چاند کا تنازع اور ’توہم پرستانہ اقتدار پسندی‘: جب عید کے ’سرکاری اعلان‘ سے اختلاف پر علما کو جیل جانا پڑا

بی بی سی اردو  |  Mar 31, 2025

Getty Imagesایوب خان اکتوبر 1958 سے مارچ 1969 تک پاکستان کے صدر رہے تھے

’اُس سال دو عیدیں ہوئیں تو لوگیہ گنگناتے پھرنے لگے ’مائے میریے نی مینوں بڑا چا، کہ دو عیداں کر میریاں۔‘ صحافی محمود شام نے یہ جملہ اس وقت ادا کیا جب میں نے بی بی سی کے لیے ان سے ساٹھ کی دہائی میں فوجی صدر ایوب خان کے دورمیں رویت ِ ہلال کے تنازع کا پوچھا۔

محمود شام نے بتایا کہ ’یہ 1961 کی بات ہے۔ میں ابھی زیرِ تعلیم تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رویت ہلال کے مسئلے پر تنازع شروع ہوا تھا۔‘

’تب کی دو عیدیں یاد پڑتی ہیں۔ اس وقت کا ایک مشہور گانا تھا ’مائے میریے نی مینوں بڑا چا، کہ دوگتُاں کر میریاں‘ تولوگوں نے اس کو بنا دیا ’مائے میریے نی مینوں بڑا چا، کہ دو عیداں کر میریاں۔‘

اصل نغمہ سنہ 1950 میں ایک انڈین پنجابی فلم کے لیے گلوکارہ آشا بھوسلے نے گایا تھا اور پاکستانی پنجاب میں بھی مقبول ہوا۔ ’مائے میریے نی مینوں بڑا چا، کہ دو گُتاں کر میریاں‘ کا سیدھا سیدھا مفہوم اردو میں یہ بنتاہے کہ ’ماں مجھے بہت چاؤ ہے کہ میری دوچُٹیا بنا دے۔‘

لیکن ایوب خان کے دور میں عید کا تنازع شروع کیسے ہوا تھا؟

رویت ِ ہلال پاکستان میں

رویت ہلال یا چاند نظر آنے کا فیصلہ کرنے والے پہلے سرکاری ادارے کا قیام 1948 میں ہوا جو علمائے دین پر مشتمل تھا۔

عقیل عباس جعفری کی تصنیف پاکستان کرونیکل (پاکستان کا عوامی انسائیکلوپیڈیا) کے مطابق ایک انتظامی حکم کے تحت قائم اس پہلی کمیٹی کے ارکان میں مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا محمد صادق، مولانا عبد الحامد بدایونی اور مولانا عبدالعلیم صدیقی شامل تھے۔

Getty Imagesرویت ہلال یا چاند نظرآنے کا فیصلہ کرنے والے پہلے سرکاری ادارے کا قیام1948 میں ہوا جو علمائے دین پر مشتمل تھا

لیکن جعفری لکھتے ہیں کہ 1953 میں عید کاچاند متنازع ہو گیا اور عابد حسین ماہ نامہ ہیرالڈ میں اپنے مضمون ’مون گیزنگ‘ میں بتاتے ہیں کہ 1958 میں پشاور میں باقی ملک سے ایک دن پہلے عیدالفطر منائی گئی۔

عید کے چاند پر دونوں بار یہ تنازع ویسا ہی تھا جیسا حالیہ دہائیوں میں بھی کچھ موقعوں پر سامنے آتا رہا ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی ایک طرف اور پشاور کے قصہ خوانی بازار کی پونے دو سو برس پرانی مسجد قاسم علی خان کے مفتی شہاب الدین پوپلزئی دوسری طرف۔

حکومت اور علما کا تنازع

لیکن ساٹھ کی دہائی میں ہونے والے تنازعنے ایوب خان حکومت اور سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے ارکان اور کچھ دیگر علما کی کھینچا تانی سے جنم لیا تھا۔

عابد حسین کے مطابق 17 مارچ 1961 کو یہ سرکاری انتظام تقریباً خود ہی تباہ ہو گیا تھا۔

’ایوب خان کی فوجی حکومت نے عید الفطر کے بارے میں ایک اعلان کیا، لیکن رات گئے ایک نئی پیش رفت کے تحت بغیر کسی مشاورت کے اس اعلان کو بدل دیا گیا۔ نہ کمیٹی کو اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی تب اس کے سربراہ احتشام الحق تھانوی کو جو کراچی کے ایک معزز عالم دین تھے۔‘

