Getty Images
ذہین لوگ بھی انسان ہوتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ وہ نظریہِ اضافیت کے بانی اور طبیعیات دان ہوں جنھوں نے کشش ثقل اور روشنی جیسے پیچیدہ موضوعات کی وضاحت کی ہو لیکن عظیم البرٹ آئن سٹائن کو بھی بعض اوقات اپنے نظریات پر مکمل یقین نہیں ہوتا تھا۔
اس شک نے انھیں کچھ بڑی غلطیاں کرنے پر مجبور کیا۔
سب سے بڑی غلطی
جب آئن سٹائن اپنے نظریۂ اضافیت (جنرل ریلیٹیویٹی) پر کام کر رہے تھے تو اُن کے تجزیے اس طرف اشارہ کرتے تھے کہ کششِ ثقل کائنات کو یا تو سکیڑ سکتی ہے یا پھیلا سکتی ہے۔ یہ اُس وقت کے عام مانے جانے والے نظریے کے خلاف تھا جس کے مطابق کائنات ساکن (یعنی غیر متحرک) تھی۔
چنانچہ 1917 میں آئن سٹائن نے عمومی نظریہِ اضافیت پر اپنے مقالے میں کشش ثقل کے اثرات کا مؤثر انداز میں مقابلہ کرنے کے لیے اپنی مساواتوں میں ایک ’کاسمالوجیکل کانسٹیٹ‘ شامل کیا، جس کے نتیجے میں اس قدامت پسندی کو تقویت ملی کہ کائنات ساکن ہے۔
ایک دہائی یا اس کے بعد سائنس دانوں نے نئے شواہد جمع کرنا شروع کیے کہ کائنات بالکل ساکن نہیں ہے۔
درحقیقت یہ پھیل رہی تھی۔
طبیعیات دان جارج گامو نے بعد میں اپنی کتاب ’مائی ورلڈ لائن: ایک غیر رسمی سوانح حیات‘ میں لکھا کہ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ ’کاسمالوجیکل کانسٹنٹ شامل کرنا میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔‘
Nasa/Esa/J Merten/D Coe1929 کے آس پاس سائنسدانوں کو شواہد ملے کہ کائنات ساکن نہیں بلکہ پھیل رہی ہے۔
لیکن اس کہانی میں ایک اور موڑ بھی آتا ہے۔
سائنس دانوں کے پاس اب اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ایک پراسرار ’ڈارک انرجی‘ کی وجہ سے کائنات کی توسیع میں تیزی آ رہی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آئن سٹائن کا ’کاسمالوجیکل کانسٹینٹ‘ جسے ابتدائی طور پر ان کی مساوات میں کشش ثقل کے مقابل متعارف کرایا گیا تھا، دراصل اس توانائی کا سبب ہو سکتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو پھر جسے آئن سٹائن نے اپنی سب سے بڑی غلطی کہا تھا، شاید غلطی نہیں تھی۔
دور دراز کی کہکشاؤں کی دریافت
آئن سٹائن کے عمومی نظریہِ اضافت ’جنرل ریلیٹیویٹی‘ نے ایک اور رجحان کی بھی پیش گوئی کی تھی کہ: اگر کسی ستارے جیسے بڑے اور بھاری جسم کے قریب سے کسی دور دراز چیز کی روشنی گزرے تو اُس کی کششِ ثقل اُس روشنی کو موڑ دے گی جیسے کوئی دیو ہیکل عدسہ (میگنفائنگ لینس) کام کر رہا ہو۔
اسے ’گریویٹیشنل لینسنگ‘ یعنی کششِ ثقل سے بننے والا عدسہ کہا جاتا ہے۔ لیکن آئن سٹائن کو لگتا تھا کہ یہ اثر اتنا معمولی ہوگا کہ اسے دیکھا ہی نہیں جا سکے گا۔
ان کا اپنا یہ قیاس شائع کرنے کا ارادہ بھی نہیں تھا تاہم آر ڈبلیو منڈل نامی ایک چیک انجینئر نے انھیں ایسا کرنے کے لیے راضی کیا۔
وہ پانچ سوال جن کا جواب سائنس آج تک نہیں دے سکیڈارک انرجی: وہ پراسرار قوت جس نے آئن سٹائن کے کائناتی نظریے کو ہلا کر رکھ دیا ہےکیا آئن سٹائن خدا پر یقین رکھتے تھے؟آئن سٹائن کی زندگی کی ’سب سے بڑی غلطی‘: ایک خط جس نے ایٹم بم کی ہلاکت خیز ایجاد کی بنیاد رکھی
سائنس جریدے میں شائع ہونے والے اپنے 1936 کے مقالے کا حوالہ دیتے ہوئے آئن سٹائن نے ایڈیٹر کو لکھا: ’میں اس چھوٹی سی اشاعت کے لیے آپ کے تعاون کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جسے مینڈل نے مجھ سے زبردستی لکھوایا۔ اس کی کوئی قیمت نہیں ہے لیکن اس سے وہ غریب آدمی خوش ہو جائیں گے۔‘
لیکن جس مضمون کو آئن سٹائن نے معمولی قرار دیا تھا، وہ آج فلکیات کے لیے بے حد قیمتی ثابت ہو چکا ہے۔
