میر واعظ عمر فاروق تین دہائیوں قبل وادی چھوڑ جانے والے کشمیری پنڈتوں کو واپس لا سکیں گے؟BBCچنار کے درختوں کی کٹائی کے خلاف انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں متعدد احتجاجی مظاہرے بھی ہوتے رہے ہیں
چنار کے تحفظ سے متعلق اس مہم کے دوران لوگوں کو آگہی بھی دی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر طارق کہتے ہیں کہ چناروں سے بھرے باغات میں جب لوگ آگ جلاتے ہیں تو ان کی جھُکی ہوئی شاخوں کو نقصان پہنچتا ہے، اس عمل کی وجہ سے بھی سینکڑوں درخت کھوکھلے ہو چکے ہیں۔
کشمیر میں پائے جانے والے چنار کے درختوں کی عمر 100 سے 300 سال کے درمیان ہے۔ اگر ان درختوں کو مکمل تحفظ بھی دیا جائے تب بھی یہ اگلی ڈیڑھ صدی کے دوران خود بہ خود گِر جائیں گے۔
اس خدشے کو دیکھتے ہوئے گاندربل میں ہی محکمۂ جنگلات نے ایک وسیع و عریض نرسری قائم کی ہے جہاں بہترین صحت والے چناروں کی ٹہنیاں ماہرین کی نگرانی میں بوئی گئی ہیں۔
ڈاکٹر سید طارق کہتے ہیں کہ ’اس نرسری سے ہم ہر سال مختلف علاقوں میں بونے کے لیے ہزاروں چنار کٹنگز دے سکتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اگلے پانچ سال کے دوران ہم پورے کشمیر میں پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک نئے چنار کے پودے لگا چکے ہوں گے۔‘
مذہب، سیاست اور ثقافت کی علامت
ہر باغ میں، ہر کھیت کے حاشیے پر اور ہر سڑک کے کنارے پایا جانے والا چنار کشمیر میں رہنے والوں کی زندگی کا ایک کلیدی حصہ بن چکا ہے۔
بہار اور موسمِ گرما میں ہرے بھرے چنار کی چھاوٴں ہو یا خزاں میں چنار کے سنہرے پتے، کوئی تصویر، کوئی غزل اور کوئی بھی شعر چنار کے بغیر ادھورے ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ کشمیر میں وسطی ایشیا سے آئے سینکڑوں اسلامی مبلغین کے مزارات یہاں جگہ، جگہ ہیں۔ ان میں سے بیشتر چنار کے درخت کے سائے میں ہیں اور اسی وجہ سے چنار کے درخت کو مذہبی تقدس بھی حاصل ہے۔
BBCمحکمہ جنگلات کے محقق ڈاکٹر سیّد طارِق اس مہم کے سربراہ ہیں
علامہ اقبال نے 1930 کی دہائی میں کشمیر کے حوالے سے اشعار لکھنے کے لیے بھی چنار کا ہی استعمال کیا تھا:
جس خاک کے ضمیر میں ہو آتشِ چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند
کشمیر کی سب سے بڑی اور سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے بانی اور خودمختار کشمیر کے پہلے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ نے اپنی خودنوشت سوانح کا عنوان بھی ’آتشِ چنار‘ ہی رکھا تھا۔
یہاں تک کہ چند برس قبل سرینگر میں مقیم انڈین آرمی کی پندرہویں کور کے ہیڈکوارٹر کا نام بھی ’چنار کور‘ رکھا گیا تھا کیونکہ ہزاروں کنال پر پھیلی اس فوجی چھاؤنی میں چنار کے سینکڑوں درخت ہیں۔
چنار کے درختوں سے گھِری کشمیر کی وادیوں میں بالی ووڈ کی درجنوں فلمیں شوٹ ہوئی ہیں۔ سنہ 1972 میں بننے والی فلم ’انتظار‘ کا ایک گانا جھیل ڈل کے کنارے چنار کے درختوں کے بیچ شوٹ کیا گیا تھا۔
حسرت جے پوری کی لکھی گئی فلم کا ایک گانے کا ایک شعر آج بھی زبان زدِ عام ہے:
کبھی ہم ساتھ گزرے جن سجیلی راہ گزاروں سے
فضا کے بھیس میں گرتے ہیں پتے اب چناروں سے
یہ راہیں یاد کرتی ہیں، یہ گلشن یاد کرتا ہے
بے دردی بالما تجھ کو میرا من یاد کرتا ہے
پرندوں کا مسکن
ڈاکٹر سید طارق کا کہنا ہے کہ چنار صرف خوبصورتی کی علامت نہیں بلکہ یہ مختلف پرندوں کا مسکن بھی ہے اور ساتھ ہی فضائی آلودگی کے خلاف ایک قدرتی آلہ بھی۔
’چنار بہت اونچے ہوتے ہیں۔ جڑوں کے قریبی حصوں پر نیولے اپنا گھر بناتے ہیں، اس کے بعد والی اونچائی پر چھوٹے پرندے ہوتے ہیں، اس کے بعد کوّے اپنا بسیرا کرتے ہیں اور سب سے اونچائی پر چیلیں اپنا گھونسلا بناتی ہیں۔
’کاٹا جائے تو صرف چنار ہی نہیں گرتا بلکہ سینکڑوں پرندوں کا گھر بھی اُجڑ جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ہوا سے جتنا کاربن ڈائی آکسائیڈ 200 پودے جذب کر لیتے ہیں اُتنا صرف ایک چنار جذب کرتا ہے۔
’نئی دہلی میں فضائی آلودگی کا بحران شدید ہوا تو وہاں کسی نے کہا تھا کہ اگر یہاں موسم موافق ہوتا تو صرف پچاس چنار اس آلودگی کو ختم کر سکتے تھے۔‘
کشمیر میں چنار کے درختوں کو تحفظ دینے کے لیے 1969 کا ایک قانون نافذ کیا گیا جس کے تحت چنار کاٹنا ایک جرم ہے اور اس کی شاخ تراشی کے لیے بھی سرکاری اجازت لازمی ہے۔
لیکن چنار کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے اس قانون کو مزید سخت بنانے کے مطالبات دہائیوں سے کیے جا رہے ہیں اور یہاں کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ چنار کو ’وراثتی درخت‘ یا ہیری ٹیج ٹری قرار دیا جائے۔
کارگل کی جنگ، دنیا کا سب سے پرخطر سفر اور شاہراہ ریشم کے ’آخری تاجر کا خزانہ‘کشمیر میں بچوں سمیت 17 افراد کی جان لینے والی پراسرار بیماری جس سے بے ہوشی کے کچھ دیر بعد موت ہو جاتی ہےانڈیا کے کشمیر سے لداخ تک سُرنگیں تعمیر کرنے کے پیچھے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟پاکستان جانے کی دھمکی: ’سسرال میں دم گھُٹا تو میری بہن ایل او سی کی طرف نکل گئی‘درگاہ حضرت بل سے ’موئے مقدس‘ کی چوری اور بازیابی کے لیے آئی بی کا ’خفیہ آپریشن‘، جو 61 برس بعد بھی ایک معمہ ہے