Getty Images
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2025 میں حیرت انگیز طور پر امریکہ کے سابق صدور کی جانب سے دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنے کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
انھوں نے سابقہ امریکی صدور کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'بالآخر، نام نہاد ’نیشن بلڈرز‘ (قوموں کے معمار) نے اس سے کہیں زیادہ ممالک تباہ کیے جتنے انھوں نے تعمیر کیے۔‘
یہ بیان واضح طور پر سنہ 2003 میں امریکہ کی جانب سے عراق پر کیے گئے متنازع حملے کی طرف اشارہ تھا۔
دنیا بھر سے تازہ ترین خبریں اب آپ کے واٹس ایپ پر! بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں
انھوں نے مزید کہا ’مداخلت پسندوں نے ایسے پیچیدہ معاشروں میں مداخلت کی جنھیں وہ سمجھتے تک نہ تھے۔‘
یہ باتیں انھوں نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے دورے کے دوران کہیں جس کے بعد بعض تجزیہ کاروں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کم از کم ٹرمپ کے موجودہ دور حکومت میں مشرق وسطیٰ میں امریکی مداخلت کا سلسلہ قصہ پارینہ بن جائے گا۔
لیکن اپنے اس تیز و تند بیان کے صرف ایک ہی ماہ کے بعد تجزیہ کاروں کے یہ سب نتیجے غلط ثابت ہوئے۔
21 جون کو امریکہ نے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں واشنگٹن مشرق وسطیٰ کے تازہ ترین تنازعے میں شامل ہو گیا۔ یہ تازہ ترین تنازع تقریباً دو ہفتوں سے ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تھا اور دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔
اس حملے کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل نے ایران کے جوہری خوابوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی۔
ٹرمپ نے حملے کے فوراً بعد کہا کہ ’ہمارا مقصد ایران کی یورینیم افزودگی کی صلاحیت کو تباہ کرنا اور دنیا میں دہشت گردی کے سب سے بڑے سرپرست ملک کی جانب سے دنیا کو درپیش جوہری خطرے کو روکنا تھا۔‘
لیکن تاریخ یہ ہی ظاہر کرتی ہے کہ مغرب نے جب بھی مشرق وسطیٰ میں کسی مسئلے یا تنازع کو ’حل‘ کرنے کی غرض سے مداخلت کی ہے تو معاملات ہمیشہ منصوبے کے مطابق نہیں ہوئے ہیں۔
لندن سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس میں مشرق وسطیٰ کی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر اور مصنف فواز جرجیس کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی مداخلت 1940 کی دہائی کے آخر سے مسلسل رہی ہے۔
’واٹ ریئلی وینٹ رانگ: دی ویسٹ اینڈ دی فیلیور آف ڈیموکریسی ان مڈل ایسٹ‘ نامی کتاب کے مصنف فواز جرجیس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایران کے خلاف حالیہ امریکی فضائی حملے اسی پالیسی کے تسلسل کی ایک اور واضح مثال ہیں۔‘
اس مضمون میں ہم مشرق وسطیٰ میں امریکی مداخلت کی چار تاریخی مثالوں اور اُن کے نتائج کا جائزہ لیں گے۔
Getty Imagesامریکی صدر جمی کارٹر نے سنہ 1977 میں شاہ ایران کا وائٹ ہاؤس میں استقبال کیاایران میں بغاوت (1953)
سنہ 1953 میں ایران کے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم محمد مصدق کو ایرانی فوج کی قیادت میں ایک بغاوت کے ذریعے معزول کر دیا گیا۔ اس وقت کی ایرانی فوجی قیادت کو امریکہ اور برطانیہ کی حمایت حاصل تھی۔