’بندرگاہی شہر کے رہائشی جو پہلے ہی وفاقی دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کے حکومتی فیصلے پر نالاں تھے، عید کے دن کی تبدیلی کو ایک اور سیاسی دھچکا سمجھے۔‘

’گھر سے دور عید بھی کوئی عید ہے‘غلامی سے قید اور پھر حکمرانی، حضرت یوسف اور زلیخا کا قصّہ قرآن، بائبل اور یہودی روایات میںطوفان، کشتی اور کوہ جودی: حضرت نوح کا قصہ جو اسلام سمیت تین مذاہب میں بیان کیا گیامانسہرہ کی مسجد جہاں ’فجر، ظہر، مغرب کی اذان شیعہ جبکہ عصر اور عشا کی اذان سنی دیتے ہیں‘

جعفری کے مطابق رویت ہلال سے متعلق تھانوی کا فتویٰ اخبارات میں نمایاں شائع ہوا کہ ’آج روزہ ہے، کل عید ہوگی۔ آج کے روزے کی قضا فرض ہے۔ رویت ہلال کے سلسلے میں کل کے ریڈیو اور سائرن کی اطلاع پرعمل کرنا قطعاً حرام ہے۔‘

ایک یا دو نہیں بلکہ تین عیدیں

حسین لکھتے ہیں کہ ’ملک کے زیادہ تر حصوں میں، سوائے پشاور کے، اسی دن عید منائی گئی۔ پشاور نے 17 مارچ کو ہی سعودی عرب کے اعلان کے مطابق عید منا لی تھی۔ یوں پاکستان میں اس سال تین مختلف دنوں پر عید منائی گئی۔‘

جعفریلکھتے ہیں کہ عید کے موقع پر اس انتشار کی وجہ سے ’عوام میں بددلی پھیلی اور اخبارات نے مطالبہ کیا کہ رویت ہلال کے اعلان کا اختیار کسی حکومتی ادارے کو نہیں بلکہ رویت ہلال کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔‘

اپنی کتاب ’قوم، ملک، سلطنت‘ میں چاند کے تنازع پر ایک باب میں تاریخ دان علی عثمان قاسمی لکھتے ہیں کہ مارچ 1961 کا چاند تنازع ایک ایسی عوامی بحث کا سبب بنا جو آج بھی جاری ہے۔

ان کے مطابق ’یہ بحث بنیادی طور پر ریاستی خودمختاری، سائنسی استدلال، علما کے اختیار اور ایک مسلم اکثریتی ریاست میں مذہب کے عوامی کردار جیسے سوالات کے گرد گھومتی ہے۔ ایوب خان کا مؤقف تھا کہ چاند اور اس کی حرکت کا سالوں پہلے حساب لگایا جا سکتا ہے۔‘

چند سال بعد یہ مسئلہ دوبارہ پیدا ہوا اور انگریزی اخبار ڈان کے مطابق 1966 میں بھی عید تین دن منائی گئی۔

Getty Imagesجاوید اقبال خواجہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ایوب خان کو اپنی ’روشن خیالی‘ پر بڑا ناز تھاروزہ بھی، نماز بھی: ’چاند خود نکلا تھا یا جبراً نکلوایا گیا‘

کراچی سے خبر تھی کہ ملک کے بیشتر علاقوں میں عیدالفطر دو مختلف دنوں پر منائی گئی۔ راولپنڈی، کراچی، لاہور اور ڈھاکہ میں لوگوں نے اتوار اور پیر کو نمازِ عید ادا کی جبکہ پشاور میں عید ہفتے کے روز منائی گئی۔

عابد حسین کے مطابق سنہ 1967 میں جب حکومت نے اعلان کیا کہ چاند نظر آ گیا ہے تو یہ اعلان خاص طور پر ناقابل قبول محسوس ہوا کیونکہ اس دن موسم چاند دیکھنے کے لیے سازگار ہی نہیں تھا۔

شاعر دلاور فگارنے لکھا کہ ’رمضان کے ماہ مبارک میں آخری روزے کی شب دس بجے ریڈیو پاکستان نے اچانک اعلان کیا کہ رویت ہلال ہوگئی ہے، کل عید ہے۔ اس کے چند منٹ بعد مسجدوں سے لاؤڈ سپیکرز پر علما نے اعلان کیا کہ ریڈیو کی خبر غلط ہے کل عید نہیں۔ مسلمان بھائی آج سحری کھائیں، کل عید نہیں آخری روزہ ہے۔ اس طرح ایک ایک ہی گھر میں کسی کا روزہ ہوگیا اور کسی کی عید۔‘

