امریکی شہریت کے لیے ٹرمپ کی ’گولڈ کارڈ‘ ویزہ سکیم کے 1000 کارڈ ایک ہی دن میں فروخت

اردو نیوز  |  Mar 25, 2025

امریکہ کے وزیر تجازت ہاورڈ لٹنک کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ کی ’گولڈ کارڈ‘ ویزہ سکیم مقبول ہو رہی ہے۔

ہاورڈ لٹنک کا ’آل ان پوڈ کاسٹ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انہوں نے ایک ہی دن میں ایک ہزار گولڈ کارڈ فروخت کر دیے ہیں اور لوگ گولڈ کارڈ خریدنے کے لیے بڑی تعداد میں رابطہ کر رہے ہیں۔

وزیرتجارت کا کہنا تھا کہ ’گولڈ کارڈ‘ ویزہ سکیم کا باقاعدہ آغاز دو ہفتے کے اندر کیا جائے گا۔

ان کے مطابق اس وقت ایلون مسک اس پروگرام کے لیے سوفٹ ویئر تیار کروا رہے ہیں اور اس کے بعد دو ہفتوں کے اندر اسے لانچ  کیا جائے گا۔ ’گذشتہ دن میں نے اس ویزہ سکیم کے ایک ہزار کارڈ فروخت کیے۔‘

’اگر آپ امریکی ہیں تو آپ گلوبل ٹیکس ادا کرتے ہیں، لیکن باہر کے لوگ گلوبل ٹیکس دینے امریکہ نہیں آئیں گے۔ تو اگر آپ کے پاس گرین کارڈ ہے یا اب گولڈ کارڈ ہے تو آپ امریکہ کے مستقل رہائشی (ٹیکس ادا کیے بغیر) ہوں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ آپ شہریت حاصل کرسکتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ لازمی شہری بن جائیں، اور ان میں سے کوئی بھی نہیں بنے گا۔ (تاکہ ان کو گلوبل ٹیکس نہ دینا پڑے)۔

امریکی وزیر تجارت کے مطابق امریکہ نے 1000 گولڈ کارڈ 50 لاکھ ڈالر فی کارڈ کے حساب سے فروخت کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں 5 ارب ڈالر کی رقم امریکہ آئی۔

ان کے مطابق اس پروگرام کی سرمایہ کاروں میں بہت طلب ہے۔

امریکی وزیر تجارت کا کہنا ہے کہ ایلون مسک ویزہ پروگرام کے لیے سوفٹ ویئر تیار کروا رہے ہیں (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)امریکی وزیر تجارت کا کہنا تھا کہ ’جو افراد 50 لاکھ ڈالر میں ’گولڈ کارڈ‘ خرید کر امریکہ میں رہنے کے حقوق حاصل کریں گے۔ ان کی چھان بین کی جائے گی تاکہ یہ کارڈ اچھے افراد کو ملے۔‘

’اگر کارڈ خریدنے والے بُرے افراد نکلے یا کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث پائے گئے تو امریکہ ان کا کارڈ منسوخ بھی کر سکتا ہے۔‘

ہاورڈ لٹنک کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ’دنیا میں تین کروڑ 70 لاکھ افراد ایسے ہیں جو امریکہ کا ’گولڈ کارڈ‘ خرید سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ ہم 10 لاکھ گولڈ کارڈ فروخت کر سکتے ہیں۔‘

امریکی وزیر تجارت نے مزید بتایا کہ ’اس سرکاری پروگرام سے حاصل شدہ رقم کو مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More