مصدق دو سال قبل اقتدار میں آئے تھے اور انھوں نے ایران کے وسیع تیل کے ذخائر کو قومیانے کا وعدہ کیا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ ممکنہ کمیونسٹ خطرہ لندن اور واشنگٹن کے لیے تشویش کا باعث تھا کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد مغربی معیشتیں بہت حد تک ایرانی تیل پر منحصر تھیں۔
بغاوت کو شروع میں شاہ محمد رضا پہلوی کے حق میں ایک عوامی تحریک کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن دراصل اس کے پیچھے برطانوی اور امریکی خفیہ ادارے سرگرم تھے۔
سنہ 2000 میں اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ میڈلین آلبرائٹ نے ایران میں امریکہ کے کردار کو کھلے الفاظ میں تسلیم کیا۔ کئی سال بعد سنہ 2009 میں اُس وقت کے صدر براک اوباما نے بھی قاہرہ میں ایک تقریر کے دوران اس فوجی بغاوت میں واشنگٹن کے کردار کا اعتراف کیا۔
سنہ 2013 میں بغاوت کے 60 سال مکمل ہونے پر امریکی خفیہ ادارے ’سی آئی اے‘ نے ایسی دستاویزات جاری کیں جن میں پہلی بار اُس نے ان کارروائیوں میں اپنے کردار کا اعتراف کیا۔
نیشنل سکیورٹی کے آرکائیو سے جاری دستاویزات میں سے ایک اقتباس میں کہا گیا کہ ’فوجی بغاوت۔۔۔ سی آئی اے کی نگرانی میں امریکی خارجہ پالیسی کے اقدام کے طور پر کی گئی تھی۔‘
فواز جرجیس کا کہنا ہے کہ آج ایران اور امریکہ کے درمیان جو کشیدگی ہے، اس کی جڑیں اسی خفیہ امریکی مداخلت میں موجود ہیں۔
وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ایرانی عوام نے کبھی بھی امریکہ کو معاف نہیں کیا کہ اس نے ایک جائز، جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم کو معزول کیا اور ایک ظالم ڈکٹیٹر (شاہ ایران) کو ملک کا مطلق العنان حکمران بنا دیا۔‘
’ایران میں آج جو امریکہ مخالف جذبات ہیں وہ اس سیاسی اشرافیہ کی وجہ سے ہیں جو امریکہ کو ایرانی سیاست کی سمت بدلنے کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔‘
فواز جرجیس مزید بتاتے ہیں کہ اسی طرح امریکہ نے مصر میں جمال عبدالناصر کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے اور ان کے قوم پرست منصوبے کو روکنے کی کوشش بھی کی تھی، لیکن اس میں امریکہ کو زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔
افغانستان میں مجاہدین کو امریکی حمایت
سنہ 1979 میں افغانستان میں بغاوت کے ایک سال بعد سویت فوج نے کمیونسٹ حکومت کی حمایت میں افغانستان پر حملہ کر دیا۔ ان کے خلاف مجاہدین نے ایک اسلامی مزاحمتی تحریک کے تحت جنگ شروع کی۔
یہ گروہ کمیونسٹ حکومت کا مخالف اور مسلم جہادی انتہا پسندوں پر مشتمل تھا اور اسے امریکہ، پاکستان، چین اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کی حمایت حاصل تھی۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ ان ممالک میں شامل تھا جنھوں نے مجاہدین کو سب سے زیادہ ہتھیار اور مالی امداد فراہم کی تاکہ سویت یونین کے مقاصد کو ناکام بنایا جا سکے۔
یہ سب کچھ سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دینے کی غرض سے کیا جا رہا تھا۔
واشنگٹن نے اسے ایک سٹریٹجک موقع کے طور پر دیکھا تاکہ سویت اثر و رسوخ کو مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا تک پھیلنے سے محدود کیا جا سکے۔
ڈیکلاسیفائڈ دستاویزات، صحافتی تحقیقات، اور برسوں بعد سامنے آنے والی گواہیوں کے مطابق، امریکہ نے سویت یونین کو افغانستان میں ایک ایسی دلدل میں پھنسانے کی کوشش کی جو جانوں اور وسائل کے لحاظ سے ویسے ہی نقصاندہ تھا جیسا کہ خود امریکہ کو ویت نام کی جنگ میں برداشت کرنا پڑا تھا۔
