’ٹرمپ کی دوستی یا ریچھ کا جپھا‘

بی بی سی اردو  |  May 29, 2025

Getty Images

انڈیا نے اب تک ٹرمپ کے جنگ بندی کروانے کے دعویٰ پر چُپ سادھ رکھی ہے۔ جبکہ پاکستان نہ صرف اس دعوے کی تصدیق کر چکا ہے بلکہ بظاہر اِس پر بھی خوش ہے کہ ٹرمپ بیچ میں پڑ کے کشمیر سمیت دیرینہ مسائل خوش اسلوبی سے طے کروانے کی بھی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں انڈیا ہمیشہ سے مرکزی عنصر رہا ہے۔ انڈیا کے حجم اور علاقائی تسلط کے خوف نے ابتدا سے ہی پاکستان کو امریکہ کا دامن پکڑنے پر مجبور کیا۔

مگر امریکہ نے دو طرفہ تنازعات کا کوئی پائیدار حل نکالنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے بجائے پاکستان کو 1950 کی دہائی میں سیٹو اور سینٹو کی لال بتی کے پیچھے لگا دیا۔ پاکستان کو اسلحے سے بھی لیس کیا مگر اس شرط پر کہ یہ اسلحہ صرف کمیونسٹ خطرے کے خلاف استعمال ہو گا۔

سنہ 1959 میں پاک، امریکہ دفاعی تعاون معاہدے میں بھی پاکستان کو اُن کمیونسٹ ممالک سے بچانے کا وعدہ کیا گیا جن میں سے کسی کے ساتھ بھی پاکستان کا کوئی جغرافیائی جھگڑا نہیں تھا۔

اکتوبر، نومبر 1962 میں انڈیا چین لڑائی کے موقع پر فیلڈ مارشل ایوب خان کو کچھ سیانوں نے مشورہ دیا کہ یہ سنہری موقع ہے مسئلہ کشمیر کو بزور حل کرنے کے لیے۔

مگر فیلڈ مارشل کو کینیڈی انتظامیہ کی اُس یقین دہانی پر زیادہ اعتماد تھا کہ اگر پاکستان اس لڑائی میں غیر جانبدار رہے تو بطور انعام کینیڈی انتظامیہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سنجیدگی سے ثالثی کرے گی۔

تب تک انڈیا امریکہ سے زیادہ برطانوی اسلحہ استعمال کرنے کا عادی تھا۔ جبکہ پاکستان کا دارومدار امریکی اسلحے پر تھا اور پاکستان کو یکطرفہ غلط فہمی بھی تھی کہ 1960 کا پاکستان امریکہ دفاعی معاہدہ وہ چھتری ہے جس کے تحت اگر پاکستان نے امریکہ کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے پشاور ایئربیس فراہم کیا ہے تو امریکہ بھی وقت پڑنے پر کم از کم دفاعی امداد معطل نہیں کرے گا۔

مگر 1965 کی لڑائی میں امریکہ نے یہ کہہ کر اسلحے کی سپلائی روک دی کہ ہم نے اب تک جو دفاعی آلات دیے وہ انڈیا کے خلاف استعمال کرنے کے لیے نہیں تھے۔ چنانچہ 17 روز میں ہی جنگ رُک گئی۔

Getty Imagesانڈیا چین لڑائی کے موقع پر فیلڈ مارشل ایوب خان کو کچھ سیانوں نے مشورہ دیا کہ یہ سنہری موقع ہے

یہ بات اب تک معمہ ہے کہ جو کام پاکستان کو 1962 کی انڈیا چین جنگ کے دوران کرنا چاہیے تھا وہی کام تین برس بعد کس برتے پر کرنے کا سوچا گیا اور اس سے حاصل کیا ہوا؟

مگر پاکستان کی یہ آس پھر بھی نہ ٹوٹی کہ امریکہ ایک نہ ایک دن ضرور کشمیر کا مسئلہ حل کروائے گا۔ اسی امید پر 1970 میں یحییٰ خان نے چین امریکہ تعلقات کی بحالی میں بچولیے کا کردار بھی ادا کیا۔

