پنجاب میں 65 برس بعد پروبیشن آرڈیننس میں تبدیلی، ’سزا سے زیادہ اصلاح پر زور‘

اردو نیوز  |  Jul 15, 2025

پنجاب حکومت نے معمولی جرائم میں ملوث افراد کو سزا کے بجائے ان کی اصلاح کے لیے 65 سال بعد قانون میں ترمیم کی ہے۔

پروبیشن آف آفنڈرز آرڈیننس 1960 میں ترمیم کے بعد اب معمولی جرائم میں ملوث ملزمان کی بڑی تعداد کو سزا سے بچایا جا سکے گا۔ اب پروبیشن پر رہنے والوں کو نہ صرف لیکچرز سننے ہوں گے بلکہ کمیونٹی سروس بھی لازمی کر دی گئی ہے، جو ان کی صلاحیتوں اور ہنر کے مطابق ہو گی۔ یہ ترمیم سنہ 1960 کے بعد اس قانون میں پہلی بڑی تبدیلی ہے۔

پروبیشن قانون ہے کیا؟پروبیشن آف افنڈرز آرڈیننس 1960 پاکستان کا ایک اہم فوجداری قانون ہے جو معمولی جرائم میں ملوث افراد کو جیل کی سزا کے بجائے اصلاح کا موقع دیتا ہے۔ اس قانون کے تحت عدالت ملزم کو پروبیشن افسر کی نگرانی میں رہائی دے سکتی ہے، بشرطیکہ وہ اچھے کردار کا مظاہرہ کرے۔ پروبیشن کا مقصد ملزم کو معاشرے میں دوبارہ ضم کرنا اور جرم سے روکنا ہے۔

پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’حالیہ ترمیم نے اس قانون کو ایک نئی جہت دی ہے۔ اب پروبیشن پر رہنے والوں کے لیے کمیونٹی سروس لازمی قرار دی گئی ہے، جو ان کی مہارتوں کے مطابق ہو گی۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ملزم نائی، درزی یا کمپیوٹر ماہر ہے، تو وہ اپنے ہنر کو استعمال کرتے ہوئے مقامی کمیونٹی کی خدمت کرے گا، جیسے کہ غریبوں کے لیے مفت بال کاٹنا، سکولوں میں کپڑے سلائی کرنا یا کمپیوٹر کی تعلیم دینا۔ اس سے پہلے پروبیشن کے دوران ملزمان کو لیکچرز یا کونسلنگ سیشنز میں شرکت کرنی پڑتی تھی، جو اکثر غیرموثر ثابت ہوتے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پروبیشن بنیادی طور پر سزا سے زیادہ اصلاح پر زور دیتا ہے۔ نئی ترمیم سے ملزمان کو اپنی صلاحیتوں کے ذریعے معاشرے کی خدمت کرنے کا موقع ملے گا، جو ان کی خود اعتمادی اور سماجی قبولیت کو بڑھائے گا۔‘

’لوگوں کی مدد کا احساس مجھے دوبارہ جرم سے دور رکھتا ہے‘

لاہور کے ایک 22 سالہ نوجوان عبداللہ کو معمولی چوری کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ عدالت نے حال ہی میں انہیں تین سال کی پروبیشن پر رہا کیا ہے، بشرطیکہ وہ اپنی مہارت (بطور الیکٹریشن) کو کمیونٹی سروس کے لیے استعمال کریں۔ عبداللہ نے مقامی یتیم خانے میں مفت برقی مرمت کا کام شروع کیا۔

اس کمیونٹی سروس کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’میں نے سوچا تھا کہ میری زندگی ختم ہو گئی اور میں جیل میں رہوں گا، لیکن اب میں لوگوں کی مدد کر رہا ہوں۔ یہ احساس مجھے دوبارہ جرم سے دور رکھتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے میری کوئی نیکی کام آ گئی ہے۔‘

لاہور کی ایک عدالت نے معروف یوٹیوبر رجب بٹ کو غیرقانونی طور پر شیر کا بچہ رکھنے پر اپنے ولاگز کے ذریعے لوگوں کو اس بابت آگاہی پھیلانے کا حکم دیا تھا کہ وہ اپنے ولاگز میں لوگوں کو بتائیں کہ یہ کام غیرقانونی ہے۔ تاہم انہوں نے ابتدائی چند دن اس پر عمل کیا جس کے بعد عدالت کے دوبارہ نوٹس کرنے پر انہوں نے اس پر دوبارہ عمل کیا۔

اسی طرح ایک 30 سالہ خاتون رابعہ (فرضی نام)، جنہیں دکان سے چھوٹا موٹا سامان چرانے کے جرم میں پروبیشن دی گئی، اب اپنی سلائی کی مہارت سے مقامی سکول کے بچوں کے لیے یونیفارم تیار کرتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں نے توبہ کی ہے، میرے سے ایک غلطی ہوئی تھی اب میں اپنے ہاتھوں سے کچھ اچھا کر رہی ہوں اور لوگ مجھے عزت دیتے ہیں۔‘