اس مشن کو ’آپریشن سائیکلون‘ کا نام دیا گیا اور معاصر میڈیا نے اسے سی آئی اے کی تاریخ کی ’سب سے بڑی خفیہ کارروائی‘ قرار دیا۔
یہاں تک کہ اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے جہادی رہنماؤں کے ایک وفد کو وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں خوش آمدید کہا۔
ستمبر 1988 میں نو سالہ مداخلت کے بعد سویت وزیر اعظم میخائل گورباچوف نے افغانستان سے سویت افواج کے انخلا کا حکم دیا۔
لیکن اس کے بعد افغانستان مختلف دھڑوں اور ایک ایسی حکومت کے درمیان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا جو سویت یونین کی حمایت کے بغیر زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔
Getty Imagesافغانستان پر سوویت حملہ سب سے خونریز تھا
یہ جنگ شدت اختیار کرتی گئی یہاں تک کہ سنہ 1994 میں طالبان جنوبی شہر قندھار میں اُبھرے اور جلد ہی انھوں نے خود کو ایک ایسی جماعت کے طور پر پیش کر کے مقبولیت حاصل کر لی جن کی صفوں میں پشتون نسل کے نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔
ان میں سے بہت سے رہنما وہ تھے جنھوں نے سویت قبضے کے خلاف مجاہدین کی تحریک میں حصہ لیا تھا، اور انھیں امریکہ سمیت دیگر ممالک سے اسلحہ اور امداد ملی تھی۔
سنہ 1996 میں طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا اور ایک ایسا بنیاد پرست اسلامی نظام نافذ کیا جو جلد ہی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر مذمت کا نشانہ بننے لگا۔
انھوں نے شریعت کے سخت ترین تشریح کے مطابق سزائیں متعارف کروائیں یا ان کی حمایت کی۔
اس کے تحت قاتلوں اور زانیوں کو سرعام سزائے موت دی جاتی، چوروں کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے، مردوں کے لیے داڑھی رکھنا لازم قرار دیا گیا جبکہ عورتوں کو سر سے پاؤں تک برقع پہننے کا حکم دیا گیا۔
اس کے علاوہ انھوں نے ٹی وی، موسیقی، فلمیں اور 10 سال سے بڑی عمر کی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی۔
اسی طرح سویت، افغان جنگ کے بعد کچھ سابق مجاہدین نے القاعدہ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا مقصد اسلامی جدوجہد کو افغانستان سے باہر پھیلانا تھا۔
طالبان نے اس تنظیم اور اس کے رہنما اسامہ بن لادن کو پناہ دی، جہاں سے وہ اپنی کارروائیاں کیں اور 11 ستمبر 2001 جیسے حملوں کی منصوبہ بندی کی۔
مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ چھڑ جانے کے کتنے امکانات ہیں؟امریکہ، چین اور روس جیسی عالمی طاقتیں جنگ کے دہانے پر کھڑے مشرقِ وسطیٰ میں لڑائی رکوانے میں ناکام کیوں؟پینٹاگون نے جوہری تنصیبات پر حملے سے پہلے کیسے ’ٹاپ سیکرٹ‘ پروازوں کے ذریعے دنیا کی نظریں ایران سے ہٹا کر ایک جزیرے پر مرکوز کروا دیںافزودہ یورینیئم کہاں گئی؟ ایران اسرائیل جنگ بندی کے باوجود وہ سوال جو امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے اب بھی موجود ہیںسرد جنگ سے موجودہ دور تک توازن کی کوششیں
یونیورسٹی آف الاباما کے شعبۂ سیاسیات میں مشرق وسطیٰ کے امور کے پروفیسر ولید حزبون کا کہنا ہے کہ سرد جنگ کے دوران امریکہ کی بیشتر مداخلتوں کو ’توازن پیدا کرنے کی کوششیں‘ کہا جا سکتا ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ کوششیں اُن تمام سیاسی قوتوں کے خلاف کی جاتیں جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کے خلاف تھیں۔‘
