اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جانب سے اردو نیوز کے صحافی وحید مراد کی درخواستِ ضمانت منظور ہونے کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔
پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں گرفتار وحید مراد کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر جمعے کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں پیش کیا۔
ایف آئی اے حکام نے انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش کیا، جہاں سماعت کے بعد عدالت نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا۔
جوڈیشل ریمانڈ کے فیصلے کے فوراً بعد وحید مراد کی جانب سے وکلا نے ضمانت کے لیے درخواست دائر کی، جس پر عدالت نے 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی۔
جمعے کو جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ نے کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے حکام سے استفسار کیا کہ اب تک کیا مواد برآمد کیا گیا ہے۔ اس پر وکیل ایمان مزاری نے مؤقف اختیار کیا کہ وحید مراد نے صرف اختر مینگل کے الفاظ کو کوٹ کرتے ہوئے پوسٹ کی تھی۔
وکیل ہادی علی چٹھہ نے بھی کہا کہ پہلی ٹویٹ دراصل اختر مینگل کے بیان پر مبنی تھی۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض وحید مراد کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کر لی۔
وحید مراد کے وکلاء ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے ریمانڈ کے فیصلے کو ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکہ کی عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ تاہم ضمانت کے بعد ایمان مزاری نے مؤقف اپنایا کہ درخواست غیر مؤثر ہو چکی ہے، اس لیے اسے واپس لینا چاہتے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے درخواست نمٹا دی۔
صحافی وحید مراد پر پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ فوٹو: اردو نیوزوحید مراد کے اہل خانہ کے مطابق منگل اور بدھ کی درمیانی شب اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ میں واقع ان کے گھر سے ’کالے کپڑوں میں ملبوس نقاب پوش افراد نے اغوا‘ کر لیا تھا۔بدھ کو ہی ایف آئی اے نے وحید مراد کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں انھیں اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈسیشن کورٹ میں جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش کیا تھا۔سماعت کے بعد عدالت نے ان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے ایف آئی اے کے حوالے کر دیا تھا۔ عدالت کی جانب سے دو روزہ جسمانی ریمانڈ کی منظوری کے بعد وحید مراد کو ایف آئی اے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر جی۔ 13 منتقل کر دیا گیا تھا۔وحید مراد کے خلاف درج ایف آئی آر میں پیکا ایکٹ کے سیکشن9، 10، 20 اور 26 اے کا اطلاق کیا گیا ہے۔