تاہم سیاست دان اور مذہبی عالم کوثر نیازی اپنی کتاب ’مشاہدات و تاثرات‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سحری کے وقت مسجدوں سے اعلان ہوا کہ کل عید نہیں ہوگی۔ ادھر حکومت نے بھی عید کو اپنے وقارکا مسئلہ بنا لیا اور اس نے اگلے دن اوقاف سے تنخواہیں پانے والے تمام علما کو مجبورکیا کہ وہ نماز عید کی امامت کرائیں۔‘

’اس سلسلے میں بعض لطیفے بھی سرزد ہوئے، ایسا بھی ہوا کہ بعض امام خود روزے سے تھے لیکن مجبوراً انھوں نے عید کی نماز پڑھائی اور بہ روایت کالم نگارعبد القادر حسن ایک امام نے عید کی جگہ جنازے ہی کی نماز پڑھا دی اور ایک امام مقتدیوں کو پہلی رکعت کے سجدے ہی میں چھوڑ کرنو دو گیارہ ہوگئے۔‘

عابد حسین لکھتے ہیں :’اس وقت کراچی میں سرگرم جماعت اسلامی، جو ایوب خان کی دس سالہ آمرانہ حکومت کے خاتمے کے لیے مہم چلا رہی تھی، نے اس سرکاری فیصلے کی شدید مخالفت کی۔ کراچی کے بیشتر رہائشیوں نے جماعت اسلامی کا ساتھ دیا اور حکومت کے مقرر کردہ دن عید نہیں منائی۔‘

شاعر دلاور فگار کے اس موقع پر اشعار تھے:

ایوب خان کے دور کی جبری عید

ریڈیو نے دس بجے شب کے خبر دی عید کی

عالموں نے رات بھر اس نیوز کی تردید کی

ریڈیو کہتا تھا سن لو کل ہماری عید ہے

اور عالم کہتے تھے یہ غیر شرعی عید ہے

دو دھڑوں میں بٹ گئے تھے ملک کے سارے عوام

اس طرف سب مقتدی تھے اس طرف سارے امام

بیٹا کہتا تھا کہ کل شیطان روزہ رکھے گا

باپ بولا تیرا ابا جان روزہ رکھے گا

بیٹا کہتا تھا کہ میں سرکاری افسر ہوں جناب

روزہ رکھوں گا تو مجھ سے مانگا جائے گا جواب

باپ کہتا تھا کہ پھر یوں بام پر ایماں کے چڑھ

روزہ بھی رکھ اور روزے میں نماز عید پڑھ

آج کتنا فرق فل اسٹاپ اور کامے میں تھا

باپ کا روزہ تھا بیٹا عید کے جامے میں تھا

اختلاف اس بات پر بھی قوم میں پایا گیا

چاند خود نکلا تھا یا جبراً نکلوایا گیا

(کُلیات ِ دلاور فگارسے)

جب حکومت نے ’باغی‘ علما کو قید کرلیا

عابد حسین لکھتے ہیں کہ ’ایوب خان کی حکومت نے اس اقدام کو بغاوت سمجھا اور جماعت اسلامی کے بانی سربراہ ابو الاعلیٰ مودودی، احتشام الحق تھانوی اور لاہور کے معروف بریلوی عالم محمد حسین نعیمی سمیت سرکردہ علما کو گرفتار کر کے تین ماہ کے لیے دور درازعلاقوں میں نظربند کر دیا گیا۔‘

نیازی کے مطابق ’اس موقع پر محکمہ اطلاعات نے جو پریس نوٹ جاری کیا اس میں اہتمام کے ساتھ ان سب حضرات کے نام کے ساتھ مولانا کی جگہ مسٹر کے الفاظ لکھے گئے۔‘

Getty Imagesبقول صحافیوسعت اللہ خان کے ’2017 میں پوپلزئی کو کسی نہ کسی طرح رمضان میں عمرے پر جانے کے لیے آمادہ کیا گیا تاکہ وہ دوسرا چاند نہ نکالیں‘

محمود شام کئی دہائیوں تک مختلف اخبارات سے منسلک رہنے کے بعد اب روزنامہ جنگ کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔ تب وہ روزنامہ نوائے وقت میں تھے۔

شامنے بتایا کہ ’اخبارات کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ ان کے نام کے ساتھ مولانا نہیں مسٹر لکھا جائے گا۔ اخبارات میں اندر کے صفحات میں چھوٹی سی خبر تھی۔ مسٹر احتشام الحق تھانوی اور اسی طرح آٹھ علما تھے جن کے نام کے ساتھ مولانا کی بجائے مسٹر لکھا گیا۔ اس پر بہت لے دے ہوئی تھی۔‘