لبنانی ماہرِ سیاسیات کے مطابق خلیجی جنگ (1990-1991) میں امریکہ کی قیادت میں کی جانے والی مداخلت بھی اس کی ایک مثال ہے۔
’یہ عراق کے کویت پر حملے کا توڑ کرنے کی ایک کوشش تھی۔ کویت کی خودمختاری بحال ہوئی، اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی پالیسی سازوں اور خطے کے رہنماؤں کے درمیان باہمی سکیورٹی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بات چیت شروع ہوئی۔‘
تاہم، ولید حزبون کا ماننا ہے کہ سابق صدر بل کلنٹن کے دورِ حکومت میں امریکہ نے ایک مختلف حکمتِ عملی اپنائی۔
ان کے مطابق: ’اس حکمتِ عملی کا مقصد ایک ایسا سکیورٹی ڈھانچہ ترتیب دینا تھا جو امریکہ کے مفادات اور خطے سے متعلق اس کے وژن کو سہارا دے۔‘
’اس میں ایک طرف قیام امن کے عمل اور عرب، اسرائیل تعلقات کی بحالی پر زور دیا گیا تاکہ تمام عرب ممالک امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ صف آرا ہو سکیں، اور دوسری طرف ایران اور عراق کو فوجی اقدامات اور اقتصادی پابندیوں کے ذریعے محدود رکھنے کی کوشش کی گئی جسے ’ڈبل کنٹینمنٹ‘ (دو رخی روک تھام) کی پالیسی کہا جاتا ہے۔‘
بعض اوقات امریکہ کی مداخلت اسرائیل کی حمایت کے ساتھ وابستہ رہی جسے امریکی قیادت ’غیر مشروط اور غیر متزلزل‘ قرار دیتی آئی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اسرائیل کو غیر ملکی امداد میں سب سے زیادہ امریکہ کی جانب سے حصہ ملا ہے، اور ہر سال اربوں ڈالر کی فوجی امداد دی جاتی رہی ہے۔
امریکی محکمہ دفاع اور محکمہ خارجہ کے مطابق سنہ 1951 سے 2022 تک، افراطِ زر کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد کا مجموعی تخمینہ 225.2 ارب ڈالر ہے۔
Getty Imagesافغانستان میں تقریبا 3500 غیر ملکی فوجی ہلاک ہوئے جن میں سے دو تہائی فوجی امریکی تھےافغانستان پر حملہ (2001)
اکتوبر 2001 میں امریکہ نے افغانستان پر ایک نیا حملہ کیا تاکہ طالبان کو حکومت سے بے دخل کیا جا سکے۔
حملے کے بعد امریکہ نے وعدہ کیا کہ وہ جمہوریت کی حمایت کرے گا اور القاعدہ سے لاحق دہشت گردی کے خطرے کو ختم کرے گا۔ یہ سب 11 ستمبر کے حملوں کے بعد کیا گیا۔
امریکی افواج نے جلد ہی افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا اور طالبان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
تین سال بعد ایک نئی افغان حکومت نے اقتدار سنبھالا لیکن طالبان کے خونریز حملے پھر بھی جاری رہے۔
سنہ 2009 میں اُس وقت کے صدر براک اوباما نے مزید امریکی فوج بھیجنے کا اعلان کیا، جس سے کچھ وقت کے لیے طالبان کو پیچھے دھکیلنے میں مدد ملی لیکن یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکا۔
سنہ 2014 افغانستان میں جنگ کا سب سے خونریز سال ثابت ہوا۔ اسی دوران نیٹو افواج نے اپنی ذمہ داری ختم کی اور افغان فوج کو افغانستان کی سکیورٹی سونپ دی۔
اس کے بعد طالبان نے مزید علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔
اس کے اگلے سال طالبان نے خودکش حملے تیز کر دیے۔ انھوں نے کابل کی پارلیمنٹ اور بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔
بالآخر اپریل 2021 میں جو بائیڈن کی حکومت نے افغانستان سے امریکی فوجیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ امریکی حملے کے 20 سال بعد کیا گیا۔
