تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے روایتی حریفوں انڈیا اور پاکستان کے درمیان لڑائی ختم کرنے میں مدد کرنے کے دعوے نے ان کے اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان خلیج پیدا کر دی ہے۔ایک ہفتہ قبل صدر ٹرمپ نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک مختصر مگر شدید لڑائی کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ جنگ بندی کیسے ہوئی اس حوالے سے امریکہ اور انڈیا کا موقف مخلتف ہے۔نئی دہلی میں قائم تھنک ٹینک اوبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن (او آر ایف) کے انڈین خارجہ پالیسی کے ماہر ہرش وی پنت نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی انتظامیہ کا خیال تھا کہ ’اس مرحلے میں مداخلت سے انہیں ٹرمپ کے کردار کو اجاگر کرنے کے حوالے سے شاید کچھ مدد مل سکتی ہے۔‘’یہ بنیادی محرک بن گیا اور اسی لیے ٹرمپ نے جلدی سے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔‘
انڈین کے زیرانتطام کشمیر میں اپریل میں عسکریت پسندوں نے 26 لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا جس کے بعد انڈیا نے سات مئی کو پاکستان پر مخلتف مقامات کو نشانہ بنایا جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ’دہشت گردوں کے کیمپ‘ تھے۔ تاہم اس کے بعد دونوں ملکوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔
انڈیا کا الزام ہے کہ عسکریت پسندوں کے اس حملے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے جبکہ پاکستان اس سے انکاری ہے۔امریکی صدر نے چار دنوں تک دونوں ممالک کے ڈرونز، میزائلز اور توپ خانے کے حملوں کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا۔ ان حملوں میں تقریباً 70 افراد ہلاک ہوئے جن میں درجنوں شہری شامل ہیں، جبکہ ہزاروں لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا۔بعدازاں انہوں نے انڈیا اور پاکستان کو ’مکمل جنگ کے کنارے سے واپس لانے‘ پر فخر کا اظہار کیا۔ صدر ٹرمپ نے جمعے کو فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت بڑی کامیابی ہے جس کا مجھے کریڈٹ نہیں جائے گا۔‘تاہم انڈیا ان دعووں کو نظر انداز کر رہا ہے کیونکہ یہ اس کی دہائیوں پرانی پالیسی کے خلاف ہیں۔ اس پالیسی کے تحت وہ پاکستان کے ساتھ تنازعات میں کسی بیرونی ثالثی کے خلاف ہے۔جنگ بندی کے بعد انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی پہلی تقریر میں امریکہ مداخلت کا ذکر نہیں تھا اور اس کے بعد سے ان کی حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستان کے ساتھ بات چیت ’صرف دو طرفہ‘ ہے۔انڈیا نے امریکی صدر کے اس دعوے کو بھی مسترد کر کیا ہے کہ تجارتی دباؤ کی وجہ سے فوراً جنگ بندی ہوئی۔انڈین وزارت خارجہ نے اس ہفتے کہا کہ ’امریکی حکام کے ساتھ بات چیت میں تجارت کا مسئلہ سامنے نہیں آیا۔‘اوبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن سے وابستہ منوج جوشی کے مطابق ٹرمپ کی بیان بازی انڈیا کے لیے ’پریشان کن‘ ہے جو اپنے سٹریٹجک محل و وقوع اور مارکیٹ کے بڑے سائز کی وجہ سے امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے۔انہوں نے کہا کہ لیکن انڈیا ’بہت محتاط‘ ہے کیونکہ وہ امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے کے لیے بات چیت کر رہا ہے تاکہ بھاری ٹیرف سے بچا جا سکے۔’ہم (انڈیا) چاہیں گے کہ ایجنڈہ ایک مختلف سمت میں جائے۔‘انڈین وزیراعظم کے لیے یہ ملکی سطح پر بھی ایک نازک معاملہ ہے۔مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس نے کہا کہ ٹرمپ کے اعلان نے ہندو قوم پرست رہنما (مودی) کے ’بہت تاخیر سے خطاب‘ سے توجہ ’اپنی جانب مائل‘ کر لی ہے۔اس نے آل پارٹیز میٹنگ کا بھی مطالبہ کیا تاکہ حکومت سے یہ سوال پوچھا جا سکے کہ کیا انڈیا پاکستان اور اس کے درمیان کشمیر کے تنازع پر ’تیسرے فریق کی ثالثی‘ کی اپنی پالیسی تبدیل کر رہا ہے؟دونوں ملکوں نے سنہ 1970 کی دہائی میں ’اختلافات کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنے‘ پر اتفاق کیا تھا۔نریندر مودی اس سے قبل کانگریسی حکومتوں کا پاکستان کے ساتھ جھڑپوں پر ’کمزور‘ ردعمل دینے پر مذاق اڑایا کرتے تھے۔یوریشیا گروپ کے جنوبی ایشیا کے محقق پرمیت پال چودھری نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لہذا انڈیا واضح طور پر اس کا جواب دے گا اور اس سے انکار کرے گا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے دعوے کی ثالثی کا اسلام آباد نے خیرمقدم کیا، جس کو ’ایک امریکی مداخلت کی ضرورت تھی تاکہ اس تنازع سے نکلا جا سکے۔‘