یہ فیراری کی تاریخ کا ایک علامتی ماڈل ہے، فیراری اینزو، جسے گاڑیوں کی دنیا میں افسانوی، نایاب اور انتہائی قیمتی سپر کار مانا جاتا ہے۔ 2002 سے 2004 کے درمیان اطالوی شہر مارانیلو میں تیار کی گئی اس گاڑی کی قیمت 40 لاکھ یورو سے بھی زائد لگائی جاتی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر یہ کار 2011 میں دبئی ایئرپورٹ کی پارکنگ میں لاوارث کھڑی ملی۔
ریگستان میں بھولی ہوئی ایک لیجنڈری کار
فیراری اینزو کو بانی اینزو فیراری کے اعزاز میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ 6.0 لیٹر نیچرلی اسپائریٹڈ V12 انجن سے لیس ہے، جو 650 ہارس پاور اور 657 نیوٹن میٹر ٹارک پیدا کرتا ہے۔ چھ اسپیڈ روبوٹک گیئر باکس اور محض 1,365 کلوگرام وزن کے ساتھ، یہ گاڑی 0 سے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ تک صرف 3.7 سیکنڈز میں پہنچ جاتی ہے۔ اس کی رفتار کی انتہا 350 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔
لیکن یہ سرخ اینزو، جو اب ایک افسانوی کہانی بن چکی ہے، 2011 میں دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی پارکنگ میں ایک برطانوی شہری جاوید محمد کی جانب سے چھوڑ دی گئی تھی۔ ان پر برطانیہ میں 250 ملین پاؤنڈ کی وی اے ٹی فراڈ کا الزام تھا۔ پارکنگ فیس کے 20 مہینے کے بقایاجات کے بعد، گاڑی مقامی حکام نے ضبط کرلی۔
عدالت کی پیچیدگیاں اور گاڑی کی قید
دبئی میں عام طور پر جب کوئی لگژری گاڑی لاوارث ملتی ہے تو اسے جلد ہی نیلامی میں بیچ دیا جاتا ہے، مگر فیراری اینزو کے معاملے میں ایسا نہ ہو سکا۔ انٹرپول نے اس گاڑی کی خریداری کے لیے استعمال ہونے والے پیسے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا، جس کی وجہ سے یہ کار ایک طویل عدالتی کارروائی کا حصہ بن گئی۔ اسے نہ فروخت کیا جا سکا، نہ ہی عوامی طور پر نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔
القصیص پولیس کے ڈپو میں رکھی گئی یہ قیمتی کار دبئی کے سخت موسم کا شکار ہوتی رہی۔ دھول، ریت، شدید گرمی، سب کچھ اس پر اثر انداز ہوتے رہے۔ سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آئیں جن میں اس کی بگڑی ہوئی حالت صاف دیکھی جا سکتی ہے۔
خاموشی سے فروخت... لیکن خریدار کون؟
2024 اور 2025 میں ایک بار پھر اس کہانی نے توجہ حاصل کی جب پولیس کی جانب سے ضبط کی گئی مہنگی ترین گاڑیوں کی نیلامی کی خبر سامنے آئی۔ کئی میڈیا اداروں نے اسے دبئی کی عدالتی تاریخ کی مہنگی ترین فروخت قرار دیا۔ اس نیلامی میں فیراری اینزو کے ساتھ ساتھ پورشے، میک لارن، لیمبورگینی، رولز رائس اور دیگر قیمتی ماڈلز بھی شامل تھے۔
تاہم نہ تو اس کار کی قیمت سرکاری طور پر ظاہر کی گئی، اور نہ ہی خریدار کی شناخت سامنے آئی۔
بحالی یا فنا؟
بعد ازاں فیراری اینزو کو کسی ہینگر میں منتقل کر کے محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ریت ہر جگہ داخل ہو چکی تھی۔ یہ اب تک واضح نہیں ہو سکا کہ گاڑی کو مکمل طور پر بحال کیا جا سکے گا یا نہیں۔
ممکن ہے یہ کار ایک دن دوبارہ سڑکوں پر دھاڑتی نظر آئے، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کبھی نہ جاگ سکے اور صرف ایک بوسیدہ یادگار بن کر رہ جائے، ایک ایسا فن پارہ جو وقت کے ساتھ مٹی ہو گیا۔