آٹو انڈسٹری میں نئی کمپنیوں کی آمد، کیا گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی آئے گی؟

اردو نیوز  |  Apr 01, 2025

پاکستان کی آٹوموبائل انڈسٹری، جو کئی دہائیوں سے صرف تین جاپانی کمپنیوں ٹویوٹا، سوزوکی اور ہونڈا یعنی ’بگ تھری‘ کے رحم و کرم پر تھی، اب ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ پچھلے پانچ سال کے دوران نئی کار ساز کمپنیوں کی آمد، صارفین کی بدلتی ہوئی ترجیحات، اور معاشی حالات میں اتار چڑھاؤ نے اس انڈسٹری کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔

جہاں کبھی صارفین کے پاس محدود آپشنز تھے اور وہ مہنگی، کم خصوصیات کی حامل گاڑیاں خریدنے پر مجبور تھے، وہیں اب جنوبی کوریا اور چین کی کمپنیاں جدید اور نسبتاً سستی گاڑیوں کے ساتھ مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔

گزشتہ پانچ سال میں پاکستان میں کئی بین الاقوامی کار ساز کمپنیوں نے مقامی سطح پر مینوفیکچرنگ پلانٹس لگائے ہیں، جس سے آٹو انڈسٹری میں مسابقت میں اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کے مطابق نئی کمپنیوں کی آمد سے مقابلہ بڑھا، لیکن جاپانی برانڈز کی مشکلات کی اصل وجہ صرف یہی نہیں۔ پاکستان کی معیشت میں 2019 سے شدید اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملا ہے، جس نے آٹو انڈسٹری کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ روپے کی قدر میں مسلسل کمی، مہنگائی میں اضافہ، بینکوں کی طرف سے گاڑیوں کے لیے قرضوں میں کمی، اور حکومت کی جانب سے درآمدی پابندیاں وہ عوامل ہیں جنہوں نے صارفین کی قوتِ خرید کو محدود کر دیا۔

اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2023 میں کئی بڑی کمپنیوں کو عارضی طور پر اپنے پلانٹس بند کرنے پڑے۔ ٹویوٹا انڈس موٹرز نے 58 دن، ہونڈا نے 78 دن، اور سوزوکی نے 89 دن تک پیداوار روک دی، کیونکہ گاڑیاں فروخت نہیں ہو رہی تھیں اور درآمدی پرزہ جات کی قلت پیدا ہو گئی تھی۔ تاہم، ان مشکلات کے باوجود کسی بڑی کمپنی کا پلانٹ مستقل طور پر بند نہیں ہوا، بلکہ ان کے پاس پیداوار کم کرنے اور اخراجات میں کمی جیسے راستے اپنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

انجینیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے مطابق، گزشتہ پانچ سال میں کئی نمایاں کمپنیوں نے پاکستان میں آٹو  پلانٹس لگائے ہیں۔

کِیا سپورٹیج، کِیا سورینٹو، کِیا اسٹونک اور کیا پکانٹو جیسے ماڈلز پاکستانی مارکیٹ میں مقبول ہیں۔ (فوٹو: فیس بک)ہنڈائی نشاط موٹرز

 2020میں ہنڈائی نے نشاط گروپ کے ساتھ مل کر فیصل آباد کے ایم تھری انڈسٹریل سٹی میں ایک جدید مینوفیکچرنگ پلانٹ قائم کیا۔ یہ پلانٹ سالانہ 15,000 گاڑیاں بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہنڈائی ٹکسن، سوناٹا اور ایلینٹرا جیسی گاڑیاں مارکیٹ میں متعارف کروا چکا ہے۔

کِیا لکی موٹر

کِیا نے 2019 میں پاکستان میں قدم رکھا اور کراچی میں اپنا مینوفیکچرنگ پلانٹ قائم کیا۔ اس کے بعد کِیا سپورٹیج، کِیا سورینٹو، کِیا اسٹونک اور کیا پکانٹو جیسے ماڈلز پاکستانی مارکیٹ میں متعارف کروائے، جو عوام میں خاصے مقبول ہوئے۔

ایم جی موٹرز پاکستان

برطانوی نژاد چینی کمپنی ایم جی موٹرز نے 2020 میں پاکستان میں قدم رکھا اور MG HS، MG ZS اور MG ZS EV جیسی گاڑیاں متعارف کروائیں۔ ایم جی جلد ہی مقامی سطح پر اپنی گاڑیوں کی اسمبلنگ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ووکس ویگن اور سکودا پریمیئر موٹرز

