انڈیا کی ریاست تمل ناڈو کے ایک پرائیویٹ سکول میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے جہاں آٹھویں جماعت کی طالبہ کو ماہواری کی وجہ سے کلاس روم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی اور دروازے میں بیٹھ کر امتحانی پرچہ دینے پر مجبور کیا گیا۔
سوشل میڈیا پر اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سکول انتظامیہ کو بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔
یہ واقعہ تمل ناڈو کے کوئمبٹور ضلع کے قریب ایک نجی سکول میں پیش آیا۔ یہ طالبہ پہلی مرتبہ ماہواری کے بعد امتحانی پرچہ دینے کے لیے سکول گئی تھیں۔
اس طالبہ کے والد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میری بیٹی نے سکول سے واپسی پر بتایا کہ اُس کی ٹانگوں میں بہت درد تھا۔ اسے پہلی مرتبہ ماہواری ہوئے ابھی تین ہی دن ہوئے تھے۔ ہم نے سوچا کہ شاید اس کی ٹانگوں میں اسی وجہ سے درد ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ میری بیوی نے اس کی ٹانگوں میں تیل سے مالش کی کہ اسے درد میں کُچھ آرام محسوس ہو۔‘
طالبہ کے والد نے بتایا کہ ’بعد میں جب میری بیوی نے اسے اعتماد میں لیا تو اس نے روتے ہوئے اپنی ٹانگ میں درد کی وجہ بتائی۔ میری بیٹی نے تین گھنٹے کلاس روم کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر امتحانی پرچہ دیا۔ اسی وجہ سے اس کی ٹانگوں میں اس قدر شدید درد تھا۔‘
سکول انتظامیہ نے پرنسپل کو برطرف تو کر دیا مگر پرنسپل نے یہ دعویٰ کیا کہ انھوں نے والدین کی درخواست پر طالبہ کو الگ سے پرچہ دینے کے لیے بٹھایا تھا۔
پولاچی کی اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس سروشتی سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھوں نے وضاحت طلب کرتے ہوئے سکول انتظامیہ سے سوال کیا کہ طالبہ کو الگ کلاس روم کے بیٹھانے کی بجائے انھیں اپنی ہی کلاس کے باہر سیڑھیوں میں کیوں بٹھایا گیا؟‘
طالبہ کے والد ایک مزدور ہیں اور وہ نجی سکول میں آٹھویں جماعت میں پڑھ رہی ہے۔
شکایت میں کہا گیا ہے کہ طالبہ کو سکول میں امتحان دینے کے لیے کلاس روم کے اندر بٹھانے کی بجائے باہر سیڑھیوں پر بٹھایا گیا جہاں اُنھوں نے تین گھنٹے بیٹھ کر اپنا پرچہ مکمل کیا۔
ماں نے سکول پہنچ کر واقعے کی ویڈیو بنا لی
دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا اور طالبہ کی والدہ نے پورے واقعے کی ویڈیو بنائی جو بعد ازاں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔
ویڈیو میں طالبہ کو کلاس روم کے باہر سیڑھیوں پر اکیلے بیٹھ کر پیپر دیتے دیکھا جا سکتا ہے۔ جب اُن کی والدہ نے اپنی بیٹی کو باہر بٹھانے کی وجہ پوچھی تو سکول کی پرنسپل اور دیگر عملے کے ارکان ان سے بحث کرنے لگے اور ان سے پوچھا کہ وہ بغیر اجازت سکول میں کیسے داخل ہوئیں اور انھوں نے ویڈیو کیوں بنائی۔
واقعے کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے طالبہ کے والد نے کہا کہ ’میری سب سے چھوٹی بیٹی کو 5 تاریخ کو ماہواری ہوئی، وہ 7 تاریخ کو امتحان دینے کے لیے سکول گئی جہاں انھیں امتحانی پرچہ دینے کے لیے کلاس روم میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور کلاس روم کے باہر ہی سیڑھیوں میں اکیلے بٹھایا گیا۔‘
Getty Images
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں رات کو اس واقعے کا علم ہوا۔ لیکن میری بیوی نے جا کر تصدیق کے لیے اس واقعے کے دوسرے دن (جب بیٹی کو پھر سے کلاس روم میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی) سکول جا کر ویڈیو بنائی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ میں نے بھی اسی سکول میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے الزام لگایا کہ اس سکول میں پڑھانے والے چند اساتذہ اور عملہ معاشرتی نقطہِ نظر سے طلبا کے ساتھ امتیازی سلوک سے پیش آتے ہیں اور انھی کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔
