راضی نامہ، دس ہزار روپے اور معافی: کچلاک میں کمسن طالبعلم کی پٹائی پر پرنسپل کا قتل

بی بی سی اردو  |  Jul 08, 2025

کراچی کے رہائشی سکندر خان دو ماہ قبل ہی بلوچستان کے شہر کوئٹہ کے قریب کچلاک میں واقع ایک نجی سکول میں بطور پرنسپل تعینات ہوئے تھے۔

ان کے بہنوئی محمد تنویر کے مطابق اس سے قبل سکندر بلوچستان میں ہی 20 سال سے موسی خیل اور ہرنائی سمیت دیگر علاقوں میں درس و تدریس سے منسلک تھے۔

تاہم چند دن قبل ان کے سکول میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا نتیجہ پولیس کے مطابق ان کے قتل کی شکل میں نکلا۔

کچلاک پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او محمد اجمل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پہلی جماعت کے ایک طالب علم محمد کو کلاس میں مبینہ طور پر شور کرنے پر سکندر خان نے تھپڑ مارنے کے علاوہ ان کو پیٹا بھی تھا جس کے تین دن بعد انھیں قتل کر دیا گیا۔‘

بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔

پولیس حکام کے مطابق پرنسپل کے قتل کے الزام میں مذکورہ بچے کے ماموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور قتل کا مقدمہ کچلاک پولیس سٹیشن میں درج کیا گیا لیکن مقدمے کی سنگینی کے باعث اسے ’سیریس کرائمز انویسٹیگیشن ونگ‘ (ایس سی آئی ڈبلیو) کے حوالے کیا جا چکا ہے۔

ایس سی آئی ڈبلیو کے انویسٹیگیشن شعبے کے سربراہ ایس ایس پی سید صبور آغا نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم سے آلہ قتل بازیاب کرنے کے بعد عدالت سے سات روز کا ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔

راضی نامہ اور معافی

کچلاک پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او محمد اجمل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’نجی سکول میں پہلی جماعت کے طالب علم کو کلاس میں شور کرنے پر تھپڑ مارنے کا واقعہ دو جون کو پیش آیا تھا۔‘

یہ معاملہ پولیس تک جا پہنچا اور کچلاک پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او محمد اجمل کے مطابق ’پرنسپل کے قتل سے ایک روز پہلے بچے کے والد سے ان کا راضی نامہ بھی ہوا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دونوں کے درمیان راضی نامہ کچلاک پولیس سٹیشن میں ہی طے پایا تھا۔

ایس سی آئی ڈبلیو کے تفتیشی ونگ کے سربراہ صبور آغا نے بتایا کہ ’راضی نامے کے لیے پرنسپل نے بچے کے والد کو دس ہزار روپے کی ادائیگی بھی کی تھی۔‘

کچلاک کے ایس ایچ او محمد اجمل کہتے ہیں کہ ’بچے کے والد نے پرنسپل کو معاف کر دیا اور راضی نامے کے بعد کہا کہ اب وہ کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کریں گے۔‘

Getty Imagesکچلاک پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او محمد اجمل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پہلی جماعت کے ایک طالب علم محمد کو کلاس میں مبینہ طور پر شور کرنے پر سکندر خان نے تھپڑ مارنے کے علاوہ ان کو پیٹا بھی تھا جس کے تین دن بعد انھیں قتل کر دیا گیا‘قتل کیوں ہوا؟

ایس ایچ او محمد اجمل کا دعوی ہے کہ راضی نامے کے باوجود بچے کے ماموں کے دل میں رنج باقی تھا۔

سکندر خان کے قتل کی ایف آئی آر کچلاک پولیس اسٹیشن میں پولیس ہی کے سب انسپکٹر سہیل ندیم کی مدعیت میں درج کی گئیجس کے مطابق پانچ جولائی کو وہ کچلاک میں کلی آٹوزئی روڈ پر گشت کر رہے تھے جب انھیں اطلاع ملی کہ نجی اسکول کے پرنسپل سکندر خان کو کسی نے چھری مار کر قتل کر دیا ہے۔

والد کی اٹلی سے پاکستان واپسی اور گھر میں ’ڈکیتی‘: گوجرانوالہ میں دو بہنوں کے پُراسرار قتل پر والدین کی گرفتاریکوئٹہ میں دو بھائیوں کا قتل: ’ملزم نے لاشوں کے ٹکڑے کیے اور گڑھا کھود کر انھیں گھر میں ہی دفن کر دیا‘ایبٹ آباد میں خواجہ سرا کا قتل: ’شادی کی تقریب کے دوران نوجوان نے گولیاں چلائیں‘حافظ آباد میں شوہر کے سامنے خاتون کا مبینہ گینگ ریپ: ’گرفتار ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا‘

ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’جب سب انسپکٹر سہیل ندیم نجی سکول کے قریب پہنچے تو باہر گلی میں ایک شخص کی نعش خون میں لت پت پڑی تھی اور مقتول کے سر، سینے، پیٹ اور بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر زخم کے نشان تھے۔‘

کچلاک پولیس کے ایس ایچ او نے بتایا کہ ’قتل کا یہ واقعہ سنگین نوعیت کے کیسز کے زمرے میں آتا ہے اس لیے اسے ایس سی آئی ڈبلیو کے حوالے کردیا گیا ہے۔‘

ایس سی آئی ڈبلیو کے تفتیشی ونگ کے سربراہ صبور آغا نے بتایا کہ ’ملزم نے قتل کے لیے جو آلہ استعمال کیا تھا وہ برآمد کر لیا گیا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’ملزم کو متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرکے 7 روزہ ریمانڈ حاصل کیا گیا اور واقعے کی مختلف پہلووں سے تحقیقات جاری ہیں۔‘

’ہماری بھرپور کوشش ہو گی کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تحقیقات ہر طرح سے مکمل ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’تفتیش مکمل ہونے کے بعد مقدمے کا چالان متعلقہ عدالت میں جمع کیا جائے گا۔‘

قتل کیے جانے والے پرنسپل کون تھے؟

کچلاک میں قتل ہونے والے نجی سکول پرنسپل سکندر خان کا تعلق کراچی سے تھا۔ بی بی سی کو دستیاب معلومات کے مطابق کراچی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے درس و تدریس کا پیشہ اپنایا اور بلوچستان چلے آئے۔

ان کے بہنوئی کے مطابق ’سکندر خان شادی شدہ تھے اور ان کے دو بچوں میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں جن کی عمریں7 سے 10 سال کے درمیان ہیں۔‘

محمد تنویر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’سکندر بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقے موسیٰ خیل، ہرنائی اور دیگر علاقوں میں بھی پڑھاتے رہے۔‘

دو ماہ قبل ہی انھوں نے کوئٹہ شہر سے اندازاً 25کلومیٹر دور کچلاک میں ایک نجی پرائمری اسکول میں ملازمت اختیار کی جبکہ اس سے پہلے وہ کوئٹہ میں پڑھا رہے تھے۔

محمد تنویر نے بتایا کہ ’سکندر کی اہلیہ اور بچے انھیں کہتے رہتے تھے کہ وہ کراچی واپس آ جائیں۔ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ان کو ایک معمولی بات پر اس بیدردی کے ساتھ قتل کر دیا جائے گا تو ہم ان کو کبھی بھی وہاں جانے نہیں دیتے۔‘

سکندر خان کے ساتھ کام کرنے والے ایک استاد نے بی بی سی سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’سکندر ایک محنتی اور تجربہ کار ٹیچر تھے اور اسی لیے سکول پرنسپل کا عہدہ ان کو دیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سکول کے مالک سکندر کو شراکت داری کی بھی پیشکش کی تھی اور سکندر نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو کراچی سے یہاں منتقل کریں گے۔‘

’لیکن ان کی ناگہانی موت نے انھیں اس کا موقع ہی نہیں دیا۔‘

درایں اثنا آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن بلوچستان کے صدر نذر بڑیچ اور دیگر عہدیداروں نے ہرنسپل کےقتل کی مذمت کی ہے ۔

اس سلسلے میں فیڈریشن کے عہدیداروں کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ’بچے کے خاندان اور پرنسپل کے درمیان ایک راضی نامہ ہو چکا تھا اور پرنسپل نے خاندان کو دس ہزار روپے بھی ادا کر دیے تھے تاہم اس کے باوجود ایک انسان کی جان لے لی گئی۔‘

فیڈریشن نے واقعے کے بارے میں تحقیقات کرنے اور واقعے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث تمام افراد کو شامل تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

والد کی اٹلی سے پاکستان واپسی اور گھر میں ’ڈکیتی‘: گوجرانوالہ میں دو بہنوں کے پُراسرار قتل پر والدین کی گرفتاریکوئٹہ میں دو بھائیوں کا قتل: ’ملزم نے لاشوں کے ٹکڑے کیے اور گڑھا کھود کر انھیں گھر میں ہی دفن کر دیا‘ایبٹ آباد میں خواجہ سرا کا قتل: ’شادی کی تقریب کے دوران نوجوان نے گولیاں چلائیں‘حافظ آباد میں شوہر کے سامنے خاتون کا مبینہ گینگ ریپ: ’گرفتار ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا‘ثنا یوسف کا قتل: ’بہن کو آواز آئی کہ شاید کوئی غبارہ پھٹا ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More