یہ فیصلہ بہت متنازع ثابت ہوا کیونکہ کابل بہت تیزی سے طالبان کے قبضے میں چلا گیا۔
کابل کے اس اچانک سقوط کا موازنہ جنوبی ویتنام کی جنگ سے کیا جانے لگا۔
کانگریس کے ریپبلکن رکن ایلزے سٹیفینک نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’یہ جو بائیڈن کا سایگون ہے، ایک ایسی عالمی ناکامی جو کبھی نہیں بھلائی جا سکے گی۔‘
ایک سابق افغان اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ امریکی انخلا کے نتیجے میں طالبان نے 2021 میں اقتدار میں واپسی کی اور اس نے تقریباً 10 لاکھ ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان پر قبضہ کر لیا، جن کی مالی معاونت زیادہ تر امریکہ نے کی تھی۔
سنہ 2023 کی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ طالبان نے مقامی کمانڈروں کو ضبط شدہ امریکی ہتھیاروں کا 20 فیصد رکھنے کی اجازت دی جس کے نتیجے میں ہتھیاروں کی بلیک مارکیٹ کو فروغ ملا۔
طالبان نے حالیہ دنوں میں 90 ہزار کیمروں کا ایک نگرانی کا نظام قائم کیا ہے، جس سے لاکھوں شہریوں کی روزمرہ کی زندگی پر نظر رکھی جا رہی ہے۔
طالبان حکام کا کہنا ہے کہ یہ نگرانی جرائم روکنے کے لیے ہے۔ لیکن ناقدین کو خدشہ ہے کہ اس کا مقصد اختلاف رائے کو دبانا اور سخت مذہبی قوانین کو نافذ کرنا ہے۔
Getty Imagesاپریل 2003 میں عراق کے دارالحکومت بغداد کے قریب تعینات ہونے والے فوجیعراق پر حملہ (2003)
عراق پر سنہ 2003 میں ہونے والے حملے کی کہانی اگست 1990 سے شروع ہوتی ہے، جب اُس وقت کے صدر صدام حسین کی قیادت میں عراقی فوج نے کویت کی سرحد عبور کی اور مزاحمت کرنے والے سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا اور کویتی حکومت کو سعودی عرب میں جلاوطنی پر مجبور کر دیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صدام حسین کی سب سے بڑی غلطیوں میں سے ایک تھی۔
بہت سے لوگوں کے لیے یہ واقعہ مشرق وسطیٰ کی تاریخ کے ایک طویل اور پرآشوب دور کا آغاز تھا۔
متعدد انتباہات اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کے بعد امریکہ کی قیادت میں سعودی عرب اور برطانیہ کی بنیادی حمایت کے ساتھ 17 جنوری 1991 کو کویت سے عراقی افواج کو نکالنے کے لیے مہم کا آغاز کیا گیا۔
اس کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 687 منظور کی جس میں عراق سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے تمام وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (وائی ایم ڈی) کو تباہ کرے۔ وائی ایم ڈی کی اصطلاح میں جوہری، حیاتیاتی، اور کیمیائی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل بھی شامل تھے۔
سنہ 1998 میں عراق نے اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے معائنہ کاروں کے ساتھ تعاون معطل کر دیا اور جب امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگون پر حملے ہوئے تو اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق پر حملے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔
بش نے صدام حسین پر الزام لگایا کہ وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو جمع کرنے اور بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور دعویٰ کیا کہ ایران اور شمالی کوریا کے ساتھ عراق ایک بین الاقوامی ’شیطانی محور‘ کا حصہ ہے۔
سنہ 2003 میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ عراق کے پاس حیاتیاتی ہتھیار بنانے کی ’موبائل لیباٹریاں‘ ہیں۔
