آل پاکستان ٹیکسٹائلز ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے سربراہ کامران ارشد نے کہا ہے کہ نئی نہروں کے تنازع پر شاہراہوں کی بندش سے ایک ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کامران شاہد کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے 12 روز سے دونوں صوبوں کا بارڈر بند ہے، جس کی وجہ سے ہزار مال بردار گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں اور ان میں ایکسپورٹ کا مال ہے۔
خیال رہے کہ دو ہفتے سے دریائے سندھ میں پنجاب کی حدود میں نئی نہریں نکالنے پر تنازع ختم نہیں ہو پایا ہے، حالانکہ وزیراعظم شہباز شریف اور پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مشترکہ پریس کانفرنس میں نہروں کا مںصوبہ وقتی طور پر بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم اس کے باوجود بھی سندھ میں مختلف قوم پرست جماعتوں اور وکلا تنظیموں کا نئی نہروں کے خلاف احتجاج ختم نہیں ہو سکا ہے۔
چئیرمین اپٹما کامران ارشد نے بتایا کہ ’اس ہڑتال نے ایکسپورٹرز کی کمر توڑ دی ہے، کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ امریکہ نے جو 90 دن کی ٹیرف پر چھوٹ دی ہے وہ پاکستانی معیشت اور تاجروں کے لیے کتنی اہم ہے۔ کم از کم ایک ارب ڈالر کا مال سڑکوں پر خوار ہو رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں اور 70 ہزار کنٹینر سڑکوں پر لاوارث کھڑے ہیں۔‘انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ہاں تو احتجاج بھی خودکشی جیسا ہوتا ہے نہ کسی کو اپنی پرواہ ہوتی ہے نہ دوسروں کی۔‘کامران ارشد کے مطابق ’پھنسے کنٹینرز میں کراچی سے امپورٹ کا خام مال لانے والے کنٹینر بھی شامل ہیں، جس سے دھاگے کی صنعت جڑی ہوئی ہے۔‘گھوٹکی میں دو مقامات پر کئی روز سے دھرنے جاری ہیں (فوٹو: سکرین شاٹ)ان کے مطابق ’اس وقت خام مال کی قلت کے باعث 120 سپننگ اور 100 جیننگ کی ملیں بند ہیں اور ان ملوں میں وہ سامان تیار ہونا تھا جس کی ایکسپورٹ کے آرڈر پہلے ہو چکے ہیں۔‘سندھ اور پنجاب کے درمیان نقل و حمل کی بندش نے ملک کے طول و عرض میں تاجروں کو متاثر کر رکھا ہے۔ اپٹما نارتھ زون کے چئیرمین اسد شفیع کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی معیشت کو صرف اور صرف سیاست اور بدامنی کھا گئی ہے۔ بنگلہ دیش جیسے ملک جو چند سالوں میں معاشی طور پر کھڑے ہو گئے وہاں ایکسورٹ گاڑیوں کو ایمبولینس کا سٹیٹس دے کر نکالا جاتا ہے۔ یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کوئی اٹھتا ہے اور معیشت کی شہ رگ کو دبوچ لیتا ہے۔‘گھوٹکی میں جاری دھرنے 11ویں روز میں داخلکراچی سے اردو نیوز کے نمائندے زین علی کا کہنا ہے کہ گھوٹکی کے مقام پر متنازع کینال منصوبے کے خلاف دھرنے 11ویں روز میں داخل ہو چکے ہیں۔جس کے باعث قومی شاہراہ پر ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوئی ہے اور سندھ و پنجاب کے درمیان آمد و رفت تقریباً معطل ہو چکی ہے۔گھوٹکی ضلع میں دو اہم مقامات پر دھرنے جاری ہیں۔آل پاکستان ٹیکسٹائلز ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے راستوں کی بندش پر تشویش کا اظہار کیا ہے (فوٹو: سکرین شاٹ)ڈہرکی کے قریب منگریو پمپ کے علاقے میں قوم پرست جماعتوں، سماجی تنظیموں اور مقامی کسانوں کی جانب سے دھرنا دیا جا رہا ہے، جو آج نویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔اسی طرح کموں شہید کے مقام پر سندھ پنجاب سرحد یہاں وکلا کی جانب سے چھ روز سے دھرنا جاری ہے۔ان دھرنوں میں سندھ بار ایسوسی ایشن، کراچی بار ایسوسی ایشن، سکھر بار ایسوسی ایشن، خیرپور بار ایسوسی ایشن، سندھی انعام (سندھ سبھا)، عوامی تحریک، سندھ یونائیٹڈ اور جیے سندھ قومی محاذ کے اراکین شامل ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے درمیان اعلٰی سطحی مذاکرات کے بعد اعلان کیا گیا کہ اگر تمام صوبوں کے درمیان اتفاق رائے نہ ہوا تو کینال منصوبے کو معطل کر دیا جائے گا۔تاہم مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ منصوبے کی مکمل منسوخی کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، اور وہ اس وقت تک دھرنے جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔
مظاہرین نے وفاقی حکومت کو 72 گھنٹوں کا الٹی میٹم بھی دیا ہے اور منصوبہ منسوخ نہ ہونے کی صورت میں ریلوے ٹریکس کو بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