جرمن کار ساز کمپنی ووکس ویگن اور اس کی ذیلی کمپنی سکودا نے 2024 تک پاکستان میں مینوفیکچرنگ پلانٹ لگانے کا اعلان کیا۔ یہ پلانٹ حب، بلوچستان میں قائم کیا جا رہا ہے، جہاں ووکس ویگن کی مسافر اور کمرشل گاڑیاں اسمبل کی جائیں گی۔

برطانوی نژاد چینی کمپنی ایم جی موٹرز نے 2020 میں پاکستان میں قدم رکھا۔ (فوٹو: ایم جی موٹرز)بی وائی ڈی اور میگا موٹرز

چین کی سب سے بڑی الیکٹرک گاڑی بنانے والی کمپنی بی وائی ڈی نے 2026 تک پاکستان میں الیکٹرک وہیکل پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ کراچی کے قریب پورٹ قاسم میں یہ پلانٹ قائم کیا جا رہا ہے، جہاں مقامی مارکیٹ کے علاوہ گاڑیاں برآمد بھی کی جا سکیں گی۔

گاس آٹو گروپ

چین کی گاس آٹو گروپ نے کراچی کے اسپیشل اکنامک زون میں 1000 ایکڑ پر مشتمل الیکٹرک گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ فیکٹری لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اس اقدام سے پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت کو مزید فروغ ملے گا۔

بگ تھری کا مارکیٹ شیئر بتدریج کم ہو رہا ہے

پاکستان کی آٹو انڈسٹری میں جہاں نئے کھلاڑیوں نے انٹری دی ہے، وہیں ’بگ تھری‘ کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ 2018 میں، ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی کی مارکیٹ میں مکمل اجارہ داری تھی، لیکن 2024 تک ان کی مجموعی مارکیٹ شیئر کم ہو کر 76 فیصد رہ گئی ہے۔

پاکستان آٹوموبائل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے اعدادوشمار کے مطابق، مالی سال 2024 کے اختتام تک ’بگ تھری‘ نے مجموعی طور پر 85,681 گاڑیاں فروخت کیں، جو 2009 کے بعد سب سے کم تعداد ہے۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ صارفین نئی کمپنیوں کی جانب بڑھ رہے ہیں، جو زیادہ بہتر اور جدید گاڑیاں پیش کر رہی ہیں۔

موجودہ حالات میں گاڑیاں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ (فوٹو: پاک وہیلز)ماہرین کے مطابق پاکستان کی آٹوموبائل انڈسٹری میں ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے، جہاں ’بگ تھری‘ کی اجارہ داری ختم ہو رہی ہے اور نئی کمپنیاں مارکیٹ میں اپنا مقام بنا رہی ہیں۔ اس تبدیلی کا سب سے زیادہ فائدہ صارفین کو ہو رہا ہے، جو اب زیادہ آپشنز، جدید ٹیکنالوجی اور بہتر قیمتوں کے ساتھ گاڑیاں خرید سکتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ حالات میں گاڑیاں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ غریب آدمی تو پہلے ہی موٹر سائیکل پر گزارا کر رہا ہے یا بسوں میں سفر کرنے پر مجبور ہے، لیکن اب درمیانے طبقے کے لیے بھی گاڑی کا حصول ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ حکومت سخت شرائط کے تحت کمپنیوں کو مقامی پیداوار کی طرف لے کر آئے۔ جب زیادہ تر پرزے ملک میں تیار ہوں گے، تبھی گاڑیوں کی قیمتیں کم ہوں گی اور عام لوگوں کی قوت خرید میں آ سکیں گی۔

ماہرین کے مطابق، اگر ’بگ تھری‘ نے اپنی حکمت عملی تبدیل نہ کی، قیمتوں کو متوازن نہ رکھا اور جدید فیچرز متعارف نہ کروائے، تو مستقبل میں ان کے لیے مزید مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔ آنے والے سالوں میں، مزید بین الاقوامی کمپنیوں کی پاکستان میں آمد متوقع ہے، جو آٹو انڈسٹری کو مزید ترقی اور مقابلے کی طرف لے جائے گی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More