ٹائٹینک کیسے تباہ ہوا؟ ڈیجیٹل سکین سے بحری جہاز کے آخری چند گھنٹوں کی ممکنہ کہانی سامنے آ گئی

بی بی سی اردو  |  Apr 09, 2025

Atlantic Productions/Magellanڈیجیٹل سکین کے مطابق ٹائٹینک کا اگلا حصہ سمندر کی تہہ میں سیدھا پڑا ہے

113 برس قبل غرقاب ہونے والے بحری جہاز ٹائٹینک کے مکمل ڈیجیٹل سکین کے تفصیلی تجزیے سے اس کی تباہی سے قبل آخری چند گھنٹوں کے بارے میں نئی معلومات سامنے آئی ہیں۔

جہاز کے سائز کے عین مطابق تیار کردہ تھری ڈی نقل دکھاتی ہے کہ 1912 میں ایک برفانی تودے سے ٹکرانے کے بعد جہاز کیسے دو ٹکڑے ہو کر ڈوبا تھا۔ اس حادثے میں ڈیڑھ ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

یہ سکین بوائلر روم کا ایک نیا منظر دکھاتا ہے، جو عینی شاہدین کے ان بیانات کی تصدیق کرتا ہے کہ انجینیئرز نے جہاز کی روشنیاں جلائے رکھنے کے لیے آخر تک کام کیا۔

اور ایک کمپیوٹر سمولیشن سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ٹائٹینک کے ڈھانچے میں کاغذ کے صفحے جتنے بڑے سوراخ جہاز کی تباہی کا باعث بنے۔

ٹائٹینک پر تحقیق کرنے والے تجزیہ کار پارکس سٹیفنسن کا کہنا ہے کہ ’ٹائٹینک اس تباہی کا آخری باقی رہ جانے والا عینی شاہد ہے اور اس کے پاس اب بھی سنانے کو مزید کہانیاں ہیں۔‘

ٹائٹینک کے ڈیجیٹل سکین کا مطالعہ نیشنل جیوگرافک اور اٹلانٹک پروڈکشنز کی طرف سے ایک نئی دستاویزی فلم کے لیے کیا گیا ہے جس کا عنوان’ٹائٹینک: دی ڈیجیٹل ریزیریکشن‘ ہے۔

Atlantic Productions/Magellanبحری جہاز کے ڈھانچے سے ٹوٹ کر الگ ہونے والے عقبی حصے کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا

بحرِاوقیانوس کے برفیلے پانیوں میں 3800 میٹر کی گہرائی میں موجود ٹائٹینک کے ملبے کو روبوٹس کی مدد سے سکین کیا گیا۔

اس دوران ہر زاویے سے لی گئی سات لاکھ سے زیادہ تصاویر کو جہاز کا ’ڈیجیٹل ٹوئن‘ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا، جسے 2023 میں بی بی سی نیوز نے خصوصی طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا۔

چونکہ جہاز کا ڈھانچہ بہت بڑا ہے اور تاریک گہرائیوں میں موجود ہے، اس لیے اسے آبدوزوں کی مدد سے کھوجنا کرنا صرف دلکش تصویریں ہی دکھا پاتا ہے تاہم یہ سکین ٹائٹینک کا پہلا مکمل نظارہ فراہم کرتا ہے۔

جہاز کا بڑا اگلا حصہ سمندر کے فرش پر سیدھا پڑا ہے جیسے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہو لیکن 600 میٹر کے فاصلے پر موجود عقبی حصہ ٹوٹی پھوٹی دھات کا ڈھیر ہے۔ اسے یہ نقصان اس وقت پہنچا تھا جب جہاز آدھا ٹوٹنے کے بعد سمندر کے فرش سے ٹکرایا تھا۔

Atlantic Productions/Magellanٹائٹینک کی ڈیجیٹل نقل کی ایک تصویر جس میں جہاز کے اگلے حصے میں چار پورٹ ہول دکھائے گئے ہیں

نقشہ سازی کی نئی ٹیکنالوجی بحری جہاز کا جائزہ لینے کا ایک مختلف طریقہ فراہم کر رہی ہے۔

