اسلام آباد ( زاہد گشکوری، ابوبکرخان، مجاہد حسین )پاکستان میں پچھلے پچیس سال میں چاند دیکھنے پر حکومت کے لگ بھگ دو ارب روپے زائد کا خرچہ ہوا ہے۔
ہم انویسٹی گیٹس کی تحقیق کے مطابق یہ خراجات چاند دیکھنے والی مرکزی اور زونل کمیٹیوں کے اجلاس اور ان سے جڑے سرکاری ملازمین اور ممبران کی تنخواہوں، ٹی اے ڈے اور سفری انتظامات پر آئے ہیں۔
ہم انوسٹی گیٹس کی ٹیم نے ان تمام سوالات، کیا اس سال پورے ملک میں ایک ہی دن عید الفطر منائی جائے گی؟ مرکزی رویت ہلال کمیٹی چاند پر اتفاق رائے قائم کر سکے گی یا نہیں؟ رویت ہلال پر تنازعہ کب اور کیسے شروع ہوا؟رویت کمیٹی، محکمہ موسمیات اور سپارکو کو الگ الگ چاند کیوں نظر آتا ہے؟ رویت ہلال کمیٹی، ماہرین موسمیات یا جدید سائنس، فتح کس کی ہو گی؟ کے جوابات ڈھونڈنے کیلیے تحقیقات کی ہیں۔
پاکستان میں رمضان کا تیسرا عشرہ شروع ہوتے ہی لوگوں میں عید کے چاند کو لے کر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ چند برسوں سے عیدالفطر کے دن کا تعین ایک تنازعے کی سی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
عیدالفطر کا چاند دیکھنے کیلئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس 30 مارچ طلب
آخری دو تین روزے اس ہیجان میں گزر جاتے جاتے ہیں کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی شوال کے چاند کا اعلان کرے گی یا پشاور کی مسجد قاسم علی خان کی تشکیل کردہ کمیٹی اعلان کر دے گی، پورے ملک میں ایک ساتھ ایک ہی روز عید منائی جائے گی یا دو عیدیں ہوں گی ۔پاکستان میں عید سعودی عرب کے ساتھ ہو گی یا بعد میں؟۔
بعض لوگ جیسا کہ سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا موقف تھا کہ قمری کیلنڈر جدید سائنسی اُصولوں اور ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کیا جانا چاہیے جو انہوں نے اپنی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں تیار بھی کروایا۔مئی 2019 میں فواد چوہدری نے قمری کیلنڈر کی تیاری اور چاند دیکھنے کے لیے سائنسی طریقوں کے استعمال کی تجویز پیش کی تو ملک کے مذہبی حلقوں میں بھونچال آ گیا ، مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چئیرمین مفتی منیب الرحمن نے وفاقی وزیر کی اس تجویز کو رد کیا۔
پاکستان علما کونسل کے چئیرمین مولانا طاہر اشرفی اگرچہ رویت ہلال کے حوالے سے جدید سائنسی آلات کی مدد کو غیرمناسب نہیں سمجھتے لیکن وہ حکومت کی طرف سے قائم کردہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے حجم پر اعتراض ضرور اُٹھاتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں چاند دیکھنے اور اسلامی سال کے کیلنڈر کا آغاز عام طور پر مقامی سطح پر تنازعات کا موجب رہا ہے۔اس حوالے سے تنازعات کی تاریخ اُتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی اپنی تاریخ۔حکومتی سطح پر اس حوالے سے پہلا باقاعدہ قدم ذوالفقار علی بھٹو دور میں اُٹھایا گیا جب قومی سطح پر قمری مہینوں کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی بنائی گئی۔
سعودی عرب اور پاکستان میں ایک ہی روز عید الفطر ہونے کے امکانات
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے باقاعدہ قیام سے بہت پہلے چاند نظر آنے یا نہ نظر آنے کے معاملے پر تنازعات کا آغاز ہو چکا تھا۔ سب سے پہلا تنازعہ 1958 میں سامنے آیا جب پہلی مرتبہ پشاور میں مرکزی حکومت کے اعلان سے ایک دن پہلے عید منائی گئی۔
رویت ہلال کے معاملے پر قومی سطح پر دوسرا تنازعہ ایوب خان دور میں پیدا ہوا ، 1961 میں ایوب خان حکومت نے رات گئے اپنا رویت ہلال کا اعلان تبدیل کیا جس کے نتیجے میں ملک میں دوعیدیں منائی گئیں جبکہ پشاور میں پہلے ہی سعودی عرب کے چاند کے مطابق عید منائی جا چکی تھی۔ یوں 1961 میں پاکستان کے مختلف حصوں میں مجموعی طور پر عیدالفطر تین مرتبہ منائی گئی۔
1966 اور 1967 میں رویت ہلال کا تنازعہ اس قدر بڑھ گیا کہ حکومتی اعلانات کے مقابلے میں مختلف مکاتب فکر کے اپنے اپنے اعلانات سامنے آنے لگے اور بالاخر حکومت کو کئی ممتاز مذہبی رہنماؤں کو نظر بند کرنا پڑا۔
