"ہم نے ابھی اپنے گھر سے دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں۔ اُن لوگوں سے جو جنگ کے نعرے لگا رہے ہیں، تشدد کا جشن منا رہے ہیں، اور مزید تصادم کو ہوا دے رہے ہیں، کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ یہ کوئی فلم نہیں ہے۔ جنگ تباہی ہے۔ معصوم جانیں، بچے، خاندان اس کی قیمت چکاتے ہیں۔ دنیا کو جاگنا ہوگا۔ ہمیں امن چاہیے، دکھاوا نہیں۔ ہر جان قیمتی ہے۔ ہر قوم کو تحفظ کا حق حاصل ہے۔ بین الاقوامی برادری کو فوری اور فیصلہ کن طور پر مداخلت کرنی چاہیے تاکہ اس جنون کو روکا جا سکے۔ واحد حقیقی حل بات چیت ہے۔ بات کریں۔ سنیں۔ مسئلہ حل کریں۔ اس خطے اور دنیا بھر میں اربوں زندگیاں اسی پر منحصر ہیں۔"
یہ پیغام ہے علی ظفر کا — ایک فنکار، جو خود پاکستان اور بھارت دونوں میں مقبول رہا، مگر آج وہ صرف فنکار نہیں، ایک باخبر شہری اور حساس دل رکھنے والا انسان بن کر بول رہا ہے۔
لاہور میں دھماکوں کی آوازیں سن کر، علی ظفر نے صرف خوف کا اظہار نہیں کیا، بلکہ انہوں نے ان آوازوں کو ایک موقع بنایا — ایک سچ کہنے کا لمحہ۔ ان کا پیغام صاف تھا: جو لوگ جنگ کو جشن سمجھتے ہیں، وہ شاید یہ بھول چکے ہیں کہ جنگ میں سب ہارتے ہیں۔
علی ظفر نے دنیا کو یاد دلایا کہ یہ اصل زندگی ہے، یہاں کوئی ہیپی اینڈنگ گارنٹی نہیں۔ اگر آگ بھڑک اٹھی، تو وہ سب کچھ جلا سکتی ہے — قومیں، نسلیں، اور آنے والے کل کا خواب۔