پارکس سٹیفنسن نے کہا کہ ’یہ ایک جرم کے مقام کی طرح ہے: آپ کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ثبوت کیا ہیں، اس تناظر میں کہ وہ کہاں موجود ہیں اور ملبے کے مقام کا ایک جامع جائزہ یہ سمجھنے کی چابی ہے کہ یہاں کیا ہوا تھا۔‘

اس سکین سے جو نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان میں ایک پورٹ ہول بھی شامل ہے جسے غالباً آئس برگ نے توڑ دیا تھا۔ یہ حادثے میں زندہ بچ جانے والوں کی فراہم کردہ ان تفصیلات سے مطابقت رکھتا ہے کہ تصادم کے دوران کچھ لوگوں کے کیبن میں برف داخل ہو گئی تھی۔

Atlantic Productions/Magellanایک بوائلر روم ٹائٹینک کے اگلے حصے کے عقب میں ہے جہاں سے جہاز دو حصوں میں تقسیم ہوا

ماہرین ٹائٹینک کے ایک بڑے بوائلر روم کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ سکین پر اسے دیکھنا آسان ہے کیونکہ یہ اگلے حصے کے عقب میں اس مقام پر ہے جہاں جہاز دو حصوں میں ٹوٹا تھا۔

بحری جہاز کے مسافروں کا کہنا تھا کہ جہاز کی روشنیاں ڈوبتے وقت بھی جل رہی ہیں۔

ڈیجیٹل سکین سے پتا چلتا ہے کہ کچھ بوائلراندر کی جانب دبے ہوئے ہیں، جس سے لگتا ہے کہ وہ اس وقت بھی کام کر رہے تھے جب جہاز زیرِ آب آ چکا تھا۔

اگلے حصے کے عرشے پر پڑے ہوا ایک کھلا ہوا والو بھی دریافت ہوا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے نظام کے لیے بھاپ دستیاب تھی۔

پارکس سٹیفنسن کے مطابق یہ جوزف بیل کی قیادت میں کام کرنے والی انجینئرز کی ایک ٹیم کے مرہونِ منت تھا جو لائٹس روشن رکھنے کے لیے بھٹیوں میں کوئلہ ڈالنے کے لیے جہاز پر ہی موجود رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سب لوگ جہاز کے حادثے میں مر گئے لیکن ان کے بہادرانہ اقدامات نے بہت سی جانیں بچائیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھوں نے روشنیوں اور بجلی کو آخری وقت تک کام کے قابل رکھا تاکہ عملے کو مکمل اندھیرے کی بجائے کچھ روشنی کے ساتھ لائف بوٹس کو محفوظ طریقے سے روانہ کرنے کا وقت مل سکے۔‘

’انھوں نے جتنا ممکن ہو سکا افراتفری پھیلنے کو روکا اور عرشے پر پڑا، کھلا ہوا سٹیم والو اس بات کی علامت ہے۔‘

وہ چار معمے جو ٹائٹینک ڈوبنے کے 111 سال بعد بھی موجود ہیںٹائٹینک کے زندہ بچ جانے والے چھ ’گمنام‘ مسافروں کی کہانیوہ شخص جس کی زندگی بد قسمت جہاز ٹائٹینک پر لگنے والے ایک زخم نے بچائیٹائٹینک کو قریب سے دیکھنے کا نیا مشن: ’اس سفر نے مجھے مکمل کر دیا‘Atlantic Productions/Magellanتصویر کے درمیان میں ایک گول والو کھلی حالت میں دیکھا جا سکتا ہے

ایک نئی سمیولیشن سے جہاز کے ڈوبنے کے بارے میں مزید معلومات سامنے آئی ہیں۔

اس سمیولیشن میں ٹائٹینک کے بلیو پرنٹس کی مدد سے بنایا گیا جہاز کا ایک جامع ماڈل استعمال کیا گیا اور اس میں جہاز کی رفتار، سمت اور پوزیشن کے بارے میں بھی معلومات شامل کی گئی ہیں تاکہ برف کے تودے سے ٹکرانے سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا جا سکے۔

