لاہور میں یوگا سٹوڈیوز کا بڑھتا ہوا کلچر، صحت مند زندگی کی ضروت یا سٹیٹس سمبل

اردو نیوز  |  Mar 31, 2025

’یہ آج سے پچیس چھبیس سال پہلے کی بات ہے جب میں بازار گئی تو دکاندار نے مجھے گود میں بچہ اٹھائے دیکھا تو بولا آنٹی آپ بیٹھ جائیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے محسوس ہوا کہ میرے موٹاپے نے مجھے اپنی عمر سے بہت بڑا بنا دیا ہے۔‘

یہ کہانی ہے لاہور میں یوگا سٹوڈیو چلانے والی ماہر یوگا ٹیچر امبرین اسد کی جو اب اپنی زندگی تبدیل کرنے کے بعد سینکڑوں دوسرے افراد کی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلی لا چکی ہیں اور ان کا یہ مشن ابھی بھی جاری ہے۔

’میری گود میں خالہ کی تین سالہ بیٹی یعنی میری کزن تھی۔ میں نے گھر آ کر پہلی بار خود کو غور سے دیکھا اور میرے دماغ نے ایک فیصلہ کیا کہ میں اپنے آپ کو اس موٹاپے سے آزاد کروں گی۔‘

امبرین نے اپنی کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے 1999 کے آس پاس اپنے موٹاپے کے لیے یوگا سیکھنے کا فیصلہ کیا اور یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں یوگا سے متعلق زیادہ علم نہیں تھا۔

امبرین کراچی میں پیدا ہوئی تھیں اور وہیں انہوں نے ایک امریکی جوڑے سے یوگا سیکھنا شروع کیا اور آج تک کر رہی ہیں۔

لاہور منتقل ہونے کے بعد امبرین یوگا کی ماہر ہو چکی تھیں اور پھر انہوں نے اپنا سٹوڈیو بنانے کا فیصلہ کیا۔

’میں نے کوئی 15 یا 16 سال پہلے سٹوڈیو بنایا۔ میرے سٹوڈیو میں ایسی خواتین کی تعداد زیادہ ہے جنہوں نے مجھے انہی دنوں میں جوائن کیا۔ یعنی ایک دفعہ کوئی میرے سٹوڈیو میں آتا ہے تو پھر اسے چھوڑنا زرا مشکل ہی لگتا ہے۔ جسمانی صحت کو اس کی اصل حالت میں رکھنے کے لیے یوگا سے بڑھ کر کوئی ایکسرسائز نہیں ہے۔ لیکن درست آسن کا سیکھنا اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔‘

امبرین کا کہنا تھا کہ پچھلے چند سالوں میں یوگا کا ٹرینڈ آیا ہے اور ہر گلی کوچے میں یوگا سٹوڈیو کھل گئے ہیں جو شاید ایک سٹیٹس سمبل بن بھی گیا ہے۔ 

’لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایسی کوئی باڈی نہیں ہے جو یوگا کو ریگولیٹ کر سکے۔ دنیا بھر میں یوگا الائنسز ہیں جو اس تکنیک کو درست حالت میں رکھنے کے لیے کئی راہنما اصول بنا چکے ہیں اور باقاعدہ سرٹیفیکیشن دی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں جتنی بڑی تعداد میں یوگا سٹوڈیو کھل چکےہیں ان کا چیک اینڈ بیلنس بالکل نہیں ہے۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ یوگا سنٹرز یا سٹوڈیوز کی رجسٹریشن سے متعلق پاکستان میں کوئی قانون یا ضابطہ نہ ہونے کی وجہ سے اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ بڑے شہروں میں کل کتنے یوگا سٹوڈیو کام کر رہے ہیں اور اصل میں یوگا کے ماہر اساتذہ ہیں بھی یا نہیں۔

رومی یوگا کے نام سے ہی لاہور میں یوگا سنٹر چلانے والے ضیامحی الدین کہتے ہیں کہ ’میں نے سٹوڈیو کھولنے سے پہلے یوگا سیکھنے کے لیے کئی ملکوں کا سفر کیا اور مکمل عبور حاصل کرنے اور بین الاقوامی سرٹیفکیشن کے بعد  اپنا سٹوڈیو کھولا۔ اب لوگوں میں مکمل ذہنی اور جسمانی صحت کی آگاہی بڑھ رہی ہے۔ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے کئی لوگ یوگا سیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگ آن لائن کورسز سے ہی سیکھ کر اپنے سینٹر کھول رہے ہیں۔ کیونکہ یہ سب سے آسان ہے۔ چونکہ ابھی پوش علاقوں میں یوگا کا رجحان زیادہ ہے اس لیے یہ ایک پر کشش کاروبار بھی ہے۔ اور زیادہ لوگ اس میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔‘

یوگا سکھانے والوں کی مہارت کتنی ہے؟

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اس بات کی کھوج لگانا مشکل ہے کہ آن لائن سیکھ کر یوگا کی تربیت دینے والے خود کس معیار کے استاد ہیں۔ چونکہ پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں ہی ان سنٹرز کی بہتات ہوئی ہے۔ اگلے کچھ وقت میں اس پر کوئی ریگولیشن بھی ہو گی تو صورت حال خود بخود بہتری کی طرف چلی جائے گی۔ پہلے تو یہ بھی مسئلہ تھا کہ یہ معاشرہ یوگا کو قبول بھی کرتا ہے یا نہیں اب کم از کم لوگوں کے مثبت رجحان کی وجہ سے ہمیں کچھ حوصلہ ہوا ہے۔‘

لاہور کے مختلف پارکس میں کئی یوگا سکھانے والے لوگوں کو مفت تربیت فراہم کرتےہیں۔ حال ہی میں پارکس کی دیکھ بھال کرنے والی اتھارٹی پی ایچ اے نے ریس کورس پارک میں ایک اوپن یوگا سنٹر بنایا ہے جہاں لوگوں کو فری تربیت دی جاتی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سینٹر کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی ہے۔

امبرین اسد کہتی ہیں کہ لوگ زیادہ تر بیماریوں خاص طور پر جوڑوں، کمر درد اور موٹاپے کی تکلیف سے چھٹکارا پانے کے لیے ان کے پاس آتے ہیں۔ چونکہ یوگا ایک مکمل صحت مند زندگی کے اصولوں کے تحت کام کرتا ہے اس لیے اس سے سہولت حاصل کرنے والوں کی تعداد اب پاکستان میں بھی  بڑھ رہی ہے۔

’میرے خیال میں اس وقت صرف لاہور میں پچاس کے قریب یوگا سینٹرز کھل چکے ہیں جبکہ چند سال پہلے ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہ ایک اچھا شگون ہے لیکن یوگا کی کوالٹی کو برقرار رکھنا بھی اب مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ عام افراد اس بات کا تعین نہیں کر سکتے کہ کون سا یوگا ٹیچر واقعی میں اصلی معیار کا ہے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More