دنیا میں سزائے موت کی شرح دس سال میں سب سے بلند مگر چین کے اعدادوشمار آج بھی ’پراسرار‘

بی بی سی اردو  |  Apr 09, 2025

BBCدنیا میں مختلف ممالک میں سزائے موت پر عملدرآمد کے لیے پھانسی، سر قلم کرنے، مہلک انجکشن کا استعمال، گولی مارنے یا پھر نائٹروجن گیس سے دم گھٹنے جیسے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ 2024 میں دنیا بھر میں سزائے موت پانے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

موت کی سزاؤں اور پھانسیوں سے متعلق اس عالمی این جی او کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، اس کے باوجود کہ سزائے موت پر عمل درآمد کرنے والے ممالک کی تعداد میں معمولی کمی واقع ہوئی، 2024 میں مجموعی طور پر 1,518 افراد کو پھانسی دی گئی، جو کہ 2023 کے مقابلے میں 32 فیصد زیادہ ہے۔

ایمنسٹی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ سال ریکارڈ کی جانے والی اموات کی تعداد 2015 کے بعد سب سے زیادہ تھی، جب کہ اس میں ملوث ممالک کی تعداد 16 سے کم ہو کر 15 رہ گئی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ لوگوں کو پھانسی دینے والا ملک چین ہے، لیکن وہاں ریکارڈ شدہ پھانسیوں کی کوئی حتمی تعداد دستیاب نہیں ہے۔

ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ اس قسم کے سرکاری ڈیٹا کی عدم موجودگی ہے کیونکہ چین ان اعدادوشمار کو ریاستی راز کے طور پر دیکھتا ہے۔

ویتنام اور شمالی کوریا دو اور ممالک ہیں جن کے بارے میں سوچا جاتا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر سزائے موت کا استعمال کرتے ہیں، لیکن وہ یہ سزا پانے والوں کی تعداد کو ظاہر نہیں کرتے۔

وہ سزائے موت جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں

ایران دنیا کے ان ممالک میں سرفہرست ہے جو سزائے موت کے اعدادوشمار دیتے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکریٹری جنرل، اگنیس کیلامارڈ کا کہنا ہے، ’ایران، عراق اور سعودی عرب گذشتہ برس ہلاکتوں میں تیزی سے اضافے کے ذمہ دار تھے اور91 فیصد سزائے موت انھی ممالک میں دی گئیں جن میں انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا گیا اور منشیات سے متعلق اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت لوگوں کی جان لی گئی۔‘

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2024 میں، ایران میں کم از کم 972 افراد کو، جن میں 30 خواتین بھی شامل تھیں، سزائے موت دی گئی جبکہ 2023 میں یہ تعداد 853 تھی۔

ایران میں انسانی حقوق کے کارکن اس اضافے کو داخلی سیاسی بحران سے جوڑتے ہیں۔

ابورحمان برومند سینٹر فار ہیومن رائٹس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر رویا برومند کا کہنا ہے کہ ’ہم نے بڑے مظاہروں اور غیر یقینی صورتحال کے بعد پھانسیوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا ہے۔‘

ان کے مطابق 2022 میں 12 جبکہ 2023 میں 25 خواتین کو سزائے موت دی گئی۔ ان میں سے کچھ کو منشیات سے متعلق جرائم میں سزا سنائی گئی۔

تاہم وہ کہتی ہیں کہ حکومت کے ناقدین کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ برومند نے بی بی سی کو بتایا، ’کئی خواتین کارکنوں کو موت کی سزا سنائی گئی ہے جو کہ امتیازی قوانین اور طریقوں کی مخالفت کرنے والی ایرانی خواتین کے لیے ایک مؤثر انتباہ ہے۔‘

ایران کے بعد سعودی عرب میں 345 افراد کو سزائے موت دی گئی جبکہ عراق 63 کے عدد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔

ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ ایران اور صومالیہ میں 18 سال سے کم عمر کے چار افراد کو بھی موت کی سزا دی گئی ہے جبکہ ایران اور افغانستان وہ دو ممالک تھے جہاں 2024 میں سرعام پھانسیاں دی گئیں۔

’ہزاروں پھانسیاں‘

تاہم، ایمنسٹی کے اعداد و شمار میں ایک قابل ذکر خلا موجود ہے۔

سزائے موت کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ماہر چیارا سانگیورجیو نے بی بی سی کو بتایا، ’2024 کے لیے ہمارے عالمی اعداد و شمار میں وہ ہزاروں پھانسیاں اور سزائے موت شامل نہیں جن کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ وہ چین میں دی گئی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ چین میں ’سزائے موت کے اعداد و شمار کو ریاستی راز کے طور پر دیکھا جاتا ہے، لیکن ہم جو معلومات جمع کرنے میں کامیاب ہوئے وہ ایک دلخراش تصویر پیش کرتی ہیں۔‘