لیکن 2004 میں انھوں نے تسلیم کیا کہ انھیں ان شواہد کی ’مضبوطی پر شبہ ہے۔‘
برطانیہ، آسٹریلیا، اور پولینڈ نے اس حملے میں حصہ لیا، لیکن جرمنی، کینیڈا، فرانس، اور میکسیکو سمیت کئی ممالک نے اس کی مخالفت کی۔
اس وقت کے فرانسیسی وزیر خارجہ ڈومینیک ڈی ویلپین نے کہا کہ فوجی مداخلت ’بدترین ممکنہ حل‘ ہو گی، جبکہ ترکی، جو نیٹو کا رُکن اور عراق کا ہمسایہ ملک ہے اس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنے فضائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
الاباما یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں مشرق وسطیٰ کے امور کے پروفیسر ولید حزبون نے بی بی سی کو بتایا کہ عراق پر حملے کے ذریعے امریکہ ایک نئی حکومت لانا چاہتا تھا اور یوں علاقے میں اپنی مرضی کی سکیورٹی پالیسی نافذ کرنا چاہتا تھا۔
بی بی سی کے بین الاقوامی ایڈیٹر اور مشرق وسطیٰ کے ماہر جیریمی بوون کے مطابق یہ حملہ عراق اور اس کے عوام کے لیے ایک تباہی ثابت ہوا، جس نے ملک کو دہائیوں کے لیے افراتفری کی صورتحال میں دھکیل دیا۔
انھوں نے 2023 میں اس حملے کی 20ویں برسی کے موقع پر شائع ایک تجزیے میں کہا: ’اسامہ بن لادن اور جہادی انتہا پسندی کے نظریے کو ختم کرنے کے بجائے، 2003 میں بھڑک اٹھنے والے تشدد اور افراتفری نے جہادی تشدد کو اور زیادہ شدید کر دیا۔‘
حملے کا ایک اور نتیجہ یہ تھا کہ القاعدہ، جو ایک وقت امریکیوں اور سنی قبائل کے اتحاد سے کمزور ہو چکی تھی، دوبارہ منظم ہوئی اور ایک اور زیادہ خونریز تنظیم 'اسلامی ریاست' کے طور پر ابھری۔
کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ 2003 کے حملے کے نتیجے میں کتنے عراقی ہلاک ہوئے۔
اس حملے کے بعد عام شہریوں کی ہلاکتوں کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے عراق باڈی کاؤنٹ پروجیکٹ کے مطابق 2003 سے 2022 کے درمیان 2 لاکھ 9 ہزار 982 عراقی شہری مارے جا چکے ہیں۔
ولید حزبون کا کہنا ہے کہ اس علاقے کی سمت بدلنے کے لیے امریکہ کو چاہیے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان سکیورٹی کو فروغ دینے کی علاقائی کوششوں کی حمایت کرے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’امریکہ کے عالمی مفادات شاید اس صورت میں بہتر طور پر پورے ہو سکیں گے جب یہ خطہ اپنی علاقائی سلامتی کے بارے میں باہمی مفاہمت کی طرف بڑھے نہ کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی زبردست فوجی طاقت کے ذریعے وہاں کوئی نیا علاقائی نظام مسلط کیا جائے۔‘
افزودہ یورینیئم کہاں گئی؟ ایران اسرائیل جنگ بندی کے باوجود وہ سوال جو امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے اب بھی موجود ہیںمشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ چھڑ جانے کے کتنے امکانات ہیں؟دیرینہ شراکت سے ازلی دشمنی تک: جب ایرانی اور اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں ’ساواک اور موساد‘ مل کر کام کرتی تھیں متنازع نقشے پر سعودی عرب، فلسطین اور عرب لیگ کی مذمت: ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ یا کوئی ٹھوس منصوبہامریکہ، چین اور روس جیسی عالمی طاقتیں جنگ کے دہانے پر کھڑے مشرقِ وسطیٰ میں لڑائی رکوانے میں ناکام کیوں؟افغانستان میں رہ جانے والے امریکی ہتھیار جو ’القاعدہ سے وابستہ گروہوں نے بلیک مارکیٹ سے خریدے‘