عدالت نے یوٹیوبر رجب بٹ کو ولاگز کے ذریعے لوگوں کو آگاہی پھیلانے کا حکم دیا تھا۔ (فائل فوٹو: سکرین گریب)پاکستان میں پروبیشن کے سالانہ اعداد و شمار محدود ہیں، کیونکہ سرکاری ادارے اس حوالے سے جامع ڈیٹا شائع نہیں کرتے۔ تاہم پنجاب پروبیشن اینڈ پیرول سروس کی 2023 کی ایک تخمینہ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں سالانہ تقریباً 15 ہزار سے 20 ہزار افراد پروبیشن پر رہا کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے 70 فیصد معمولی جرائم (جیسے چوری، جھگڑا، یا عوامی مقامات پر بدتمیزی) میں ملوث ہوتے ہیں۔ نئی ترمیم کے بعد پنجاب پروبیشن اینڈ پیرول ڈیپارٹمنٹ نے اندازہ لگایا کہ سنہ 2025 میں کم از کم 10 ہزار سے زائد ملزمان کمیونٹی سروس کے پروگرام میں بھی شامل ہوں گے۔

پاکستان پینل کوڈ کے تحت معمولی جرائم میں ملوث افراد پروبیشن کے اہل ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کا جرم سنگین نہ ہو اور وہ اچھے کردار کا وعدہ کریں۔ پروبیشن کی مدت عام طور پر ایک سے تین برس ہوتی ہے، جس دوران پروبیشن افسر ملزم کی نگرانی کرتا ہے۔

عالمی سطح پر پروبیشن ایک پختہ نظام کے طور پر ترقی کر چکا ہے۔ امریکہ میں پروبیشن کو 19ویں صدی سے استعمال کیا جا رہا ہے اور آج وہاں سالانہ 40 لاکھ سے زائد افراد پروبیشن یا پیرول پر ہوتے ہیں۔ امریکی نظام میں کمیونٹی سروس، الیکٹرانک مانیٹرنگ، اور بحالی پروگرام شامل ہیں۔ مثال کے طور پر کیلیفورنیا میں معمولی جرائم کے ملزمان کو مقامی پارکوں کی صفائی یا خیراتی اداروں میں خدمات کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

کیلیفورنیا میں معمولی جرائم کے ملزمان کو پارکوں کی صفائی یا خیراتی اداروں میں بھیجا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو: گیسٹن گزٹ)

برطانیہ میں کمیونٹی آرڈرکے تحت ملزمان کو 40 سے 300 گھنٹے کی کمیونٹی سروس سرانجام دینی پڑتی ہے۔ وہاں پروبیشن سروسز مقامی اداروں کے ساتھ مل کر ملزمان کی مہارتوں کو ترقی دینے پر توجہ دیتی ہیں، جیسے کہ تعمیراتی کام یا تعلیمی ورکشاپس۔ جرمنی میں پروبیشن کے ساتھ نفسیاتی کونسلنگ اور پیشہ ورانہ تربیت کو لازمی قرار دیا گیا ہے، جو دوبارہ جرم کی شرح کو کم کرتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ترقی یافتہ ممالک میں پروبیشن کی بدولت دوبارہ جرم کی شرح 20-30 فیصد تک کم ہوئی ہے۔

’مقامی کمیونٹیز اور این جی اوز کے ساتھ تعاون ضروری ہے‘ماہرین قانون نے اس ترمیم کو مجموعی طور پر خوش آئند قرار دیا ہے لیکن ساتھ کچھ تحفظات بھی اٹھائے ہیں۔ سابق سیکریٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شمیم ملک کا کہنا تھا کہ ’کمیونٹی سروس کا اضافہ ایک مثبت قدم ہے، کیونکہ یہ ملزمان کو معاشرے کا مفید حصہ بننے کا موقع دیتا ہے۔ تاہم اس کے نفاذ کے لیے مضبوط نگرانی کا نظام ضروری ہے تاکہ پروبیشن افسر بدعنوانی سے بچ سکیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پروبیشن کے دوران ملزمان کی مہارتوں کی درست شناخت اور مناسب تربیت کے بغیر یہ پروگرام ناکام ہو سکتا ہے۔

قانون اور انسانی حقوق کی ماہر ایڈووکیٹ تمنا شریف کے مطابق ’یہ ترمیم عالمی معیارات سے ہم آہنگ ہے، لیکن اسے کامیاب بنانے کے لیے مقامی کمیونٹیز اور این جی اوز کے ساتھ تعاون ضروری ہے۔ اگر ملزمان کو مناسب رہنمائی نہ ملی تو کمیونٹی سروس محض ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جائے گی۔‘

ایڈووکیٹ تمنا شریف کے مطابق ’اس ترمیم کو کامیاب بنانے کے لیے مقامی کمیونٹیز اور این جی اوز کے ساتھ تعاون ضروری ہے۔‘ (فائل فوٹو: ایکس)نئی ترمیم کے باوجود پروبیشن نظام کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ پنجاب پروبیشن اینڈ پیرول ڈیپارٹمنٹ کے پاس پروبیشن افسروں کی تعداد محدود ہے، جو ہزاروں ملزمان کی نگرانی کے لیے ناکافی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب میں فی پروبیشن افسر اوسطاً 100 ملزمان کی نگرانی کرتا ہے، جبکہ عالمی معیار 30 سے 50 تک ہے۔ اس کے علاوہ کمیونٹی سروس کے پروگراموں کے لیے فنڈنگ اور تربیتی مراکز کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ حکومت کو این جی اوز، مقامی اداروں اور نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری کرنی چاہیے۔ ایڈووکیٹ شمیم ملک کے مطابق ’اگر ہم ملزمان کو ہنر سکھانے کے لیے ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز قائم کریں، تو وہ نہ صرف معاشرے کا حصہ بنیں گے، بلکہ معاشی طور پر خود مختار بھی ہو سکیں گے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More