مسئلہ کشمیر تو خیر کیا حل ہوتا الٹا پاکستان کے لگ بھگ ایک برس بعد دو ٹکڑے ہو گئے۔ امریکہ نے بس اتنی مہربانی کی کہ دورانِ جنگ علامتی طور پر ساتواں بحری بیڑہ خلیج بنگال میں چند دن کے لیے نمائش پر لگا دیا اور اندرا گاندھی سے کہا کہ اب جبکہ آپ نے ڈھاکہ لے لیا ہے تو مغربی پاکستان کے محاذ پر جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔

نہ صرف ڈھاکہ ہاتھ سے گیا بلکہ جنگی قیدی چھڑوانے کی قیمت شملہ معاہدے کی اس شق کی صورت میں ادا کرنا پڑی کہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام بنیادی تنازعات کسی تیسرے کو بیچ میں ڈالے بغیر پرامن انداز میں حل کیے جائیں گے۔ یعنی اقوامِ متحدہ کی کشمیر کی بابت بنیادی قرار دادیں رہی سہی اہمیت بھی کھو بیٹھیں۔

حالانکہ یہ قراردادیں پاکستان کے مطالبے پر نہیں بلکہ انڈیا کی شکایت پر منظور ہوئی تھیں۔

دشمن کی ناک رگڑوانے کا قاتل شوق’کیا ٹرمپ ہمارا ابا لگتا ہے؟‘جنگ ہم کریں اور چھڑوائیں دوسرےانڈیا کو طالبان مبارک

مجھے یاد ہے جب صدر ذوالفقار علی بھٹو شملہ معاہدہ کرنے کے بعد لاہور ایئرپورٹ پر فاتحانہ اُترے تو انھوں نے اپنی جیکٹ طیارے کی سیڑھیوں سے ہی خیر مقدمی مجمع کی جانب اُچھال دی۔

ریاستی بیانیہ یہ تشکیل دیا گیا کہ بھٹو نے اندرا کو اپنی غیر معمولی سفارتکاری کے سحر میں لے کر سب کچھ لکھوا لیا۔ اِس بات کو 53 برس گزر گئے۔ مسائل حل کی سمت کیا بڑھتے الٹا چار قدمپیچھے چلے گئے۔

(آخری ناکام مسلح کوشش 1999 میں کارگل میں کی گئی اور وہ بھی تب جب دونوں کے پاس ایٹمی ہتھیار آ گئے تھے۔تب بھی پاکستان کو جنگ بندی کے لیے امریکہ سے رجوع کرنا پڑا)۔

مگر ہر بار پاکستان کی امریکی تابعداری میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ مارشل لا کو جائز دکھانے کے لیے ضیا الحق کو بین الاقوامی لیجیٹمیسی چاہیے تھی۔

امریکہ کو جنوبی اور مغربی ایشیا میں سوویت مخالف پالیسی کا بار اٹھانے کے لیے ایک آزمودہ قلی درکار تھا۔ جب آٹھ برس بعد سوویت فوجیں تام توبڑہ اٹھا کر افغانستان سے رخصت ہوئیں تو قلی کو بھی فارغ کر دیا گیا اور جنگی باقیات کی صفائی کا کام بھی اس پر چھوڑ دیا گیا۔

12، 13 برس بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بار پھر امریکہ نے پاکستان کو اپنا بوجھ اٹھانے پر اگلے 20 برس کے لیے آمادہ کر لیا۔ اس دوران پاکستان کو رسدی خدمات کے عوض طے شدہ دیہاڑی ملتی رہی جبکہ انڈیا اور امریکہ میں وہ سٹرٹیجک ساجھے داری شروع ہوئی جو ہمیشہ سے امریکہ کا خواب تھی۔

Getty Imagesجب ذوالفقار علی بھٹو شملہ معاہدہ کرنے کے بعد لاہور ایئرپورٹ پر فاتحانہ اُترے تو انھوں نے اپنی جیکٹ طیارے کی سیڑھیوں سے ہی خیر مقدمی مجمع کی جانب اُچھال دی

امریکی سرمایہ کاری، سول نیوکلیئر تعاون، چین کو گھیرنے کے لیے علاقائی الائنس سسٹم، اسلحے کے سودے، امریکہ نواز خلیجی ممالک سے انڈیا کی سرمایہ کارانہ و سفارتی قربت اور نتیجے میں تیر رفتار اقتصادی ترقی۔

