ڈرامہ ’تن من نیلو نیل‘ کے شجاع اسد: ’مردوں کے ریپ پر اداکار شرمندہ ہوتے ہیں کہ میں یہ کردار کیوں کروں‘

بی بی سی اردو  |  Mar 31, 2025

BBCاداکار شجاع اسد کا کہنا ہے کہ ان کو ڈرامے میں دیے جانے والے پیغام کا کوئی ڈر نہیں تھا

پاکستان میں کسی بھی ڈرامے کا ہٹ ہو جانا حالیہ برسوں میں اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری نے نہ صرف بہت ترقی کی ہے بلکہ نجی چینلز پروڈکشن کوالٹی کے ساتھ ساتھ اچھے موضوعات میں بھی ایک دوسرے سے آگے نکل رہے ہیں۔

خاص بات یہ ہے کہ اب بولڈ اور حساس موضوعات پر بھی ڈرامے بنتے ہیں اور ناظرین اسے پسند بھی کر رہے ہیں ان ہی ڈراموں میں سے ایک ’تن من نیل و نیل‘ بھی ہے جس کی آخری قسط نے سوشل میڈیا پر پچھلے دنوں کافی دھوم مچائی۔

ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار شجاع اسد کا کہنا ہے کہ ان کو ڈرامے میں دیے جانے والے پیغام کا کوئی ڈر نہیں تھا۔

’کیوں ڈریں ہم؟ اب وہ دور آ گیا ہے کہ اداکار اپنے دل سے ڈر نکال دیں۔ ہم کوئی غلط بات تو نہیں کر رہے۔‘

سلطانہ صدیقی کا پروڈیوس کیا ہوا یہ پروجیکٹ 'تن من نیل و نیل' دو ایسے نوجوانوں کی زندگی پر مشتمل تھا جنھوں نے اپنے جنون کو حاصل کرنے کی ٹھان لی تھی۔

سونو کے کوریوگرافر اور رابی کے کانٹیٹ کری ایٹر بننے کے خواب نے ان سے ان کی زندگی ہی چھین لی۔

ڈرامے کا مرکزی خیال ’موب لنچنگ‘ یعنی ہجوم کے ہاتھوں قتل تھا اور یہ پیغام آخری قسط میں بہترین طریقے سے ڈیلیور کیا گیا۔

شجاع اسد کہتے ہیں کہ ’مجھے تو پہلے سے پتہ تھا کہ اختتام دیکھ کر سب کو بہت تکلیف ہو گی۔ جو پیغام میں چاہتا تھا کہ ناظرین تک پہنچے۔

’تیر کی طرح ان کے دل پر جا کر لگے، وہی ہوا۔ لوگوں کے میرے پاس میسیجز آ رہے تھے کہ ہمیں زندگی بھر کا صدمہ دینے کا شکریہ۔‘

’وہ بھی ہماری طرح تھے‘

شجاع اسد نے کچھ سال پہلے اداکاری شروع کی اور اپنے ہر کردار سے عوام کا دل جیتا۔ چاہے وہ ’خئی‘ ہو، ’تن من نیل و نیل‘ یا حال ہی میں ختم ہونے والا ڈرامہ ’اے عشقِ جنوں۔‘

’تن من نیل و نیل‘ میں شجاع نے سونو کا کردار نبھایا جس کو دیکھنے والوں نے اس کی معصومیت اور سچائی کی وجہ سے کافی پسند کیا۔

بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو میں شجاع نے بتایا کہ ’سونو، رابی اور مون کو اتنا ریلیٹیبل بنانے کی وجہ ہی یہی تھی کہ لوگوں کو سمجھ آئے کہ جن کے ساتھ بھی اب تک یہ ہوا ہے وہ بھی ہماری طرح تھے۔ ان کے بھی پیار کرنے والے تھے۔‘

’کیا پتہ وہ لوگ بھی معصوم تھے؟ کیا پتہ ان کے بھی خواب تھے؟‘

شجاع اسد نے بی بی سی کو بتایا کہ ہجوم کے حملے والا سین کرتے ہوئے سیٹ پر کافی تناؤ والا ماحول تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سب سے پہلے علی عمار اور سحر کے شوٹس تھے۔ پہلے سحر گئی۔ دو گھنٹے بعد وہ آئی اور کانپ رہی تھی۔

’اس کی تھائی پر رگڑ لگی تھی، خون نکل رہا تھا اس کا۔ اس کی چوڑیاں ٹوٹ کر کلائی میں پھنس گئی تھیں۔ ایک سین میں وہ اصل میں گر گئی تھی۔ میں ڈر گیا کہ کیا ہوا ہے۔ جب علی واپس آیا تو اسے بھی چوٹیں لگی ہوئی تھیں۔‘