ایمنسٹی کا خیال ہے کہ چین اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بدعنوانی اور منشیات کی نقل و حمل کے لیے سزائے موت کا اطلاق کر رہا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ سزائے موت کا نفاذ ’انتہائی سنگین جرائم‘ تک محدود ہونا چاہیے، جسے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی قتل عمد کے طور پر بیان کرتی ہے۔

ایسے جرائم جن کے نتیجے میں براہ راست اور جان بوجھ کر موت نہ ہو، جیسے کہ منشیات اور جنسی جرائم، اس معیار پر پورا نہیں اترتے۔

چیارا سانگیورجیو کے مطابق ’ہم نے یہ بھی دیکھا کہ حکام نے ریاستی کنٹرول کے ہتھیار کے طور پر پھانسیوں کا سہارا لینے کا عمل جاری رکھا، تاکہ یہ پیغام دیا جا سکے کہ جرم اور اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘

چین میں سزائے موت کے استعمال کی ایک طویل تاریخ ہے۔1983 میں اس نے ’سخت ردعمل‘ کی پالیسی نافذ کی، جس کا ہدف جرائم پیشہ گروہ تھے۔اس دوران منشیات فروشوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔

ایمنسٹی نے 1996 میں رپورٹ کیا کہ ’26 جون کو انسداد منشیات کا عالمی دن کئی شہروں میں ایک دن میں 230 سے ​​زیادہ لوگوں کو پھانسی دے کر منایا گیا‘۔

تاہم میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ کچھ پھانسیاں غیر سنگین جرائم جیسے کہ مویشی یا گاڑیاں چوری کرنے پر بھی دی گئیں۔

نمیشا پریا: یمن میں سزائے موت پانے والی انڈین نرس کا خاندان ’خون بہا‘ کے بدلے معافی کی امید لیے صنعا جا پہنچادی ریئل کیرالہ سٹوری: سعودی عرب میں قید عبدالرحیم کو پھانسی سے بچانے کے لیے 34 کروڑ روپے کہاں سے آئے؟ایواؤ ہاکامادا: 56 برس سے سزائے موت کے منتظر جاپانی باکسر کو عدالت نے بری کر دیاسزائے موت پانے والے گلوکار جیل سے رہا: ایرانی اسٹیبلشمنٹ کے ناقد جن کے کنسرٹ پر پابندی ہےسزائے موت میں کمی کا رجحان؟

ہانگ کانگ کی چائنیز یونیورسٹی کی پروفیسر مشیل میاؤ نے حالیہ برسوں میں سزائے موت کی بڑھتی تعداد میں کردار ادا کرنے والے مختلف عوامل پر کام کیا ہے۔ انھوں نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کی اور بتایا کہ چین میں عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت کی تعداد کا اندازہ لگانا آسان کیوں نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’سزائے موت والے بہت سے ممالک کی طرح، چین بھی پھانسی کا جامع ڈیٹا شائع نہیں کرتا۔ میری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پالیسی روایت اور معاملے کی حساس نوعیت دونوں کی وجہ سے ہے۔‘

اپنی تحقیق کے لیے، پروفیسر میاؤ نے 40 چینی ججوں اور اتنی ہی تعداد میں وکلائے صفائی کے انٹرویو کیے جس کے نتیجے میں انھیں موت کی سزاؤں کے حوالے سے مستقل مزاجی کی کمی اور قانون میں ابہام نظر آیا۔

ان کا کہنا ہے، ’فوجداری قانون یہ کہتا ہے کہ ’جب فوری طور پر پھانسی غیر ضروری ہو تو موت کی معطل سزا کا اطلاق کیا جائے لیکن چینی جج اس ضرورت کی وضاحت کے لیے کیا معیار استعمال کر رہے ہیں؟

’میں نے جن ججوں کے انٹرویو کیے ان میں سے دو تہائی سے زیادہ، بشمول سپریم پیپلز کورٹ کے جج، اس سوال کا قطعی جواب دینے سے قاصر تھے۔‘

امریکہ میں قائم حقوق کے گروپ ڈوئی ہوا کا کہنا ہے کہ چین میں پھانسیوں کی کل تعداد جو 2002 میں 12 ہزار تھی کم ہو کر 2018 میں تقریباً دو ہزار رہ گئی۔ گروپ نے اس کے بعد کے برسوں کی کوئی تفصیل نہیں بتائی ہے۔ ڈوئی ہوا نے چین کی موجودہ صورتحال کے بارے میں مزید تبصرہ کرنے کی بی بی سی کی درخواست کو رد کر دیا۔

پروفیسر میاؤ تخمینہ شدہ پھانسیوں میں اس کمی کی وجہ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران متعارف کرائے گئے فوجداری انصاف کے نظام میں اصلاحات کی ایک سیریز کو قرار دیتی ہیں جس کے تحت ایک مجرم اب ایک کے بجائے دو اپیلیں کر سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ 1979 کے چینی تعزیرات کوڈ میں سزائے موت کے قابل 74 جرائم کی فہرست دی گئی تھی، اس میں 2011 اور 2015 میں نظر ثانی کی گئی اور اب 46 جرائم کے نتیجے میں موت کی سزا ہو سکتی ہے۔