تحقیق کے قائد اور یونیورسٹی کالج لندن سے تعلق رکھنے والے پروفیسر جیوم پیک کا کہنا ہے کہ ’ہم نے ٹائٹینک کے ڈوبنے کے عمل کو دوبارہ پیش کرنے کے لیے جدید عددی ایلگوردم، کمپیوٹیشنل ماڈلنگ اور سپر کمپیوٹنگ کی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔‘

سمیولیشن سے پتا چلتا ہے کہ اگرچہ جہاز برفانی تودے سے معمولی سا ٹکرایا لیکن اس تصادم کے بعد اس کے ڈھانچے میں تودے سے رگڑنے کے نتیجے میں سلسلہ وار سوراخ ہوئے جو ڈھانچے کے نچلے حصے میں ایک قطار میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

Jeom Kee-Paik/ University College Londonسمیولیشن سے پتا چلتا ہے کہ اگرچہ جہاز برفانی تودے سے معمولی سا ٹکرایا لیکن اس تصادم کے بعد اس کے ڈھانچے میں تودے سے رگڑنے کے نتیجے میں سوراخ ہو گئے

یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ٹائٹینک ڈوب نہیں سکتا اور اسے چار واٹر ٹائٹ کمپارٹمنٹس میں پانی بھر جانے کی صورت میں بھی تیرتے رہنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

لیکن سمیولیشن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ برفانی تودے سے تصادم کے بعد جہاز کے چھ کمپارٹمنٹس کو نقصان پہنچا تھا۔

نیو کیسل یونیورسٹی میں بحریہ کے فن تعمیر کے ایک ایسوسی ایٹ لیکچرر سائمن بینسن نے بتایا کہ ’ٹائٹینک کے ڈوبنے اور نہ ڈوبنے کے درمیان فرق کاغذ کے ایک صفحے کے برابر حجم کے سوراخوں کا ہے۔‘

’مسئلہ یہ ہے کہ وہ چھوٹے سوراخ جہاز کی پورے ڈھانچے کی لمبائی میں موجود ہیں اس لیے سمندر کا پانی آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر ان تمام سوراخوں میں داخل ہوا اور پھر آخرکار کمپارٹمنٹ پانی سے بھرے اور ٹائٹینک ڈوب گیا۔‘

بدقسمتی سے سکین پر اس نقصان کو نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ جہاز کے اگلے حصے کا نچلا حصہ سمندر کے فرش پر موجود گارے کے نیچے دبا ہوا ہے۔

Atlantic Productions/Magellanاس تھری ڈی سکین کے مکمل مطالعے میں کئی برس لگیں گے

ٹائی ٹینک کا انسانی المیہ اب بھی بہت زیادہ واضح ہے۔

جہاز کے مسافروں کے ذاتی اثاثے سمندر کے فرش پر بکھرے پڑے ہیں۔

ڈیجیٹل سکین 1912 کی اس سرد رات کے بارے میں نئے اشارے فراہم کر رہا ہے لیکن ماہرین کو تھری ڈی نقل کی ہر تفصیل کو مکمل طور پر جانچنے میں برسوں لگیں گے۔

پارکس سٹیفنسن نے کہا کہ ’وہ ہمیں ایک وقت میں صرف اپنی کچھ کہانیاں تھوڑی تھوڑی دے رہا ہے۔ ہر بار، وہ ہمیں مزید کی خواہش کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔‘

سمندر ٹائٹینک کے ملبے کو کھا رہا ہےٹائٹینک:دیوہیکل سمندری جہاز کی باقیات بحرِ اوقیانوس کے گہرے پانیوں میں کیسے تلاش کی گئیںٹائٹن کے ملبے کی زیرِ سمندر ویڈیوز دیکھ کر حادثے کی وجہ کیسے جانی جا سکتی ہے؟شہزادہ داؤد، سلیمان اور ’مسٹر ٹائٹینک‘: بدقسمت ٹائٹن آبدوز میں سوار مسافر کون تھے؟وہ شخص جس کی زندگی بد قسمت جہاز ٹائٹینک پر لگنے والے ایک زخم نے بچائیوہ چار معمے جو ٹائٹینک ڈوبنے کے 111 سال بعد بھی موجود ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More