کوئٹہ ریلوے سٹیشن نہ صرف نقل و حمل کا ایک اہم مرکز ہے بلکہ یہ تاریخی اور ثقافتی ورثے کا بھی حامل ہے۔ اپنی جغرافیائی اور تزویراتی اہمیت کی وجہ سے یہ ملک کے دیگر ریلوے مراکز سے منفرد حیثیت رکھتا ہے۔یہ پاکستان کا واحد ریلوے اسٹیشن ہے جہاں سے دو ہمسایہ ممالک کی سرحدوں تک ٹرین چلتی ہے۔اپنے عروج کے دور میں یہ ایک انتہائی فعال سٹیشن تھا جہاں سے اندرون ملک روزانہ سات ٹرینیں جبکہ ہمسایہ ملک ایران تک مسافر اور مال بردار ٹرینیں چلتی تھیں۔ تاہم بلوچستان میں مسافر ٹرینوں اور ریلوے تنصیبات پر حملوں اور سکیورٹی خدشات کے باعث اس کی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں۔
نومبر 2024 میں کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر خودکش حملے اور 11 مارچ کو بولان میں ٹرین ہائی جیکنگ کے واقعے کے بعد سٹیشن کئی دنوں تک ویران رہا۔
28 مارچ کو 17 دنوں بعد جعفرایکسپریس کی دوبارہ بحالی اور ٹرین کی سیٹیوں نے اس سٹیشن پر چھائی خاموشی توڑی ہے۔اس سٹیشن کا تاریخی پس منظر بھی سکیورٹی اور عسکری عزائم سے ہی جڑا ہے۔ 19 ویں صدی میں برطانیہ کو روس کی جانب سے افغانستان کے راستے حملے اور پیش قدمی کا خطرہ محسوس ہوا تو اس نے کوئٹہ پر قبضہ کر کے اسے فوجی مرکزبنا لیا۔ اس دوران انگریز حکومت کو ہندوستان (سندھ اور پنجاب سے) کوئٹہ تک ایک قابل اعتماد نقل و حمل کا نظام قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ریلوے کوئٹہ ڈویژن کے کنٹرولر محمد کاشف نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کوئٹہ کی بطور ریلوے مرکز اہمیت 19 ویں صدی کے آخر میں برطانوی نوآبادیاتی دور سے شروع ہوتی ہے جب برطانوی حکام نے سیاسی کنٹرول کو مضبوط اور تجارتی اور عسکری نقل و حمل کو آسان بنانے کے لیے برٹش انڈیا کو افغانستان اور ایران سے جوڑنے کا منصوبہ بنایا تھا۔‘سنہ 1879 میں سندھ کے شہر روہڑی سے بلوچستان کے شہر سبی تک 215 کلومیٹر ریلوے لائن صرف تین مہینوں میں بچھائی گئی۔ اس کے بعد دشوار گزار پہاڑی سلسلے میں ریلوے لائن بچھانے میں انگریز حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ قبائل کے حملوں، موسم کی سختیوں اور بیماریوں کی وجہ سے کوئٹہ تک ریلوے لائن پہنچانے میں کئی سال لگ گئے۔ تاہم تمام تر مشکلات کے باوجود مارچ 1887 میں ٹرین ہرنائی کے راستے کوئٹہ پہنچ گئی۔اپنے عروج کے دور میں کوئٹہ ریلوے سٹیشن انتہائی فعال تھا جہاں سے اندرون ملک روزانہ سات ٹرینیں چلتی تھیں۔ (فائل فوٹو: اردو نیوز)افغانستان اور ایران تک ریلوے منصوبوں میں کوئٹہ مرکز بن گیا تو یہاں ریلوے سٹیشن کی ضرورت محسوس کی گئی۔ مصنف نور خان محمد حسنی کے مطابق ابتدا میں کوئٹہ کے علاقے سمنگلی روڈ پر کوئلہ پھاٹک کے قریب عارضی ریلوے سٹیشن قائم کیا گیا تھا۔ بعدازاں زرغون روڈ پر ریلوے سٹیشن کی عمارت تعمیر کی گئی۔کوئٹہ ریلوے سٹیشن کی تعمیر 1886 میں مکمل ہوئی تاہم یہ عمارت 31 مئی 1935 کے زلزلے میں تباہ ہو گئی تو پھر اسے دوبارہ اس عمارت کی تعمیر کی گئی۔ نئی عمارت 28 اکتوبر 1939 کو کھولی گئی۔ریلوے سٹیشن چھاؤنی کے جنوب مغربی جانب شہر کی سب سے اہم شاہراہ زرغون روڈ پر تعمیر کیا گیا جہاں ریلوے ملازمین کے دفاتر اور رہائشی عمارتیں بھی بنائی گئیں۔یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے شعبہ تعمیرات کی نیلم ناز اور ڈاکٹر مدیحہ فیاض نے کوئٹہ میں طرز تعمیرات پر اپنی ایک تحقیق میں بتایا کہ کوئٹہ ریلوے سٹیشن کی موجودہ عمارت کو برطانوی نو آبادیاتی (برٹش کالونیل) طرز پر تعمیر پر کیا گیا۔ اس کے آرکیٹکچر ویلیم اینڈریو تھے۔کوئٹہ ریلوے سٹیشن کی عمارت شمال-جنوب کی سمت میں مستطیل شکل میں بنائی گئی ہے۔ اس میں دو بلاکس ہیں جو ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ اس عمارت کی زیادہ سے زیادہ اونچائی 26 فٹ ہے۔اس تحقیق میں کوئٹہ ریلوے سٹیشن کو نوآبادیاتی طرزِ تعمیر کی ایک نمایاں مثال قرار دیا ہے۔ ڈھلوانی چھتیں، پوسٹ اور لِنٹل نظام، چمنیاں اورخصوصی نکاسی آب کا نظام اس کی خصوصیات بتائی گئیں۔اس عمارت کی ڈھلوانی چھت لوہے کی چادروں سے بنی ہے اور ان کے نیچے لکڑی کے تختوں سے فالس سیلنگ کی گئی ہے۔ برآمدے کے ستون لکڑی کے بنے ہوئے ہیں۔ عمارت کے بیرونی حصے پر اینٹوں سے کام کیا گیا ہے۔ مقامی اور پائیدار تعمیراتی مواد کا استعمال، مضبوط اور مخصوص تعمیراتی اشکال، عمارت کے سامنے کھلی عوامی جگہیں ریلوے سٹیشن کی خصوصیات ہیں۔نیلم ناز اور ڈاکٹر مدیحہ فیاض نے اپنی تحقیق میں مزید بتایا ہے کہ تعمیراتی کے لحاظ سے پرانی اور نئی عمارت میں فرق محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ریلوے کی پرانی عمارتیں جمالیات اور موسمی حالات کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی تھیں جبکہ نئی عمارت کو تیزی سے مکمل کیا گیا تاکہ آفات کے بعد اشیا اور وسائل کی فوری ترسیل ممکن بنائی جا سکے۔ اس وجہ سے نئی تعمیر میں صرف مضبوط ڈھانچے پر توجہ دی گئی جس کی وجہ سے اس کی خوبصورتی متاثر ہوئی۔کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر تین پلیٹ فارمز ہیں۔ سٹیشن ماسٹر، ٹکٹ بکنگ، ریزویشن دفاتر کے علاوہ انتظار گاہیں، نصف درجن کے قریب سٹالز قائم ہیں۔ سٹیشن کے قریب کئی ریستورانز بھی قائم ہیں جن کی چائے پورے شہر میں مقبول ہے۔سٹیشن کے عمارت کے درمیان میں مشرقی جانب مرکزی دروازہ ہے جس سے داخل ہوتے ہی پلیٹ فارم سے پہلے ایک دیوار پر ایک یادگاری تختی نصب ہے جس پر سنہ 1935 کے زلزلے میں ہلاک ہونے والے 154 ریلوے ملازمین کے نام کندہ ہیں۔ عمارت کے سامنے واقع چھوٹے پارک میں پرانا سٹیم انجن نمائش کے لیے رکھا گیا ہے، جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، کوئٹہ ریلوے سٹیشن کی تزئین و آرائش کی گئی ہے تاہم ان اقدامات کو ناکافی سمجھا جاتا ہے۔کوئٹہ سے شمال کی جانب تقریباً 140 کلومیٹر کے فاصلے پر پاک افغان سرحد چمن تک ریلوے ٹریک بچھا ہوا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)محمد سعید جاوید نے کتاب ’ریل کی جادو نگری‘ میں کوئٹہ ریلوے سٹیشن پاکستان کے خوبصورت اور قدیم ترین سٹیشنوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ان کے مطابق اس ریلوے سٹیشن پر بڑے جنکشن والی تمام سہولتوں کے علاوہ ریلوے کا ایک عجائب گھر بھی بنایا گیا ہے جس میں نہ صرف وہ تاریخی اوزار رکھے گئے جو وادی بولان میں ریلوے لائن کی تعمیر میں استعمال ہوئے تھے، بلکہ اس زمانے کے چیدہ چیدہ نواردات، یادگار نقشے اور ایسی تصاویر کی نمائش کی گئی ہے جس میں اس لائن پر کام ہوتا ہوا دکھائی دیا گیا ہے۔مصنف نور خان محمد حسنی کے مطابق جنوری 1887 میں برطانوی شاہی جوڑے پرنس آف ویلز (بعد ازاں ڈیوک آف ونڈ سر) اور ان کی بیگم مارگریٹ لوئس نے نہ صرف کوئٹہ ریلوے سٹیشن کا دورہ کیا بلکہ سبی ہرنائی ریلوے لائن پر بنے تاریخی اور انجینیئرنگ کا شاہکار سمجھے جانے والے چھپر رِفٹ پُل کا افتتاح بھی کیا۔ اُن کے لیے ایک خصوصی ٹرالی بنائی گئی تھی جس پر چاندی کا ورق چڑھایا گیا تھا۔ انہوں نے اس ٹرالی میں بیٹھ کر پُل کی سیر کی تھی۔ریلوے کنٹرولر محمد کاشف کے مطابق یہ خصوصی ٹرالی کوئٹہ ریلوے سٹیشن کے میوزیم میں اب بھی موجود ہیں۔کتاب ’ریل کی جادو نگری‘ کے مطابق کوئٹہ سٹیشن کی تاریخ میں آٹھ نومبر 1894 کا دِن خاصا اہم ہے کہ اُس روز وائسرائے ہند لارڈ ایلجن کی واپسی کوئٹہ ریلوے سٹیشن سے ہوئی تھی۔’اُس روز دو خصوصی ریل گاڑیاں پلیٹ فارم پر موجود تھیں۔ پہلی خصوصی ٹرین میں وائسرائے ہند، اے جی جی بلوچستان، میجر جنرل جیمس برائون اور دوسرے اعلیٰ حکام نے سفر کرنا تھا۔ اس ٹرین کا رُخ جنوب میں واقع بولان سے سبّی کی جانب تھا، جبکہ دوسری خصوصی ٹرین کا رُخ شمال کی سمت تھا اور اس میں وائسرائے ہند کی اہلیہ نے سفر کرنا تھا۔‘ریلوے کنٹرولر محمد کاشف کے مطابق تعمیر کے ساتھ ہی کوئٹہ ایک اہم ریلوے جنکشن بن گیا جو دو تزویراتی ریلوے لائنوں کو جوڑتا ہے۔ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)مصنف کے مطابق ’پہلی ٹرین نے کوئٹہ، بلیلی، بوستان، کَچھ، چھپر رِفٹ پُل اور ہرنائی سے ہوتے ہوئے سبّی جانا تھا۔ دونوں ریل گاڑیاں کوئٹہ سٹیشن سے ایک ساتھ روانہ ہوئیں لیکن وائسرائے کی ریل گاڑی 7:15 پر اور وائسرائے کی بیگم کی ٹرین 8:09 پر سبّی پہنچی۔‘برطانوی شاہی خاندان کے علاوہ افغانستان کے شاہ امان اللہ خان نے سنہ 1927 میں ٹرین کے ذریعے چمن اور کوئٹہ کے راستے ہندوستان کے کئی شہروں کا سفر کیا۔ریلوے کنٹرولر محمد کاشف کے مطابق تعمیر کے ساتھ ہی کوئٹہ ایک اہم ریلوے جنکشن بن گیا جو دو تزویراتی ریلوے لائنوں کو جوڑتا ہے۔ ان میں سے ایک روہڑی چمن لائن کہلاتا ہے۔کوئٹہ سے شمال کی جانب تقریباً 140 کلومیٹر کے فاصلے پر پاک افغان سرحد چمن تک ریلوے ٹریک بچھا ہوا ہے۔ اس راستے پر پسنجر ٹرین روزانہ صبح نکلتی ہے اور شام کو چمن سے واپس کوئٹہ پہنچتی ہے۔ دوسری لائن تقریباً 700 کلومیٹر طویل ہے جو کوئٹہ سے پاکستان کے آخری شہر تفتان ایرانی سرحد تک جاتی ہے۔ اس ریلوے لائن پر دو دہائی قبل تک پسنجر ٹرین بھی چلتی تھی اور لوگ ایران تک سفر کرتے تھے لیکن اب مہینے میں چند ایک بار صرف مال بردار ٹرین ہی جاتی ہے۔کتاب ’ڈیڑھ صدی کی ریل‘ کے مصنف ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کے مطابق کوئٹہ سے چلنے والی ٹرینیں ایک طرف کوئٹہ تا کراچی اور دوسری جانب کوئٹہ روہڑی، ملتان، لاہور، راولپنڈی اور پشاور تک جاتی ہیں۔ کوئٹہ سے پشاور کے مابین چلنے والی جعفر ایکسپریس ملک کی واحد ٹرین ہے جو چاروں صوبوں سے گزرتی ہے۔ریلوے سٹیشن چھاؤنی کے جنوب مغربی جانب شہر کی سب سے اہم شاہراہ زرغون روڈ پر تعمیر کیا گیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)ان کے بقول پہلے کوئٹہ سے اندرونِ بلوچستان اور ملک بھر میں سات ٹرینیں چلتی تھیں جن میں سے بیشتر اب بند ہو چکی ہیں۔کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر مال برادر گاڑیوں کا مرکز بھی رہا ہے یہاں ڈرائی پورٹ قائم ہے۔ ماضی میں افغانستان سے پھل چمن اور کوئٹہ کے راستے ہندوستان بھیجا جاتا تھا۔ اسی طرح ایران کے لیے بھی تجارتی سامان کی ترسیل بھی یہاں سے ہوتی تھی۔ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران کوئٹہ سے ایران کے راستے ترکی تک چند بار خصوصی مال بردار ٹرینیں بھی چلائی گئیں۔