ہر سال عیدین کے مواقع پر رویت ہلال کے معاملے پر بڑھتے ہوئے تنازعات کی روک تھام کے لیے باقاعدہ ایک مرکزی رویت ہلال کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے دو درجن سے زائد ممبران سال میں چار مرتبہ جمع ہوتے ہیں۔ کمیٹی کے ممبران اور سپورٹنگ اسٹاف رمضان کا چاند پشاور میں دیکھتے ہیں۔ شوال کا چاند اسلام آباد میں دیکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ذوالحج کا چاند کراچی اور محرم کا چاند کوئٹہ میں دیکھا جاتا ہے۔
رویت ہلاک کی زونل کمیٹیوں کے ارکان کی تعداد 32 ہے ۔ یہ زونل کمیٹیاں ہر ماہ کی 29 تاریخ کو چاند دیکھنے کے لیے میٹنگ کرتی ہیں۔ موجودہ اور ریٹائرڈ ممبران اور مذہبی اُمور کی وزارت کے ملازمین سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے پچھلے 25 برسوں میں چاند دیکھنے کے لیے 100 جبکہ زونل کمیٹیوں نے چاند دیکھنے کے لیے 300 اجلاس منعقد کیے۔
ہم انویسٹی گیٹس کی تحقیقات کے مطابق 1999 کے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے ممبران اور معاون عملے کی تنخواہوں، کھانے پینے،رہائش اور سفری اخراجات پر مجموعی طور پر 57 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔2001 کے بعد زونل کمیٹیوں کے مختلف شہروں میں 300 اجلاس منعقد کیے جا چکے ہیں جن پر مجموعی طور پر 95 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
وزارت مذہبی اُمور،سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت، اسپارکو اور محکمہ موسمیات کے 25 سے زائد ملازمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی معاونت کرتے ہیں۔ اِن ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر 20 برسوں میں قومی خزانے سے 17 کروڑ روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔
رویت ہلال کے حوالے سے تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب جولائی 2020 میں ذوالحج کے چاند کو لے کر وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چئیرمین مفتی منیب الرحمن کے درمیان الفاظ کی جنگ شروع ہو گئی۔فواد چوہدری اور مفتی منیب الرحمن کے درمیان یہ تنازعہ چاند دیکھنے کے روایتی اور سائنسی طریقوں کے استعمال پر اختلافات کی عکاسی کرتا تھا۔فواد چوہدری سائنسی ٹیکنالجی کے استعمال کے حامی تھے جبکہ مفتی منیب الرحمن صدیوں سے چلی آتی روایت پر زور دیتے رہے۔
وزیر صحت پنجاب کا عید الفطر سےقبل محکمہ صحت کے ملازمین کو تنخواہیں دینے کااعلان
2021 میں کمیٹی کے اعلان کے بعد ملک بھر میں عیدالفطر منائی گئی، لیکن کمیٹی کے بعض ارکان نے اس فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے عوام کو تلقین کی کہ ایک روزہ قضا کے طور پر رکھا جائے۔اِن ارکان کا موقف تھا کہ چاند نظر آنے کی شہادتیں مستند نہیں تھیں اور رویت ہلال کمیٹی نے جلد بازی میں فیصلہ کیا۔
خیبر پختونخوا میں عام طور پر مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کو اہم نہیں سمجھا جاتا اور صوبے کے زیادہ تر شہروں میں سعودی عرب کے ساتھ عید منائی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں چاند دیکھنے کا عمل سپریم کورٹ کی زیر نگرانی ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ عوام سے درخواست کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص چاند دیکھے تو وہ قریبی عدالت میں گواہی دے۔
اگرچہ سعودی علما فلکیاتی حسابات کو ایک معاون ذریعہ کے طور پر دیکھتے ہیں، مگر اصل فیصلہ آنکھ سے دیکھنے (مجرّد رویت) کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اگر دو معتبر گواہ چاند دیکھنے کی شہادت دیتے ہیں تو مہینہ شروع ہونے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔سعودی عرب میں مختلف مقامات پر رویت ہلال کمیٹیاں کام کرتی ہیں، جو چاند دیکھنے کے لیے خاص مقامات پر جاتی ہیں۔
پاکستان میں اب بھی رویت ہلال کے حوالے سے تنازعات جاری ہیں، مثال کے طور پر رواں رمضان المبارک کے چاند کے اعلان میں تاخیر اور مختلف علاقوں میں چاند نظر آنے یا نہ آنے کی اطلاعات کے باعث عوام میں ابہام پیدا ہوا۔اس کے علاوہ خیبر پختنوخوا میں بعض اوقات رویت ہلال کمیٹی کے اعلان سے قبل ہی عید منانے کی روایت برقرار ہے جو اکثر اوقات تنازعات کا باعث بنتی ہے۔