جب اس واقعے کے ویڈیو وائرل ہوئی اور ہر جانب سے ہی سوالات اُٹھائے جانے لگے تو 10 اپریل کو کوئمبٹور پہنچنے والے تمل ناڈو کے وزیر توانائی سینتھل بالاجی سے صحافیوں نے پوچھا گیا کہ ’کوئمبٹور کے نجی سکولوں میں اس طرح کے واقعات اتنی کثرت سے کیوں ہو رہے ہیں؟‘ اس پر وزیر نے بس اتنا ہی جواب دیا کہ ’پولیس اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔‘
جمعرات کو سکول بند رہے کیونکہ مہاویر جینتی کے موقع پر سرکاری تعطیل تھی۔ اس کے بعد جمعہ کی صبح پولاچی کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سریشتی سنگھ کی قیادت میں پولیس نے سکول جاکر واقعہ کی تحقیقات کی۔
بی بی سی نے سکول مینیجر کلپنا دیوی سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی مگر تاحال کوئی جواب نہیں مل سکا۔
بچیوں میں قبل از وقت ماہواری کی وجوہات: ’مجھے 13 سال کی عمر میں ماہواری ہوئی، گمان تھا کہ میری بچی بھی اِسی عمر میں بالغ ہو گی‘’ماہواری نارمل ہے بس تم نے کسی کو بتانا نہیں‘ماہواری میں معمول سے زیادہ خون آنا خواتین میں کن مسائل کا باعث بن سکتا ہے؟بلوغت کے باوجود اگر ماہواری نہیں ہو رہی تو کیا کرنا چاہیے؟کیا طالبہ کا ’اچھوت‘ ہونا وجہ ہے؟
اس سلسلے میں پیپلز لبریشن فرنٹ کے کوئمبٹور ضلع صدر تھمبو کی قیادت میں کچھ لوگوں نے پولاچی کے ضلعی کلکٹر سے شکایت کی تھی۔
درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے ’چونکہ طالبہ کا تعلق اروندھاتیار برادری سے ہے اس لیے اچھوت ہونے کی بنیاد پر انھیں کلاس روم سے باہر بیٹھ کر امتحان دینے کے لیے کہا گیا اس لیے متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب پولیس نے چھان بین کی تو سکول انتظامیہ نے واضح کیا کہ طالبہ کو ان کے والدین کی درخواست پر ہی کلاس روم کے باہر پیپر دینے کی اجازت دی گئی۔‘
بی بی سی تامل سے بات کرتے ہوئے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سروشتی سنگھ نے کہا کہ ’طالبہ کی والدہ نے سب سے پہلے کلاس ٹیچر سے فون پر رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا اس کے لیے الگ بیٹھ کر امتحانی پرچہ دینا ممکن ہے کیونکہ انھیں پہلی مرتبہ پیریڈز ہوئے ہیں۔‘
امتحانات کی وجہ سے طالبہ کی والدہ کو سکول پرنسپل سے رابطہ کرنے کو کہا گیا۔ سکول کی پرنسپل نے اس وقت کہا تھا کہ طالبہ کی والدہ نے درخواست کی تھی کہ وہ الگ بیٹھ کر پرچہ دینا چاہتی ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ تب ہی ممکن تھا کہ جب طالبہ نے بتایا کہ رات کو ان کی ٹانگوں میں درد ہو رہا تھا تب ان کی والدہ کو احساس ہوا کہ انھیں باہر بیٹھ کر امتحان دینا پڑے گا۔ اگلے دن سب کی کلاسیں تھیں۔ لیکن انھوں نے طالبہ کو نہیں بھیجا، چونکہ امتحان 9 اپریل کو تھا اس لیے انھوں نے اسے سیدھے امتحانی پرچہ دینے کے لیے بھیج دیا۔‘
لڑکی کے والد نے سکول انتظامیہ کے بیان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی نے پوچھا کہ کیا ماہواری کی وجہ سے اس کے لیے امتحان دینا لازمی ہے؟
تب انھیں بتایا گیا کہ امتحان دینا لازمی ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت والدین نے لڑکی کو الگ بیٹھا کر امتحان دینے کی اجازت بھی مانگی۔
طالبہ کے والد نے کہا کہ ’یہ درست ہے کہ ہم نے الگ سے بیٹھنے اور امتحان دینے کی اجازت مانگی تھی۔ ہم نے درخواست کی کہ انھیں علیحدہ کلاس روم یا ہال میں میز دی جائے۔‘