قومی اسمبلی کی کارروائی کی رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ 22 مئی 1967 کو ایوان میں مخلص الزمان خان کے رویت ہلال سے متعلق تنازعپر سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری محمد قاسم ملک نے بتایا کہ وزیر داخلہ کی سربراہی میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے پشاور، مردان، کوہاٹ اور مالا کنڈ ایجنسی سے ڈپٹی کمشنروں اور پولیٹیکل ایجنٹسکی اطلاعات پرعید کا اعلان کیا گیا۔

ان کے مطابق اس کمیٹی کو علما کی درخواست پر تشکیل دیا گیا تھا۔

حسن اے شیخ کے یہ کہنے پر کہ پہلے دن چند سرکاری افسروں نے عید منائی اور اصل عید، جیسا کے علما نے اعلان کیا تھا، لوگوں نے منائی، پارلیمانی سیکرٹری محمد قاسم ملک نے جواب دیا کہ لوگوں کی اکثریت نے عید پہلے دن منائی۔ اس دفاع کے جواب میں کئی ارکان کی آوازیں آئیں: ’نہیں، نہیں، نہیں۔‘

ہربرٹ فیلڈمین پاکستان کی تاریخ سے متعلق اپنی کتاب ’اومنی بس‘ میں لکھتے ہیں کہ مودودی اور دیگر علما 29 جنوری سے 15 مارچ 1967 تک قید میں رہے، جب مغربی پاکستان کی ہائی کورٹ نے حکومت کے ’دفاعِ پاکستان قوانین‘ کے تحت کی گئی گرفتاری کوغیر قانونی قرار دیا۔

’تاہم یہ تنازع تب ہی ختم ہوا جب ایوب خان نے ستمبر 1968 میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو برطرف کر دیا جنھوںنے (بحوالہ پاکستان ٹائمز، 16 جنوری 1967) اس دوران میں حکومت کے مؤقف کو برقرار رکھتے ہوئےعلما کو پابند قرار دیا تھا کہ وہ چاند کے سرکاری اعلان کو تسلیم کریں۔ اس بیان نے جماعت اسلامی اور دیگر علما کو مزید مشتعل کر دیا تھا۔‘

عائشہ جلال اپنی کتاب ’دی سٹرگل فار پاکستان: اے مسلم ہوم لینڈ اینڈ گلوبل پولیٹکس‘ میں لکھتی ہیں کہ جب ایوب حکومت نے کمیٹی تشکیل دی تو مودودی کی قیادت میں علما نے اسے ان کے معاملہ میںمداخلت قراردیتے ہوئے احتجاج کیا۔ ان میں سے پانچ کو گرفتار کرلیا گیا اور پریس میں اس معاملے کی رپورٹنگ پر پابندی لگا دی گئی۔

عائشہ جلال کے مطابق ’ایوب انھیں ’غدار اور اسلام کا اصل دشمن‘ قراردیتے تھے۔‘

ایوب خان 12 جنوری 1967 کی اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ ’احتشام الحق اور مودودی نے کراچی سے سارے ملک میں فون کیے کہ 12 تاریخ کو عید نہ منائی جائے کیوں کہ وہ حکومتی اعلان پر مطمئن نہیں تھے۔ مجھے پیرصاحب آف دیول نے آدھی رات کو فون کر کے یہ بتایا۔ کئی جگہوں پر انھوں نے لاؤڈ سپیکروں پر اعلان کیے کہلوگ 12 تاریخ کو عید نہ منائیں۔‘

ایوب خاننے لکھاکہ: ’یہ لوگ متوازی حکومت چلانے اور عوام کی بے خبری و معصومیت کو سیاسی استحصال کے لیے برتنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ اسلام صرف رسمو رواج اور تقریبات منانے، دوسرے الفاظ میں ’مُلّا ازم‘ تک محدود نہ رہ جائے بلکہ یہ زندگی کا ایک متحرک فلسفہ بن جائے۔‘

’روشن خیالی‘ اور دو خطبے اکٹھے ہونے کا ’غلط‘ تصور

جاوید اقبال خواجہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’اگرچہ ایوب خان کو اپنی ’روشن خیالی‘ پر بڑا ناز تھا اور وہ خود کو ’جدیدیت‘ کا علَم بردار تصور کرتے تھے لیکن رویتِ ہلال کے مسئلے پر ان کی توہم پرستانہ اقتدار پسندی کھل کر سامنے آتی ہے۔‘

جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’جنرل محمد ایوب خاں صاحب کو ان کے بعض درباریوں نے ڈرا دیا تھا کہ عید جمعے کے روز ہوئی تو دو خطبے ہوں گے۔ یعنی ایک عید کا اور دوسر ا جمعہ کا اور ایک دن میں دو خطبوں کا ہونا حکومت کے لیے منحوس اور خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔‘

’چنانچہ جنرل محمد ایوب صاحب نے اپنے خوشامدی علما کے ذریعے چاند بدھ کی شام کو ہی دکھا دیا تاکہ عید جمعرات کو ہی ہو جائے۔‘

کوثر نیازی لکھتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے یہ خیال عوام میں اتنا مقبول ہوا ہے کہ اب خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔‘

’اور تو اور خود ہمارے زمانے میں جب ایک مرتبہ رویت ہلال کمیٹی نے جمعے کے دن عید کا فیصلہ کیا تو ذوالفقار علیبھٹو مرحوم نے مجھے فون کیا اور کہا کہ کمیٹی نے جمعے کے دن عید کرنے کا اعلان کر دیا ہے حالانکہ جمعے کی عید بھاری ہوتی ہے۔‘

’میں نے کہا بھٹو صاحب، آپ جیسا پڑھا لکھا آدمی کیسے اس پروپیگنڈے کا شکارہو گیا۔ جمعے کی عید امیر پر بھاری اس معنی میں تھی کہ اس غریب کو اس دن دو خطبے پڑھنے پڑتے تھے ایک عید کا دوسرا جمعے کا، کیوں خیرالقرون (اچھے وقتوں میں ) خود حاکم وقت ہی یہ خطبہ دیا کرتا تھا۔‘

کوثر نیازی لکھتے ہیں کہ ’اِس دور میں جب کہ امیر وقت عید کی نماز ہی پڑھ لے تو یہ اس کا بہت بڑا کارنامہ شمار ہوتا ہے، جمعے کی عید حاکم وقت پر کیوں بھاری ہوگی؟‘

’ویسے بھی جمعہ، ہفتے کے دنوں میں عید کا دن سمجھا جاتا ہے اور یہ بجائے خود ایک بابرکت تقریب کا موقع فراہم کرتا ہے، اس برکت میں عید کی برکت شامل ہوجائے تو یہ دہری برکت ہوگی، اس میں نحوست کا پہلو کہاں سے آ گیا۔ اس بارے میں میری بات ان کی سمجھ میں آ گئی اور وہ مطمئن ہو گئے۔‘

Getty Imagesایوب خان

ذوالفقار علی بھٹو نے 1974 میں قومی اسمبلی سے ایک قانون پاس کروا کے حکومتی سطح پر ایک رویت ہلال کمیٹی بنا دی جو آج تک قائم ہے۔ لیکن رویتِ ہلال کا مرکزی نظام قائم ہونے کے باوجود تنازعات سامنے آتے رہےیہاں تک کہ بقول صحافیوسعت اللہ خان کے ’2017 میںپوپلزئی کو کسی نہ کسی طرح رمضان میں عمرے پر جانے کے لیے آمادہ کیا گیا تاکہ وہ دوسرا چاند نہ نکالیں۔‘

البتہ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ جس گانے میں ’دو گتُاں‘ کی جگہ ’دو عیداں‘ کی تبدیلیکی گئی تھی، تین عیدوں کی صورت میں تین یا پنجابی میں ’تِن عیداں‘ گایا جاتا تو وزن بگڑتا یا نہیں؟

’مائے میریے نی مینوں بڑا چا، کہ تِن عیداں کر میریاں۔‘

ریشم اور سونے کے شامیانے،عالیشان دعوتیں، کھیل تماشے: مغل اور عثمانی حکمران عید کیسے مناتے تھے؟اصحابِ کہف: سینکڑوں برسوں تک سونے والے نوجوانوں اور اُن کے کتے کا واقعہ مسیحی روایات اور قرآن میں کیسے بیان کیا گیا؟’صفراوادی‘: انڈونیشیا کا وہ ’مقدس غار جہاں مکہ تک پہنچانے والی خفیہ سرنگ‘ موجود ہےفرشی شلوار: مغلیہ دور کا شاہانہ لباس جو 2025 میں فیشن ٹرینڈ بن گیاغزہ، یوکرین اور پاکستان سمیت دنیا بھر سے عیدالفطر کے رنگ تصاویر میںکسی کا افطار شراب سے تو کسی کا انواع و اقسام کے کھانوں سے، مغل بادشاہ ماہ رمضان کیسے گزارتے تھے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More