اسی گریویٹیشنل لینسنگ کے ذریعے امریکی خلائی ادارے ناسا اور یورپی خلائی ادارے کا ہبل ٹیلی سکوپ بہت دور موجود کہکشاؤں کی جھلک دیکھنے اور تفصیلات جاننے کے قابل ہو گیا ہے۔ کیونکہ زمین کے قریب موجود دیو ہیکل کہکشاؤں کے جھرمٹ ان دور دراز کہکشاؤں کی روشنی کو بڑا اور واضح کر دیتے ہیں۔۔۔ بالکل ایک قدرتی عدسے کی طرح۔
Nasa/Esaگریویٹیشنل لینسنگ کے ذریعے امریکی خلائی ادارے ناسا اور یورپی خلائی ادارے کا ہبل ٹیلی سکوپ بہت دور موجود کہکشاؤں کی جھلک دیکھنے اور تفصیلات جاننے کے قابل ہو گیا ہے۔’خدا جوا نہیں کھیلتا‘
’خدا جوا نہیں کھیلتا‘
آئن سٹائن کا یہ جملہ اُن کے سائنسی نظریات اور کائنات کی ترتیب پر یقین کو ظاہر کرتا ہے۔
آئن سٹائن کا کام، خاص طور پر ان کا 1905 کا وہ مشہور مقالہ جس میں انھوں نے روشنی کو بیک وقت لہر اور ذرے کے طور پر بیان کیا، یہ ایک نئی شاخ کی بنیاد بن گیا جسے ’کوانٹم مکینکس‘ کہتے ہیں۔
کوانٹم میکانکس چھوٹے ذیلی جوہری ذرات کی عجیب و غریب، غیر متوقعدنیا ہے۔ یہ ایٹم سے بھی چھوٹے ذرات ہوتے ہیں۔
اس دنیا میں کئی باتیں ہماری عام سمجھ کے خلاف لگتی ہیں جیسے: کوئی بھی کوانٹم ذرہ اس وقت تک کئی حالتوں میں موجود ہوتا ہے جب تک ہم اُسے دیکھ نہ لیں یا ناپ نہ لیں۔ جیسے ہی ہم اس کا ’مشاہدہ‘ کرتے ہیں یہ ایک خاص حالت میں آ جاتا ہے۔
اسے ’سپرپوزیشن‘ کہتے ہیں یعنی ایک ہی وقت میں کئی ممکنہ حالتوں میں ہونا۔
اس عجیب و غریب تصور کو ماہرِ طبیعیات اروِن شرونگر نے ایک مثال سے سمجھایا: فرض کریں کہ ایک بلی کو ایک بند ڈبے میں رکھا گیا ہے۔ ڈبے میں بلی یا تو زندہ ہوگی یا مر چکی ہوگی لیکن جب تک ڈبہ نہ کھولا جائے، بلی کو بیک وقت زندہ اور مردہ تصور کیا جا سکتا ہے۔
’شرونگر کی بلی‘ والا معاملہ کوانٹم دنیا کی حیرت انگیز حقیقتوں کو عام زبان میں بیان کرتا ہے۔
Getty Images'شرونگر کی بلی' والا معاملہ کوانٹم دنیا کی حیرت انگیز حقیقتوں کو عام زبان میں بیان کرتا ہے۔
آئن سٹائن نے کوانٹم مکینکس کی اس غیر یقینی دنیا کو کبھی مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا۔
سنہ 1926 میں انھوں نے مشہور ماہرِ طبیعیات میکس بورن کو خط میں لکھا: ’خدا جوا نہیں کھیلتا‘
یعنی آئن سٹائن کے لیے یہ بات قابلِ قبول نہیں تھی کہ کائنات میں چیزیں اتفاق یا بے ترتیبی سے کام کریں۔
1935 میں آئن سٹائن نے سائنسدانوں بورس پوڈولسکی اور نیتھن روزن کے ساتھ ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔
اس میں انھوں نے یہ دلیل دی کہ اگر دو ذرات کسی طرح ایک دوسرے سے جُڑے ہوں اور پھر الگ ہو جائیں تو پہلا ذرہ جب ناپا جائے گا اسی وقت فوراً ہی دوسرے ذرے کی حالت بھی طے ہو جائے گی، چاہے دوسرا ذرہ کہیں دور ہو اور اسے کسی نے دیکھا بھی نہ ہو۔
آئن سٹائن کا مقصد اس خیال کے ذریعے ’سپرپوزیشن‘ کے نظریے کو غلط ثابت کرنا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ یہی تصور ایک نئے اور اہم نظریے کی بنیاد بن گیا جسے آج ہم ’اینٹینگلمنٹ‘ کہتے ہیں یعنی دو ذرات کا ایک دوسرے سے ایسا گہرا تعلق ہونا کہ وہ چاہے جتنا بھی فاصلے پر ہوں، ایک کے ساتھ ہونے والا واقعہ دوسرے کو بھی متاثر کرے۔
یوں دیکھا جائے تو آئن سٹائن کے نظریات جتنے شاندار تھے، اُن کی وہ باتیں بھی سائنسی ترقی کا سبب بن گئیں جنھیں وہ ’غلط‘ سمجھتے تھے۔
وہ پانچ سوال جن کا جواب سائنس آج تک نہیں دے سکیڈارک انرجی: وہ پراسرار قوت جس نے آئن سٹائن کے کائناتی نظریے کو ہلا کر رکھ دیا ہےآئن سٹائن کی زندگی کی ’سب سے بڑی غلطی‘: ایک خط جس نے ایٹم بم کی ہلاکت خیز ایجاد کی بنیاد رکھیوالدین کے طعنوں سے پہلی بچی کی موت تک، آئن سٹائن نے کیا کیا دکھ دیکھے؟کلاشنکوف سمیت وہ چار ’تباہ کن‘ ایجادات جن کے موجد احساس جرم کا شکار ہوئےایٹم بم بنا کر ’جہانوں کے غارت گر‘ کہلانے والے اوپنہائمر کا فخر پچھتاوے میں کیسے بدلا؟