اسلام آباد کی پراسرار خامشی کا اعتماد! اجمل جامی کا کالم

اردو نیوز  |  May 29, 2025

عجب شہر ہے، خامشی میں طلاطم اور طلاطم میں خامشی، مزاج اس بے وفا شہر کا چاہے جیسا بھی ہو ایک بات اس کی البتہ خاصی منفرد اور دلچسپ ہے اور وہ یہ کہ یہاں روزانہ صبح سے شام تک اور رات سے صبح تک سیاسی کہانیاں مسلسل جنم لیتی رہتی ہیں۔

ڈائننگ ٹیبل سے لے کر سٹڈی تک، بورڈ روم سے میٹنگ ہال تک، ایوانوں سے دیوانوں تک، دفتر سے گولف کورس تک، کلب سے جم تک، واکنگ ٹریک سے ہائیکنگ تک، مہکتی کافی کی خوشبو سے دہکتے انگاروں پر پکتے بار بی کیو تک، شاموں سے لے کر سفارتی مجالس تک، ہر پل ہر جا، جانکاری کے روپ میں خبر انگڑائی لے رہی ہوتی ہے۔

موقع شناس جانکاری والے ٹھکانوں میں جگہ پاتے ہیں، خبر کا الاپ دھیمے سروں پر چھیڑا جاتا ہے، محافل جوبن پر جاتے ہی، خبر اونچے سُروں میں بہتی ہے۔

کاریگر اپنی اپنی افتاد طبع کے حساب سے جانکاری اپنے جام میں انڈیلتے ہیں اور چل نکلتے ہیں۔ یہ سلسلہ سیزن در سیزن کرداروں کی تبدیلی کے باوجود چلتا رہتا ہے۔

چڑیا، کبوتر، موکل یا کوئی کھلاڑی، رسائی گر متعلقہ ترین کونے تک ہو جائے تو یہ چنداں درکار نہیں رہتے۔ بھٹکنے کی معذرت۔ یہ کہانی پھر سہی۔

فی الحال مست حال ایک درویش کی جانب آتے ہیں جن سے چند روز پہلے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، چنیدہ مدعے جن پر چرچا کے کارن جانکاری ملی کچھ یوں تھے؛

پاکستان نے جنگ بندی کے لیے امریکہ سے درخواست نہیں کی تھی، بھرپور جواب دینے تک فیصلہ ساز کسی قسم کی شانتی یا سیز فائر کی بات تک سننے کو تیار نہ تھے، ایک دوست بردار اسلامی ملک نے امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستانی جوابی وار کے بعد سیز فائر کا ماحول بنایا۔ ایک اہم وجہ اس ملک کی ہمارے ہمسائے میں بھاری سرمایہ کاری ہے۔

فیصلہ سازوں میں فیلڈ مارشل کے ہمراہ اہم ترین ایک ائیر چیف خود تھے، لگ بھگ بارہ چودہ دن گھر تک نہ گئے، دفتر کے پیچھے حجرہ بنا رکھا تھا جہاں چند لمحے یوں لیٹے کہ اونگھتے ہوئے بھی سامنے مانیٹرنگ پر نظر رہے۔

تمام تر فائٹرز کے ساتھ براہ راست مسلسل ربط میں رہے، دشمن روایتی طریقوں سے روایتی معلومات پر انحصار کیے بیٹھا رہا اور یہاں ائیر فورس میں جدید پیمانوں پر اس قدر نمو ہوچکی تھی کہ اہم اور حساس ترین آپریشنل کاروائی کا نقش مکمل طور پر بدل دیا گیا تھا۔

پہلگام واقعے کے بعد انڈیا نے پاکستان میں چند مقامات کو نشانہ بنایا۔ فوٹو: اے ایف پی

علم ہوا کہ جنگ ابھی ٹیکنالوجی کی ہے، جو ٹیکنالوجی استعمال ہو گئی، وہ ختم شد، معاملہ اب ہفتوں کا نہیں دنوں کا ہے، نئی تکینک نئی پلاننگ ہی کارگر ہوگی، اعتماد یہ تھا کہ ابھی مکمل جلوہ نہیں دکھایا، تقریباً آدھی زیارت سے ہی  دشمن کی باقاعدہ بوکھلاہٹ کا آغاز ہوگیا۔

وہاں اگر روس اور امریکی ایجادات پر مان تھا تو یہاں بھی مقامی کے ساتھ ساتھ ترکیہ اور چینی محبت شامل حال تھی۔ فرق البتہ یہ تھا کہ مشین چلانے والا کون ہے؟ اسی فرق نے پاک فضائیہ کو ممتاز کیا۔

کئی دوست ممالک کے دفاعی ذمہ دار اس ہمہ جہت اپروچ کے معترف رہے۔ بھارتی طیاروں کے مار گرائے جانے کا سکور چھ ہے۔ ثبوت اس بابت ایک اہم ترین ملک کے اہم سفارتکار بھی ہیں۔ جن کے ساتھ برپا ایک مجلس میں جب یہ استفسار کیا تو ان کا برملا جواب تھا کہ ان کے دارالحکومت کو چھ صفر کے سکور پر رتی برابر بھی شک نہیں رہا۔

وقت کے ساتھ ساتھ معلومات درست ثابت ہوتی جائیں گی۔ شاہینوں کے ایک اہم ذمہ دار سے باریک نکتہ سمجھنے کی کوشش کی تو انہوں نے ائیر ہیڈ کواٹر کی ایک راہدری پر رقم اقبال کا یہ شعر جواب میں سنا دیا۔  

جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی

مرے کلام پر حجت ہے نکتہ لولاک

باخبر درویش سے سیاسی منظر نامے پر استفسار کیا تو وہ ہنس دیے، توقف کے بعد ملال کے ساتھ بولے کہ اب صورتحال کچھ بدل سی گئی ہے، گراف اور گرفت دونوں مضبوط ہو چکے، اڈیالہ کا مکین اور اس کی جماعت چند اہم مواقعے کھو چکے، اب بساط نئے سرے سے بچھے گی، نئی گیم لگے گی لہذا وقت لگے گا۔

درویش کی بات ادھوری لگی تو یاداشت واپس ایک اہم سفارتی مجلس تک جا پہنچی، جنگ کے علاوہ دوسرا اہم مدعا سیاست ہی تھا۔

وہاں پائے جانے والے حلقوں کا اصرار تھا کہ امریکہ میں متعارف کروایا گیا پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ فی الحال نیم مردہ ہے اور اس میں روح پھونکے جانے کے دور دور تک امکانات نہیں ہیں۔

انڈیا نے پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

مزید جانکاری یہ ملی کہ موجود کمبی نیشن کے ساتھ معاملہ فہمی کے تناظر میں دنیا کی دو تین بڑی طاقتیں انتہائی کمفرٹیبل زون میں ہیں۔ ان طاقتور ممالک کو یہ کمفرٹ نواز دور میں ملی نہ کپتان دور میں، اب کے بار ان کے نزدیک یہ کمبی نیشن ان ممالک کو سوٹ کر تا ہے۔

درویش کا البتہ ماننا تھا کہ باہمی تعلقات ہوں یا لین دین کے معاملات، ترجیحات بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ یہ الگ بات کہ بندوبست پختہ ہے اور طویل دورانیہ کا معلوم ہوتا ہے۔

سفارتی آداب سے جی گھبرایا تو اگلے روز گالف کورس کا رخ کیا، ہلکی پھلکی چہل قدمی کے ہنگام پرانی گالف گیند ایک نیم کھائی میں گری دکھائی دی، اٹھاتے ہی گالف پلیئر سے استفسار کیا کہ نئے گالف کورس کے حساب سے کوئی نئے کھلاڑی بھی میدان میں اتارے جائیں گے یا نہیں؟

جواب میں ہم فقط اتنا ہی سن پائے کہ نئے کورس کی تشکیل میں ابھی ایک مرحلہ باقی ہے، اگست یا  اکتوبر سے پہلے پہلے وہ بھی طے پا جائے گا۔ جدید دنیا میں گالف کورس روایتی عہدوں کی بجائے سٹریٹیجک عہدوں سے زیادہ بہتر چلائے جاتے ہیں۔

کیانی دور میں اس مدعے پر غور ہوا تھا، اب شاید عمل بھی ہو۔ ہمسائے میں تجربہ ہوا تھا، غالباً زیادہ کامیاب نہ ہو سکا۔ ہمارے ہاں البتہ مفید اور مؤثر رہے گا۔

گالف کورس سے آگے گھنا جنگل تھا، یہاں  پہنچے تو معلوم ہوا کہ جرح کے لیے تین چار مزید اہم گواہ باقی ہیں، وگرنہ کورٹ مارشل کا عمل تقریباً مکمل ہے۔ اس بیچ کچھ اہم ثبوت ہاتھ لگے، کچھ لکھے ہوئے کاغذات کچھ کالز اور کچھ دیگر مواد۔

پراسس سے گزرنے والے صاحب کے اعصاب قدرے تھک چکے، طبیعت ناساز رہی۔ ایک دو بار ہسپتال کا چکر بھی لگا۔ اب اہل خانہ تک بھی رسائی ملی ہے۔ نانا بنے تو اہل خانہ سے بھی خوب ملاقات رہی۔  

واپسی کی راہ پکڑی تو ایک کلب میں جم سے فراغت پا کر بیٹھی ہستی نے یاد کر لیا، امریکہ سے آئے پاکستانی ڈاکٹرز اور تاجروں کے کسی حد تک میزبان بھی قرار دیے جا سکتے ہیں۔

اعتراف کیا کہ تاحال اس وفد کی ادھر یا ادھر، کہیں بھی اہم یا معنی خیز ملاقات نہیں ہوسکی۔ پس پردہ مذاکراتی کاوشوں پر فرمانے لگے کہ سواتی ہوں یا گنڈا پور، سیف ہوں یا یہ اس وفد کے شاہکار، روابط کا وہ تسلسل اب نہیں رہا۔

ربط میں جان نہیں رہی۔ نئے سرے سے نئے گراؤنڈز کے ساتھ کوشش درکار ہوگی۔ مقبولیت قائم ہے، ترجیحات کا تعین اور گیم پلان بدلنا ہوگا۔ فی الحال معاملہ ڈیڈ اینڈ پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ محترمہ علیمہ خان کو زور دے کر کہنا پڑا کہ بتایا جائے آپ چاہتے کیا ہیں؟ اسی اثنا میں کال آئی، حکم تھا کہ واپسی پر آدھا کلو دہی، درجن انڈے اور بغیر دھاگے والے گول  ٹی بیگز لازماً خریدتا لاؤں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More