پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہمیں مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں ایک حملے میں سیاحوں کی جانوں کے ضیاع پر تشویش ہے۔‘
بدھ کو پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔‘
منگل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے سیاحوں پر حملے میں 24 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے مقامی پولیس کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پرفائرنگ کے واقعے میں ہلاکتوں کی تعداد 26 ہو گئی ہے۔انڈین وزیرِاعظم نریندر مودی دو روزہ سرکاری دورے پر سعودی عرب میں موجود تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔
بدھ کے روز انڈیا واپس پہنچنے کے بعد وزیراعظم مودی نے دہلی کے اندرا گاندھی ایئر پورٹ پر ہی ایک سکیورٹی اجلاس کی صدارت کی۔ اس اجلاس میں وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر، قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول، سیکریٹری خارجہ وکرم مصری اور دیگر موجود تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ارے اے ایف پی کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ یہ گذشتہ ایک برس کے دوران کا بدترین حملہ ہے۔
انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے اس ’مذموم اقدام‘ کی مذمت کی۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ حملہ آوروں کو ’انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘پہلگام کشمیر کا مشہور سیاحتی مقام ہے اور سری نگر سے تقریباً 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ٹور گائیڈ وحید نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ گولیاں چلنے کی آواز سن کر جائے وقوعہ پر پہنچے اور کئی زخمیوں کو گھوڑے پر ہسپتال منتقل کیا۔’میں نے کچھ لوگوں کو زمین پر گرے ہوئے دیکھا جو مردہ لگ رہے تھے۔‘علاقے کے ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ قتل عام ہے جس میں کم از کم 24 افراد مارے گئے ہیں۔‘تاحال کسی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم مسلم اکثریتی اس خطے میں اس کی آزادی کے لیے عسکریت پسند گروہ سنہ 1989 سے سرگرم ہیں۔نریندر مودی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ حملہ آوروں کو ’انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)’امریکہ انڈیا کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے‘امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حملے کے بعد انڈیا کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’کشمیر سے بہت پریشان کن خبریں آ رہی ہیں۔ امریکہ دہشت گردی کے خلاف انڈیا کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے۔‘کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ ’یہ حملہ حالیہ برسوں میں عام شہریوں پر ہونے والے کسی بھی حملے سے کہیں بڑا ہے اور ہلاکتوں کی صحیح تعداد ابھی معلوم کی جا رہی ہے۔‘’ہمارے مہمانوں پر یہ حملہ انتہائی مکروہ عمل ہے۔ اس حملے کے ذمہ دار جانور غیرانسانی اور قابل نفرت ہیں۔‘انڈین وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا ہے کہ ’دہشت گردی کے بزدلانہ واقعے میں ملوث افراد کو بخشا نہیں جائے گا، اور ہم ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کریں گے۔‘انڈیا کے تقریباً پانچ لاکھ سے زائد فوجی مستقل طور پر کشمیر میں تعینات ہیں، لیکن سنہ 2019 میں مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کی محدود خودمختاری ختم کیے جانے کے بعد لڑائی میں کمی آئی ہے۔حملے کے بعد اپنے بیان میں مودی کا کہنا تھا کہ ’ان کا شیطانی ایجنڈا کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔ دہشت گردی کے خلاف ہمارا عزم غیر متزلزل ہے اور مزید مضبوط ہو گا۔‘حالیہ برسوں میں حکام نے اس پہاڑی علاقے کو سردیوں میں سکیئنگ اور گرمیوں میں انڈیا کے دیگر گرم علاقوں سے بچنے کے لیے سیاحتی مقام کے طور پر بھرپور طریقے سے فروغ دیا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2024 میں تقریباً 35 لاکھ سیاح کشمیر آئے، جن میں اکثریت ملکی سیاحوں کی تھی۔انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں زائرین پر آخری بڑا حملہ گذشتہ برس جون میں ہوا تھا (فوٹو: اے ایف پی)سنہ 2023 میں انڈیا نے سری نگر میں سخت سکیورٹی میں جی 20 ٹورازم اجلاس کی میزبانی کی تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ خطے میں معمولات بحال ہو رہے ہیں اور امن واپس آ رہا ہے۔اس خطے میں انڈیا کئی سیاحتی مقامات تعمیر کر رہی ہیں جن میں کچھ لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہیں۔انڈیا اکثر پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔اسلام آباد اس الزام کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ صرف کشمیریوں کی حقِ خودارادیت کی جدوجہد کی حمایت کرتا ہے۔انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں زائرین پر آخری بڑا حملہ گذشتہ برس جون میں ہوا تھا، جس میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 33 زخمی ہو گئے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد ہندو یاتریوں کو لے جانے والی بس ایک گہری کھائی میں جا گری تھی۔حالیہ برسوں میں سب سے بدترین حملہ فروری 2019 میں پلوامہ میں ہوا تھا، جب عسکریت پسندوں نے بارود سے بھری گاڑی پولیس قافلے سے ٹکرا دی تھی، جس میں 40 افراد ہلاک اور کم از کم 35 زخمی ہوئے تھے۔عام شہریوں پر حالیہ برسوں کا مہلک ترین حملہ مارچ 2000 میں ہوا تھا، جب 36 انڈین شہری مارے گئے تھے۔انڈیا نے سنہ 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی اور ریاست کو دو وفاقی علاقوں (یونین ٹیریٹریز) جموں و کشمیر اور لداخ، میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس اقدام سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