’لیکن سکول کے اساتذہ نے انھیں کلاس روم کے باہر سیڑھیوں پر بٹھایا اور تین گھنٹے کا پرچہ لکھوایا۔‘
اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس شریشتی سنگھ نے کہا کہ انھوں نے اس سلسلے میں سکول انتظامیہ سے وضاحت طلب کی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کریں گی کہ آیا اس سکول میں اس سے قبل ایسا واقعہ ہوا ہے یا نہیں۔
اس واقعے میں بہت سے لوگ اسکول انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ طالبہ کے والدین کا یہ مطالبہ غلط تھا کہ وہ بلوغت کو پہنچ چکی ہے اور انھیں اکیلے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔
بی بی سی تمل سے بات کرتے ہوئے ڈیموکریٹک ماؤں کی ایسوسی ایشن کی ریاستی جنرل سکریٹری رادھیکا نے کہا کہ ’یہ نہیں کہا جا سکتا کہ والدین نے طالبہ کو الگ بٹھا کر امتحان دینے کی اجازت مانگیتھی۔‘
’یہ استاد کا فرض ہے کہ وہ بچی کو اس بارے میں آگاہی دیں اور اسے باقی سب کے ساتھ پیپر لکھنے دیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’طالبہ کو کلاس روم کے باہر سیڑھیوں پر اکیلا بٹھانا قابل قبول نہیں ہے۔‘
سکول پرنسپل کو معطل کر دیا گیا
دریں اثنا اس واقعے کے بعد تمل ناڈو کے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے تمام سکولوں کو ایک سرکلر جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’جن طالبات کو پیریڈز ہوں انھیں امتحان دینے کے لیے اکیلے نہ بٹھایا جائے۔‘
اس کے بعد تمل ناڈو کے سکول ایجوکیشن منسٹر انبل مہیش نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایکس پر ایک پوسٹ کی۔
انھوں نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ ’اس پرائیویٹ سکول کی محکمانہ انکوائری کی گئی ہے۔ سکول کی پرنسپل کو معطل کردیا گیا ہے۔ بچوں کے ساتھ کسی بھی شکل میں بدسلوکی برداشت نہیں کی جائے گی۔ آئیں سب مل کر ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔‘
تحقیقات کے بعد تمام سکولوں کو مطلع کر دیا گیا ہے
کوئمبٹور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (انچارج) گومتی نے کہا کہ ’ہم نے سکول کا معائنہ کیا ہے۔ ہم نے ابھی تک والدین سے بات نہیں کی ہے۔ پہلے قدم کے طور پر سکول کی پرنسپل کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اگلا قدم محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام اٹھائیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’انکوائری رپورٹ ایجوکیشن حکام کو پیش کی جائے گی جس کے بعد حتمی کارروائی کی جائے گی۔‘
سکولوں کو ماہواری کے دوران طالبات کی صحت کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا سرکلر جاری کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ بنیادی طور پر سینیٹری نیپکن مشینیں اور متعلقہ سہولیات فراہم کی جائیں۔ گومتی نے اس وقت یہ بھی کہا کہ ’اب سے اسے زیادہ احتیاط سے نافذ کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔‘
بچیوں میں قبل از وقت ماہواری کی وجوہات: ’مجھے 13 سال کی عمر میں ماہواری ہوئی، گمان تھا کہ میری بچی بھی اِسی عمر میں بالغ ہو گی‘’ماہواری نارمل ہے بس تم نے کسی کو بتانا نہیں‘جہاں خواتین کو ماہواری کے دوران جنگل میں بھیج دیا جاتا ہےماہواری کی چھٹی: ’مجھے مرد ساتھیوں نے تنقید کا نشانہ بنایا، معاشرہ سمجھتا ہے کہ ہمیں درد برداشت کرنا چاہیے‘ماہواری میں معمول سے زیادہ خون آنا خواتین میں کن مسائل کا باعث بن سکتا ہے؟بلوغت کے باوجود اگر ماہواری نہیں ہو رہی تو کیا کرنا چاہیے؟