شجاع نے بتایا ’جہاں ہم شوٹ کر رہے تھے وہاں ایک اور بھی مسئلہ تھا۔ ان گلیوں میں پتنگ کی ڈوریں بھی لگی ہوئی تھیں۔

’جب میرے باری آئی تو میں نے پہلے آرام سے واک کی کہ کوئی ڈور یا کچھ لگ نا جائے۔ مجھے کوئی چوٹ نہیں لگی۔‘

’لوگ ممنوع موضوع پر بات کرنے سے ڈرتے ہیں‘

منی سیریز ’تن من نیل و نیل‘ نے مردوں کے ریپ جیسے ٹیبو موضوع پر بھی پہلی ہی قسط میں روشنی ڈالی۔

شجاع کا کہنا ہے کہ 'مردوں کا ریپ ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں پچھلے 80 سالوں میں ڈرامہ انڈسٹری میں کبھی بات نہیں ہوئی۔'

انھوں نے وضاحت کرتےہوئے کہا کہ ’یہ اتنا ٹیبو ٹاپک ہے کہ اس کے بارے میں بات کرنے سے لوگ ڈرتے ہیں۔ اور جو اداکار ہیں وہ ایسے کردار نبھانے سے ڈرتے ہیں۔‘

انھوں نے ایک ساتھی اداکار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ کہ ’علی عمار کو اتنا بڑا کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے ایک ایسا کردار اٹھایا جو مردوں کے ریپ کے بارے میں تھا۔ ورنہ اداکار تو شرمندہ ہوتے ہیں کہ میں یہ کیریکٹر کیوں کروں۔‘

شجاع اس کا کہنا تھا کہ ڈرامہ میں دکھائے جانے والے موضوع بے کار نہیں گئے اور ان سے لوگوں میں ذمہ دار سوچ پیدا کی۔

وہ کہتے ہیں ’اس کا میسج اتنا اچھا گیا۔ لوگوں نے بات کرنا شروع کی کہ ہاں یہ بھی ہوتا ہے۔ ورنہ جب لڑکوں سے ساتھ یہ ہوتا ہے تو وہ اس بارے میں بات نہیں کرتے۔‘

’تن من نیل و نیل‘ کا آخری سین: ’ہجوم کے سامنے کوئی ہیرو نہیں ہوتا‘بالی وڈ فلم ’مسز‘، سیکس لائف میں غیر حسّاس رویہ اور سوشل میڈیا بحث: ’مرد یہ فلم ضرور دیکھیں‘شبنم: اُردو سے نابلد بنگالی اداکارہ جو پاکستانی فلم انڈسٹری میں کامیابی کی ضمانت بنیںصنم تیری قسم: ماورا حسین کی 'فلاپ' فلم نے انڈیا میں دوبارہ ریلیز پر تین دن میں 25 کروڑ کا بزنس کیسے کیاولن کے کردار میں بھی پسندیدہ

اسی کے ساتھ ساتھ شجاع کا دوسرا ڈرامہ ’اے عشقِ جنوں‘ بھی چل رہا تھا جس میں وہ سونو سے بالکل مختلف کردار نبھا رہے تھے۔

شہروز کے کردار میں شجاع نے ولن ہونے کے باوجود عوام کا دل جیت لیا۔ ’دونوں ہی کردار اتنے انٹینس تھے کہ میں نفسیاتی طور پر بھی نڈھال ہو گیا تھا۔‘

شجاع اسد کا کہنا ہے کہ باقی اداکاروں کی طرح، وہ صرف ہیرو بننے کو ترجیح نہیں دیتے بلکہ اچھی سکرپٹس پر کام کرنا چاہتے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مرکزی کرداروں پر معاون کرداروں کو فوقیت دی جن کا ناظرین پراثر کافی جاندار تھا۔

البتہ ان کے اگلے آنے والے ڈرامے 'پیراڈائز' میں وہ اداکارہ اقرا عزیز کے ساتھ مرکزی کردار نبھاتے ہوئے نظر آئیں گے۔

صنم تیری قسم: ماورا حسین کی 'فلاپ' فلم نے انڈیا میں دوبارہ ریلیز پر تین دن میں 25 کروڑ کا بزنس کیسے کیاشبنم: اُردو سے نابلد بنگالی اداکارہ جو پاکستانی فلم انڈسٹری میں کامیابی کی ضمانت بنیںنذیر سے ندیم بیگ تک کا سفر: اسلامیہ کالج کراچی کا شرمیلا گریجویٹ، جو کرکٹ بھی اتنی ہی اچھی کھیلتا، جتنا اچھا وہ گاتا تھامحمد علی: پائلٹ بننے کا خواہشمند مذہبی گھرانے کا نوجوان ’شہنشاہِ جذبات‘ کیسے بناجب ضیا محی الدین کو احساس ہوا ان کی منزل ریڈیو نہیں تھیٹر ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More