اس کے برعکس پاکستان کو آئی ایم ایف اور خلیجی ممالک کے رول اوور قرضے اور دودھ دینے والے اداروں میں تھوڑی بہت عرب سرمایہ کاری ہی مل سکی۔

چین پچھلے 65 برس سے پاکستان کے ساتھ ہے۔ اس نے بقول پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سی پیک جیسا ’گیم چینجر‘ دیا۔

چین نے اگرچہ تازہ ترین تنازع میں بھی پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا مگر اشرافیہ کو آج یہ سوچ سوچ کر زیادہ خوشی ہے کہ انکل ٹرمپ نے پاکستان انڈیا تنازعات اپنی نگرانی میں طے کروانے کا جو وچن دیا ہے شاید اس بار پورا ہو جائے۔

ثالثی کے شوقین ٹرمپ نے یوکرین اور روس کے درمیان بھی پڑنے کی کوشش کی اور مسئلے کا یہ حل تجویز کیاکہ اگر یوکرین اپنا 20 فیصد علاقہ روس کو دے دے تو یوکرین کے پاس پھر بھی بہت سی زمین رہے گی۔

امریکہ امن قائم کروانے کے عوض یوکرین کی معدنی دولت کا صرف 50 فیصد منافع بطور کنسلٹنسی فیس چارج کرے گا۔ یوکرین مرتا کیا نہ کرتا ان شرائط پر راضی تو ہو گیا مگر جنگ اب بھی جاری ہے اور ولادیمیر پوتن ٹرمپ سے اعصابی جنگ کے مسلسل مزے لے رہے ہیں۔

چنانچہ اب ٹرمپ صاحب بھی پوتن کو ’میرا دوست‘ کہنے کے بجائے کھری کھری سنا رہے ہیں۔ زیلنسکی کے ہاتھ امن بھی نہ آیا اور جو پلے ہے وہ بھی جا رہا ہے۔

ٹرمپ نے غزہ میں بھی جنگ بندی کروانے کے لیے مسئلے کا یہ حل پیش کیا کہ غزہ فلسطینیوں سے خالی ہو جائے تو نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اسرائیل اس خواہش کی پوری طرح عسکری تعمیل کر رہا ہے۔

ٹرمپ کی جیب عربوں کے ٹریلین ڈالرز تجارتی وعدوں سے تقریباً پھٹ رہی ہے اور فلسطینوں کے دیگر خیر خواہ ہاتھ مل رہے ہیں۔

اگر ٹرمپ واقعی کشمیر کے معاملے میں ثالثی پر سنجیدہ ہیں اور فرض کریں انڈیا بھی کسی نہ کسی طرح میز پر آ جاتا ہے اور ٹرمپ دونوں کا مقدمہ سن کے فیصلہ دیتے ہیں کہ اب تک جتنا کشمیر جس کے قبضے میں ہے اسے تسلیم کر لو یا گلگت بلتستان پاکستان رکھ لے کیونکہ وہاں سے شاہراہ ریشم گزرتی ہے اور باقی کشمیر انڈیا کو دے دیا جائے یا پورے کشمیر کو ایک غیر مسلح خود مختار ریاست بنا دیا جائے یا 25 برس کے لیے کشمیر امریکہ کو پٹے پر دے دو اور اس دوران آپس میں کسی نتیجے پر پہنچ جاؤ تو بتا دینا۔

کیا انڈیا یا پاکستان ان ممکنہ فارمولوں میں سے کوئی ایک تسلیم کر پائیں گے۔ مسترد کرنے کی صورت میں ٹرمپ کا غصہ جھیل لیں گے؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ٹرمپ کی دوستی یا دشمنی ریچھ کے جپھے جیسی ہے۔

لہذاٰ ثالثی کا سوچ سوچ کر خوش ضرور ہوتے رہیں مگر زیادہ سنجیدہ ہونے کی صورت میں ٹرمپ کا کچھ جائے نہ جائے آپ کا بہت کچھ جا سکتا ہے۔

’کیا ٹرمپ ہمارا ابا لگتا ہے؟‘جنگ ہم کریں اور چھڑوائیں دوسرےیہ ریاست ایسے تو دور تلک نہ چل پائے گیپاک انڈیا ’ورکنگ دشمنی‘ پر کسی کو اعتراض نہیںانڈیا کو طالبان مبارک
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More