Michelle Miaoپروفیسر میاؤ مستقبل میں چین میں سزائے موت کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد میں کمی کے بارے میں پرامید ہیں

پروفیسر میاؤ کہتی ہیں، ’قتل اور منشیات سے متعلق جرم دو بڑے جرائم ہیں جن کی وجہ سے سزائے موت دی جاتی ہے۔‘

وہ آنے والے وقت کے بارے میں پرامید ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ٹیکنالوجی میں تیزی سے آتی تبدیلیاں، حفاظتی قانون کے نفاذ اور چین میں معیار زندگی کو بہتر بنانے سے جرائم میں کمی آئے گی۔

ان کے مطابق ’منشیات سے متعلق جرائم جیسے کہ سمگلنگ، مینوفیکچرنگ اور نقل و حمل - کے ساتھ ساتھ قتل، اور اس کمی کے رجحان کے جاری رہنے کے امکانات کے پیش نظر، ہم آنے والے برسوں میں مجموعی طور پر سزائے موت میں کمی کی توقع کر سکتے ہیں۔‘

سزا سنانے کی شرحGetty Imagesچین میں عدالت میں لائے جانے والے مقدمات میں ملزمان کو سزا سنانے کی شرح 100 فیصد کے قریب ہے

چینی عدالتیں بڑی تعداد میں مقدمات سنتی ہیں، اور وہاں سزا سنانے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ ڈوئی ہوا کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، ’2022 میں فوجداری عدالتوں کے ذریعے 1,431,585 مدعا علیہان میں سے صرف 631 افراد کو مجرم نہیں پایا گیا۔‘

تنظیم کی جانب سے ایک مضمون میں کہا گیا کہ ’2022 میں سزا دینے کی شرح 99.95 فیصد تھی، جو کہ چین کے قانون کی سالانہ کتاب کے اعدادوشمار کے مطابق ایک ریکارڈ اضافہ ہے۔‘

بین الاقوامی جرنل آف لاء، کرائم اینڈ جسٹس کی طرف سے شائع ہونے والے ایک اور تعلیمی مقالے میں بتایا گیا ہے کہ 1995 سے 1999 کے درمیان صوبہ ژی جیانگ کے شہر وینزو کی ایک عدالت نے ہر ملزم کو سزا سنائی۔

پروفیسر میاؤ کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے عمل کی وجہ سے بھی سزا کی شرح زیادہ ہے۔

ان کے مطابق چینی فوجداری انصاف کے پورے عمل کے دوران، مقدمات کی سماعت سے پہلے بھی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور کارکردگی کا جائزہ لینے کے نظام کی وجہ سے استغاثہ کمزور مقدمات کے برعکس صرف ان ملزمان کے مقدمے عدالت تک لاتا ہے جن میں سزا ملنے کا امکان زیادہ ہو۔

پروفیسر میاؤ کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کا ’اطلاق نہ صرف سزائے موت کے مقدمات بلکہ عام طور پر فوجداری مقدمات پر بھی ہوتا ہے۔‘

سزا کی اتنی زیادہ شرح کے ساتھ، انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کا خدشہ بھی موجود رہتا ہے۔ 2016 میں، ریپ اور قتل کے الزام میں ایک نوجوان کو غلط طریقے سے سزائے موت دینے پر 27 اہلکاروں کو سزا دی گئی اور 18 سالہ نوجوان کے والدین کو بعد میں معاوضہ بھی ادا کیا گیا۔

چین سزا سنائے جانے کی اتنی بلند شرح کے معاملے میں منفرد نہیں ہے۔ جاپان، جو ایک جمہوری ملک ہے، میں بھی فرد جرم کے بعد 99 فیصد سے زیادہ مقدمات میں سزا ہوتی ہے تاہم، جاپان نے جولائی 2022 سے کسی کو پھانسی نہیں دی ہے۔

چین میں سزائے موت کی تعداد کے بارے میں بین الاقوامی خدشات کے باوجود، پروفیسر میاؤ کا کہنا ہے کہ ملک کے اندر رائے عامہ بڑی حد تک سزائے موت کی حمایت کرتی ہے۔

بیٹی کے قتل کے جرم میں 21 برس سے قید شخص، جس کی سزائے موت ڈیڑھ گھنٹے پہلے روک دی گئی’2022 میں دنیا بھر میں سزائے موت کی شرح گزشتہ پانچ سال میں بلند ترین رہی‘تاریخ پیدائش کی غلطی جس نے ایک نوجوان کو موت کے دہانے تک پہنچا دیاایواؤ ہاکامادا: 56 برس سے سزائے موت کے منتظر جاپانی باکسر کو عدالت نے بری کر دیا’بابا، مجھے موت کی سزا ہوئی ہے، امی کو کچھ مت بتانا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More